Yearly Archives: 2005

تبصرہ کا معتدل نظام اور معذرت

بلاگر ڈاٹ کام نے نیا ” تبصرہ کا معتدل نظام” متعارف کرایا تھا جسے میں نے چار یوم قبل نصب کیا ۔ میں پیر کو الدصبح ایک رشتہ دار کی وفات کے سلسلہ میں لاہور چلا گیا ۔ چنانچہ اس دوران جو تبصرہ ہوا وہ منگل کی شام تک شائع نہ ہو سکا ۔ اس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں ۔

عید الفطر کیا لائی ہے

اللہ یہ عید الفطر سب مسلمانوں کے لئے مبارک کرے بالخصوص زلزلہ کے متاءثرین پر اپنی خاص رحمتیں نازل کرے ۔

یہ عید بھی کیا عید ہے نہ نئے کپڑے بنانے کا خیال آیا نہ ہلال نو دیکھنے کا ۔ ایک عید میں نے 1947 میں دیکھی تھی ۔ والدین سے دور لواحقین سے بچھڑے ہوۓ کسی کا پتہ نہ تھا کہ وہ زندہ بھی ہیں اور ہر وقت یہی خدشہ کہ شائد اگلے ہی لمحے راشٹریہ سیوک سنگ ۔ ہندو مہاسبھہ یا اکالی دل کے مسلحہ دستے حملہ آور ہوں گے اور ہمیں کاٹ کے رکھ دیں گے ۔ ڈیڑھ ماہ اسی طرح گذرا تھا مگر ایک لمحہ کے لئے آنکھیں نم نہ ہوئی تھیں سواۓ اس دن کے جب ایک جوان نے آ کر بتایا تھا کہ سب مر گئے ۔ اس سال یہ کیسی عید آئی ہے کہ آنکھوں کی برسات لگی ہے اور دل ہے کہ کچلا چلا جاتا ہے ۔ مگر کیا کروں بوڑھوں کو دیکھوں یا جوانوں کو یا بچوں کو ہر طرف ایک ہی نقشہ ہے ۔ کسی کے سر پر پٹی بندھی ہے تو کسی کی ٹانگ پر پلستر چڑھا ہے ۔ کسی کی ٹانگ کاٹی جا چکی ہے اور کسی کا بازو ۔ معصوم بچوں کا بھی یہی حال ہے ۔ کئی بچے 26 دن گذرنے کے بعد بھی سہمے ہوۓ ہیں اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ کئی معصوم بچے ہیں جن کے نہ والدین کا پتہ ہے نہ کسی عزیز رشتہ دار کا ۔

لوگ تحفے دیتے ہیں تو لمحہ بھر کے لئے اپنی تکلیف بھول کر پھول سے بچے مسکرا دیتے ہيں ۔ بے سر و سامانی کی حالت میں بھی نہ صرف اللہ بلکہ لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ واپسی اختیار کرتے وقت جب کوئی کہہ اٹھتا ہے کل بھی آئیں گے نا ۔ ذرا جلدی آنا ۔ تو پھر قدم رک جاتے ہیں اور دل واپس آنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ آج کچھ بچوں نے میرے بیٹے کے ساتھ کرکٹ کھیلی اور بہت خوش ہوۓ ۔ میرا بیٹا اور بہو شروع دن سے ہی روزانہ کسی کیمپ میں چار پانچ گھنٹے لگا کر آتے ہیں ۔پرسوں رات میری بیٹی پہنچ گئی تھی وہ بھی شامل ہو گئی ۔ آج تو تینوں قبل دوپہر کے گئے ہوۓ افطاری کے وقت پنچے اور افطاری کر کے پھر چلے گئے کہ اب دوسرے کیمپ تحفے تقسیم کرنے ہيں ۔ رات کے گیارہ بج گئے ہیں اور ابھی تک واپس نہیں لوٹے ۔ میں ساتھ نہ گیا – بازار سے اشیاء لا کر ملازمین کی مدد سے ایک سو بچوں کے لئے تحفوں کے پیکٹ تیار کئے ۔ میرے دونوں بھائی بھی آج یہی کام کرتے رہے ۔ بہت سے دیگر لوگ بھی آجکل یہی کر رہے ہیں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ سوئی ہوئی قوم جاگ اٹھی ۔

