Yearly Archives: 2005

چاء کی دریافت کب ہوئی اور ٹی کیسے بنی ؟

پہلی قسط ۔ ہند و پاکستان کونسی چائے پی جاتی تھیں
دوسری قسط ۔ چائے اور انگریز کی مکّاری

تیسری قسط

چاۓ کی دریافت آج سے 4740 سال قبل ہوئی ۔ کہا جاتا ہے کہ چین (شین یا سین) میں شہنشاہ دوم شین نونگ ( 2737 سے 2697 قبل مسیح) نے علاج کے لئے دیگر جڑی بوٹیوں کے ساتھ چاء بھی دریافت کی ۔ شین نونگ کا مطلب ہے چین کا مسیحا ۔ چاء ایک سدا بہار جھاڑی کے پتّوں سے بنتی ہے ۔ شروع میں سبز پتوں کو دبا کر ٹکیاں بنا لی جاتیں جن کو بھون لیا جاتا تھا ۔ استعمال کے وقت ٹکیہ کا چورہ کر کے پیاز ۔ ادرک اور مالٹے یا سنگترے کے ساتھ ابال کر یخنی جس کو انگریزی میں سوپ کہتے ہیں بنا لی جاتی اور معدے ۔ بینائی اور دیگر بیماریوں کے علاج کے لئے پیا جاتا ۔ساتویں صدی میں چاء کی ٹکیہ کا چورا کر کے اسے پانی میں ابال کر تھوڑا سا نمک ملا کر پیا جانے لگا ۔ یہ استعمال دسویں صدی کے شروع تک جاری رہا ۔ اسی دوران یہ چاء تبت اور پھر شاہراہ ریشم کے راستے ہندوستان ۔ ترکی اور روس تک پہنچ گئی

سال 850 عیسوی تک چاء کی ٹکیاں بنانے کی بجائے سوکھے پتوں کے طور پر اس کا استعمال شروع ہو گیا ۔ دسویں یا گیارہویں صدی میں چاء پیالہ میں ڈال کر اس پر گرم پانی ڈالنے کا طریقہ رائج ہو گیا ۔ جب تیرہویں صدی میں منگولوں یعنی چنگیز خان اور اس کے پوتے کبلائی خان نے چین پر قبضہ کیا تو انہوں نے چاء میں دودھ ملا کر پینا شروع کیا ۔ عجیب بات یہ ہے کہ مارکوپولو نے اپنی چین کے متعلق تحریر میں چاء یا چائے کا کوئی ذکر نہیں کیا ۔ کیا مارکو پولو واقعی چین گیا تھا ؟

جسے آج ہم بھی مغربی دنیا کی پیروی کرتے ہوئے ٹی کہنے لگے ہیں اس کا قدیم نام چاء ہمیں 350 عیسوی کی چینی لغات یعنی ڈکشنری میں ملتا ہے ۔ شروع میں یورپ میں بھی اسے چاء (Chaw)ہی کہا جاتا تھا ۔ چھٹی یا ساتویں صدی میں بدھ چین سے چاء کوریا میں لے کر آئے ۔ کوریا میں کسی طرح ۔ سی ایچ ۔ کی جگہ ۔ ٹی ۔ لکھا گیا ۔ ہو سکتا ہے اس زمانہ کی کورین زبان میں ۔ چ ۔ کی آواز والا حرف ۔ ٹی ۔ کی طرح لکھا جاتا ہو ۔ دوسری تبدیلی یہ ہوئی کہ چاء کو Tay لکھا گیا ۔ اسطرح یورپ میں چاء ۔ ٹی اور ٹے ۔ بن گئی ۔ جرمنی میں اب بھی چاء کو ٹے کہتے ہیں ۔

باقی انشا اللہ آئیندہ

دنیا اور آخرت ۔ دونوں ہی جنّت

اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے دکھ بھلا دیں
اور اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں یاد رکھیں
اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے نقصان بھلا دیں
اور جو فائدے پائے ان سب کو یاد رکھیں
اگر ہم لوگوں میں عیب ڈھونڈنا چھوڑ دیں
اور ان میں خوبیاں تلاش کر کے یاد رکھیں
کتنی آرام دہ ۔ خوش کن اور اطمینان بخش
یہ دنیا بن جائے اس معمولی کوشش سے
اور اللہ کی مہربانی سے آخرت میں بھی جنّت مل جاۓ

اللہ اکبر ۔ سبحان اللہ ۔ جسے اللہ رکھے ۔

آج کی ترقی یافتہ سائنس یہ ماننے کے لئے تیار نہیں ہو گی کہ ملبے کے نیچے دبا کوئی انسان 15 دن سے زیادہ زندہ رہ سکتا ہے ۔ لیکن جب اللہ تعالی کی قدرت سے 63 دن بعد ایک انسان ملبے کے نیچے سے زندہ نکلتا ہے تو انسان کے بناۓ ہوۓ سائنس کے سارے اصول دھرے کے دھرے رہ جاتے ہیں اور انسان کہہ اٹھتا ہے “اور تم اللہ کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے ؟”مظفرآْباد سے 5 میل کے فاصلہ پر کمسر میں مقبوضہ کشمیر سے آۓ ہوۓ مہاجرین کا کیمپ ہے ۔ یہ مہاجرین 8 اکتوبر کے زلزلہ سے گرے ہوۓ مکانوں کا ملبہ ہٹا رہے تھے کہ 10 دسمبر کو ملبے کے نیچے دبی ہوئی ایک 45 سالہ خاتون زندہ ملی ۔ اس خاتون کے والدین اور دو بھائی اسی زلزلہ میں ہلاک ہو چکے ہیں ۔ دو دن یہ خاتون مقامی لوگوں کے پاس رہی ۔ 12 دسمبر کو جرمن ڈاکٹروں کی ایک ٹیم ٹیکے لگانے کے لئے وہاں پہنچی تو لوگوں نے بتایا کہ یہ خاتون ملبے کے نیچے سے نکلی ہے اور کچھ کھا پی نہیں رہی ہے ۔ جرمن ڈاکٹروں نے پاکستان اسلامِک میڈیکل ایسوسی ایشن کے ساتھ رابطہ کیا ۔ اس تنظیم کے ڈاکٹر وہاں گئے اور اس خاتون کو لیکر مظفرآباد آئے۔ اس خاتون کا وزن صرف 25 کلوگرام رہ گیا ہوا ہے ۔ مظفرآباد میں ڈاکٹر اس خاتون کا طبی معائنہ کررہے ہیں ۔ اس کی حالت کا صحیح پتہ چلنے کے بعد اسے مناسب طبّی اور دیگر امداد فراہم کی جائے گی