کسی کے پاس زمین پر بچھانے کے لئے کوئی دری بھی نہیں ۔ وہ گدلی اور ٹھنڈی زمین پر ہی بٹھتے اور لیٹتے ہیں ۔ صاحب دل لوگ آہستہ آہستہ ان کی ضروریات پوری کر رہے ہیں ۔ سی ڈی اے کے ملازمین ان کی حفاظت اور دیگر معاملات سنبھالے ہوۓ ہیں ۔

کمال تو یہ ہے کہ کیمپ جا کے اگر پوچھیں کہ آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے تو جواب ملتا ہے کہ اللہ کا شکر ہے ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ۔ پھر وہاں جانے والے واقف کار لوگوں سے مشورہ کیا جاتا ہے کہ جو وہ دیں گے اس کی بجاۓ کچھ اور دیا جاۓ ۔

اعجاز آسی نے کیا کیا ۔ ایک خاکہ

گذری رات 10 بجے میرے موبائل کی گھنٹی بجی ۔ اعجاز آسی صاحب لائین پر تھے جن کی آواز سننے کا پچھلے 5 دن سے شدید انتظار تھا ۔ انہوں نے سرکاری اداروں کی طرف سے رہبری مفقود ہونے کا ذکر کرتے ہوۓ بتایا کہ متاءثرہ علاقہ میں رضاکار اللہ پر بھروسہ کرتے ہوۓ سارے فیصلے اپنی دانش کے مطابق کر رہے ہیں کہ کہاں جانا ہے اور کیا کرنا ہے ۔ رضاکاروں کی رہبری اور مدد صرف مجاہدین کی تنظیمیں کر رہی ہیں جن میں سے کئی پر ماضی میں ہماری حکومت پابندی لگا چکی ہوئی ہے ۔ وقت ملنے پر اعجاز آسی صاحب اپنے تاءثرات قلمبند کریں گے ۔ فی الحال ان کی انگریزی میں تحریر کرہ ای میل کا ترجمہ حاضر ہے ۔بدھ ۔ 2 نومبر 2005 رات 9 بجکر 7 منٹ 38 سیکنڈ
منجانب : اعجاز آسی

الحمدللہ ۔ آزاد کشمیر کی لائن آف کنٹرول تک کی وادیوں میں چار دن کی ایک جسمانی اور روحانی حیات افروز آزمائش کے بعد اپنے آبائی گھر شہر میں پہنچ گیا ہوں ۔

میں روشن خیال 9 مرد ڈاکٹروں اور 2 خواتین ڈاکٹروں جن میں سے ایک فوج کے سابق کرنل تھے ایک خاتون رضاکار (پیرامیڈک) کے ساتھ تھا ۔ ان نفیس صاحب ایمان خواتین و حضرات کے ساتھ میں 7 گھنٹے سلسلہء کوہ پر سفر کرتے ہوۓ تلگراں اور سربتاں کے دیہات میں پہنچا ۔ زلزلہ جس نے ہماری زندگیوں کو جھنجوڑ کے رکھ دیا کے 3 ہفتے بعد وہاں ہم پہلی میڈیکل اور زمینی امدادی ٹیم تھے ۔ تفصیلات میں انشاء اللہ جس قدر جلد ممکن ہو سکا لکھوں گا ۔ میں اللہ قادر مطلق کا احسانمند ہوں جس نے ہمیں ان پہاڑوں پر چڑھنے کا حوصلہ اور طاقت عطا کی جنہیں سر کرنا ناقابل تسخیر خیال کیا جاتا تھا ۔ بغیر اللہ کی دستگیری کے ان تین نفیس خواتین نے سینکڑوں مایوس گھرانوں کو امید ۔ منزلت اور محبت کا پیغام نہ دیا ہوتا ۔

میں اپنے میزبانوں لشکر طیّبہ کے اراکین (ایک ممنوعہ تنظیم جس کا نیا نام جماعت الدعوی ہے) کا ممنون ہوں کہ ان کی رہبری اور مدد کے بغیر ہم اس جگہ ایک دن میں نہیں پہنچ سکتے تھے اور ہم نے یقین نہ کیا ہوتا کہ انسانی روح اللہ کی عزمت کو محفوظ رکھنے کے لئے کتنا کچھ سہار سکتی ہے ۔