تصویر بشکریہ نواۓ وقت

چائے اور انگریز کی مکّاری

پہلی قسط ۔ ہند و پاکستان کونسی چائے پی جاتی تھیں

دوسری قسط

چائے کیسے اور کب بنی اس کے متعلق کچھ کہنے سے پہلے میں یہ گوش گزار کرنا چاہتا ہوں کہ تہذیب و تمدن میں یورپ اور امریکہ سے بہت پہلے ایشیا اور افریقہ بہت ترقّی کر چکے تھے ۔ اٹھارویں اور انیسویں صدی میں دولت کے نشہ میں اپنی لاپرواہیوں عیاشیوں اور اہل مغرب بالخصوص انگریزوں کی عیاریوں کے باعث ایشیا اور افریقہ کے لوگ رو بتنزّل ہو کر پیچھے رہتے چلے گئے ۔ ہندوستان میں ایسٹ انڈیا کمپنی کے کردار سے تو سب واقف ہی ہوں گے ۔ چین کے بارے بھی سنیئے ۔انگریزوں کو پہلی بار سبز چائے کا علم ستارھویں صدی کے شروع میں اس وقت ہوا جب 1615 عیسوی میں ایک شخص رچرڈ وکہم نے چائے کا ایک ڈبّہ شہر مکاؤ سے منگوایا ۔ اس کے بعد لگ بھگ تین صدیوں تک یورپ کے لوگ چائے پیتے رہے لیکن انہیں معلوم نہ تھا کہ چائے ہے کیا چیز ۔ اٹھارہویں صدی میں سبز چائے نے انگریزوں کے بنیادی مشروب ایل یا آلے کی جگہ لے لی ۔ انیسویں صدی کے شروع تک سالانہ 15000 میٹرک ٹن چائے چین سے انگلستان درآمد ہونا شروع ہو چکی تھی ۔

انگریز حکمرانوں کو خیال آیا کہ چین تو ہم سے بہت کم چیزیں خریدتا ہے جس کی وجہ سے ہمیں نقصان ہو رہا ہے ۔ انہوں نے افیون دریافت کی اور چینیوں کو افیون کی عادت ڈالی جو کہ چائے کے مقابلہ میں بہت مہنگی بھی تھی ۔ پوست کی کاشت چونکہ ہندوستان میں ہوتی تھی اس لئے ہندوستان ہی میں افیون کی تیاری شروع کی گئی ۔ یہ سازش کامیاب ہو گئی ۔ اس طرح انگریزوں نے اپنے نقصان کو فائدہ میں بدل دیا ۔ انگریزوں کی اس چال کے باعث چینی قوم افیمچی بن گئی اور تباہی کے قریب پہنچ گئی ۔ پھر چینیوں میں سے ایک آدمی اٹھا اور ہردل عزیز لیڈر بن گیا ۔ وہ موزے تنگ تھا جس نے قوم کو ٹھیک کیا اور افیمچیوں کو راہ راست پر لایا جو ٹھیک نہ ہوئے انہیں جیلوں میں بند کر دیا جہاں وہ افیون نہ ملنے کے باعث تڑپ تڑپ کر مر گئے ۔ جس کے نتیجہ میں آج پھر چین سب سے آگے نکلنے کو ہے ۔ یہ موذی افیون ہندوستانیوں کو بھی لگ گئی مگر ہندوستان بشمول پاکستان میں ابھی تک کوئی موزے تنگ پیدا نہیں ہوا ۔ میں نے ایک گذشتہ تحریر میں سائنس کی ایجادوں میں افیون کا ذکر کیا تھا سو یہ ہے حقیقت ۔

بیسویں صدی کے شروع میں انگریزوں کو فلپین لوگوں کے ذریعہ پتا چلا کہ چائے کی طرح کا پودا مشرقی ہندوستان کے علاقہ آسام میں پایا جاتا ہے چنانجہ اس کی باقاعدہ کاشت ہندوستان میں شروع کر کے کالی چائے تیار گئی جس کی پیداوار اب 200000 مٹرک ٹن سے تجاوز کر چکی ہے ۔

باقی انشا اللہ آئیندہ

ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ۔ ۔ ۔

آجکل ہمارا حال یہ ہے ۔ ۔ ۔
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پہ دم نکلے
بہت نکلے میرے ارمان مگر پھر بھی کم نکلے

سال کے شروع میں ایک بلاگر نے خواہش ظاہر کی “چونکہ مجھے مرزا غالب کی شاعری اور چائے پسند ہے اس لئے مرزا غالب بھی چائے پیتے ہونگے” ۔ میں نے لکھا تھا کہ چاۓ کی تاریخ تحریر کروں گا ۔ میں نے اپنے علمی خزانے سے معلومات اکٹھی کرنا شروع کر دیں تھیں کہ اچانک دین اور دنیا۔ پھر دین اور سائینس ۔ اس کے بعد تحریک آزادی جموں کشمیر کے متعلق سوال اٹھاۓ گئے اور میں حقائق واضح کرنے کی اپنی سی کوشش کرتا رہا ۔ اس کے بعد وہ ہوا جس نے نہ صرف زمین بلکہ جانداروں کو بھی جھنجوڑ کر رکھ دیا اور مجھے سب کچھ بھول گیا سواۓ متاءثرین زلزلہ کے ۔ اب میں اپنا قول پورا کرنے کی ابتداء کرتا ہوں ۔ اللہ سبحانہ و تعالی میری مدد فرماۓ ۔

مرزا اسد اللہ خان غالب 1796 میں پیدا ہوئے اور 1869 میں وفات پائی۔ اس زمانہ میں یہ کالی یا انگریزی چائے جو آجکل عام پی جاتی ہے ہندوستان میں وارد نہیں ہوئی تھی ۔ کالی چائے یا انگریزی چائے بیسویں صدی کے شروع میں ہندوستان میں متعارف کرائی گئی۔ بنیادی وجہ یہ تھی کہ ہندوستانی فوجیوں کو پہلی جنگ عظیم کے دوران سستی خوراک دی جائے۔ ایک برطانوی کمپنی نے ہندوستانی فوج کی خوراک کا خرچہ کم کرنے کے لئے بالخصوص تحقیق کر کے یہ کالی چائے دریافت کی ۔ یہ چائے بھوک کو مارتی ہے اس لئے اس کا انتخاب کیا گیا۔ ہندوستانی فوجیوں کو چائے ۔ بھنے ہوئے چنے اور کرخت بسکٹ بطور ناشتہ اور دوپہر اور رات کا کھانا دیا جاتا تھا۔

کالی چائے سے پہلے ہندوستان بلکہ ایشیا میں چار قسم کی چائے رائج تھیں اور نمعلوم کب سے زیر استعمال تھیں ۔
ایک ۔ جس کو آج ہم قہوہ یا سبز چائے کہتے ہیں ۔ لیمن گراس نہیں ۔
دو ۔ قہوہ ہلکے براؤن رنگ کا لیکن کالی پتی کا نہیں ۔
تین ۔ قہوہ گہرے براؤن رنگ کا جو کڑوا ہوتا ہے اور پاکستان کے شمالی علاقوں اور عرب ممالک میں اب بھی پیا جاتا ہے
چار ۔ نمکین چائے جسے کشمیری چائے بھی کہتے ہیں ۔جو آج کل بڑے ہوٹلوں میں بغیر نمک کے پلائی جا رہی ہے ۔

ہم نےگوری چمڑی کی تقلید میں چائے کی فائدہ مند قسمیں چھوڑ کر مضر کالی چائے اپنا لی ۔ دوسری علّت جو انگریز ہمیں دے گئے وہ سگریٹ ہے ۔ چائے تیار کر کے اور سگریٹ سلگا کر شرو‏ع میں ہندوستان کے لوگوں کو چوک میں کھڑے ہو کر مفت پلائے گئے اور گھروں کے لئے بھی مفت دیئے گئے ۔ جب لوگ عادی ہو گئے تو معمولی قیمت لگا دی گئی۔ پھر آہستہ آہستہ قیمت بڑھتی چلی گئی۔ آج ہماری قوم ان فضول اور نقصان دہ چیزوں پر اربوں روپیہ ضائع کرتی ہے ۔

محبت کا صلہ

جب کسی سے آپ بے پناہ محبت کریں
ضروری نہیں کہ وہ آپ سے محبت کرنے لگے
محبت کے بدلے میں محبت کی امید نہ رکھیئے
اس کے دل میں محبت جاگنے کا انتظار کیجئے
اس کے دل میں نہ بھی جاگے تو کم از کم آپ کے دل میں تو پیدا ہوئی
اور یہی آپ کی محبت کا صلہ ہے