میں اپنی ٹیم کی خواتین ارکان جو نسوانی صبر ۔ قوت اور دردمندی کی علامت تھیں کے ساتھ چلنے پر اپنے آپ کو مقدم محسوس کرتا ہوں ۔ میں اللہ کا شکرگزار ہوں اور فخر محسوس کرتا ہوں کہ میں ایک ایسی ٹیم کا رکن رہا جس کے ارکان نے ذاتی تکالیف اور مسائل کو بالا طاق رکھ کر 11 گھنٹوں میں 800 مریضوں کی دیکھ بھال کی جن میں سے بہت سے ایسے تھے کہ اگر یہ علاج میسر نہ آتا تو زندگی کی کشمکش میں مبتلاء ہو جاتے ۔

مجھے امید ہے کہ میری ٹیم کے ارکان (سواۓ کرنل طارق کے) اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہوں گے لیکن ہم میں سے کسی کی زندگی پہلے والی نہیں رہے گی جیسا کہ ہم نے سیکھا ہے کہ ہر دن اپنے سینے میں ایک ابدیت لئے آتا ہے جو دوسری کئی زندگیوں کو شکل دیتا ہے ۔

آئیے ہم عید پر صدق دل سے دعا کریں ان لوگوں کے لئے جو اس زلزلہ میں مر گئے اور ان کے لئے جو تاحال بے گھر ۔ بغیر خوراک کے ہیں ۔ زخمیوں ۔ یتیموں اور بیواؤں کے لئے ۔ مزید اللہ سے دعا کریں کہ متاءثرین کو اپنی محرومیوں سے مقابلہ کے لئے قوت اور حوصلہ عطا کرے اور اس زلزلہ سے جو سبق حاصل ہوا ہے اس کا شعور عطا کرے ۔ آئیے اس نور کی خواہش کریں جو باہمی محبت اور امن کا حامل ہوتا ہے اور اندھیروں کر ختم کر کے دلوں کو سکون بخشتا ہے ۔ آمین ۔

اج آکھاں وارث شاہ نوں

اج آکھاں وارث شاہ نوں کتوں قبراں وچون بول
تے اج کتابے عشق دا کوئی اگلا ورقہ پھول
اک روئی سی دھی پنجاب دی توں لکھ لکھ مارے وین
اج لکھاں دھیآں رودیاں تینوں وارث شاہ نوں کہن
اٹھ دردمنداں دیا دردیا تک اپنا دیس پنجاب
اج بیلے لاشاں وچھیاں تے لہو دی بھری چناب
کسے نے پنجاں پانیاں وچ اج دتی زہر رلا
تے اوہناں پانیاں نوں دتا دھرت نوں لا
جتھے وجدی پھوک پیار دی او ونجلی گئی گواچ
رانجھے دے سب ویر اج بھل گئے اوس دی جاچ
دھرتی تے لہو وسیا تے قبراں پیّئاں چون
پریت دیاں شہزادیاں اج وچ مزاراں رون
اج کتھوں لیآئیے لب کے وارث شاہ اک ہور
اج تے سبے کیدو بن گئے حسن عشق دے چور

امریتا پرتم کور ۔ چھ ماہ کی علالت کے بعد 31 اکتوبر 2005 کو بھارت میں فوت ہو گئی ۔ وہ 31 اگست 1919 کو پنجاب کے اس حصہ میں پیدا ہوئی تھی جو اب پاکستان میں شامل ہے ۔ 1947 میں ہجرت کر کے بھارت چلی گئی تھی ۔ اس نے شاعری اور نثر کی ایک سو کے لگ بھگ کتب لکھیں جن میں حقیقت کا ساتھ نہ چھوڑا اور خاصی تنقید کا نشانہ بنی ۔ مندرجہ بالا نظم اس نے 1947 کے قتل عام سے متاءثر ہو کر لکھی تھی ۔ جس نے بھارت میں اس پر تنقید کی بوچھاڑ کر دی تھی ۔

مجھے یاد نہیں پڑتا کہ میں نے یہ نظم کہاں سے پڑھی تھی یقینی بات ہے کہ کہیں سے بھارت میں چھپا ہوا کوئی اخبار یا رسالہ ہاتھ لگ گیا ہو گا ۔ مگر یوں محسوس ہوتا ہے کہ بچپن سے ہی مجھے یاد ہے ۔ جو قاری پنجابی نہیں جانتے ان کی خاطر نیچے اردو ترجمہ کرنے کی اپنی سی کوشش کی ہے ۔ غلطیوں کی معذرت پیشگی ۔

آج کہوں وارث شاہ سے کہیں قبروں میں سے بول
اور آج کتاب عشق کا کوئی اگلا صفحہ کھول
ایک روئی تھی بیٹی پنجاب کی تو نے لکھ دیئے تھے بہت بین
آج لاکھوں بیٹیاں رو رو کے اے وارث شاہ تجھے کہیں
اٹھو دردمندوں کے دردمند دیکھو اپنا دیس پنجاب
آج میدانوں میں لاشیں پڑی ہیں اور لہوسے بھرگیا چناب
کسی نے پانچوں پانیوں میں آج دیا ہے زہر ملا
اور ان پانیوں سے زمینوں کو کر دیا ہے سیراب
جس میں بجتی تھی پھونک پیار کی وہ بانسری ہو گئی گم
رانجھے کے سارے بھائی آج بھول گئے اسے بجانے کا طریقہ
دنیا پر خون برسا اور قبروں میں بھی لگا ٹپکنے
پیار بھری شہزادیاں آج مزاروں میں بیٹھ کے روئیں
آج تو سب ہی کیدو بن گئے اور حسن و عشق کے چور
آج کہاں سے لائیں ڈھونڈ کے وارث شاہ ایک اور

ایک تنتبو لا دو نا ۔ ۔چھ سالہ بچے کا انٹرویو

گڑھی حبیب اللہ کے گورنمنٹ سکول میں پہلی جماعت کے طالب علم منّان سے بی بی سی کے وسعت اللہ خان کی گفتگو ۔

صحافی ۔ تمہارے گھر میں کتنے لوگ باقی ہیں ؟

منّان ۔ صاحب ایک تنبو لا دو نا ۔ (تنبو خیمے کا دوسرا نام ہے)

صحافی ۔ اچھا یہ بتاؤ منان تمہارے ابو کیا کرتے ہیں؟

منّان ۔ کہیں سے ایک تنبو منگوا دو!

صحافی ۔ منان تمھارے کتنے ہم جماعت ملبے میں دب گئے؟

منّان ۔ مجھے تنبو کہاں سے ملےگا!

صحافی ۔ اچھا چلو گاڑی میں بیٹھو۔میں تمھیں ایک کیمپ سے کچھ کھانے پینے کا سامان دلانے کی کوشش کروں۔مگر تم تو چھوٹے سے ہو آخر کتنا وزن اٹھا پاؤ گے؟

منّان ۔ صاحب کسی سے کہہ دو نا، ہمیں صرف ایک تنبو دے دے!

صحافی ۔ چلو تم میرے ساتھ نہیں چلتے نہ سہی۔یہ تو بتادو کہ جب تم رات کو سوتے ہو تو کس طرح کے خواب دیکھتے ہو؟

منّان ۔ مجھے اور میری بہن کو سردی لگتی ہے آپ ایک تنبو تو دلواسکتے ہونا!

صحافی ۔ منان کیا میں تمہیں مظفرآباد یا اسلام آباد کی اس ڈیلی بریفنگ میں لے جاؤں جس میں تم خود سن لوگے کہ حکومت کتنی جان توڑ کوشش کررہی ہے ہر خاندان کو سردیاں شروع ہونے سے پہلے تنبو دینے کے لئے۔ بس کچھ دنوں کی بات ہے۔تم اکیلے تو نہیں ہونا منان! دس لاکھ ٹینٹوں کی ضرورت ہے اور ان میں سے ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ آ بھی چکے ہیں۔یقین نہیں آتا تو چلو کسی افسر سے ملوادوں۔اقوامِ متحدہ کے کسی اہلکار سے پوچھ لو۔بولو کس سے ملوگے ؟

منّان ۔ آپ میرے ابو کو لے جائیں نا اور انہیں کسی سے بھی ایک تنبو دلوادیں!

جن کے پورے پورے یا آدھے خاندان ختم ہوگئے انہیں اس سے کیا کہ عالمی برادری ڈیڑھ کروڑ ڈالر چندہ دیتی ہے یا اٹھاون کروڑ ڈالر۔

انہیں اس بات کی کیوں پروا ہو کہ حکومت نے پہلے پہل جذباتی ہوکر فی ہلاک شدہ ایک لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کیوں کیا اور پھر اسے ایک لاکھ روپیہ فی خاندان کیوں کردیا۔

وہ کیوں اس بات پر کان دھریں کہ انکے لئے فائبر گلاس کے گھر کب اور کہاں بنیں گے۔

چین سے تین لاکھ ٹینٹ جلدآ رہے ہیں ! آیا کریں۔

نیٹو کی فوج اور مزید امریکی شنوک پہنچ رہے ہیں ! پہنچتے رہیں۔