Yearly Archives: 2005

ہم خوشی سے مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا ؟ ؟ ؟

ملاحظہ ہو ہمارے روشن خیال حکمرانوں کے اقوال کی سچائی اور ان کا آنے والا روشن خیال تعلیمی نظام ۔
جب شور ہوا تھا کہ بیکن ہاؤس کے سکولوں میں عریاں جنسی سوالنامہ مڈل سکول کے بچوں اور بچیوں میں تقسیم کیا گیا ہے تو ہماری ہمیشہ صحیح اور سچی موجودہ حکومت نے قرار دیا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا یہ دشمن یعنی اپوزیشن کا جھوٹا پراپیگنڈہ ہے بالخصوص دقیانوس اور جاہل ملّاؤں کا ۔ حکومتی اہلکاروں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ آغاخان بورڈ صرف امتحان لےگا اور سلیبس کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ۔

کسی نے سچ کہا ہے سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے ۔آغا خان یونیورسٹی کی ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز طلعت طیّب جی کے مطابق متذکّرہ بالا سوالنامہ سکولوں میں تقسیم کیا گیا تھا ۔ مزید طلعت طیّب جی کے مطابق آغا خان بورڈ ایک ایسا نظام دینے کی کوشش کر رہا ہے جس سے طالب علموں کو سیکھنے اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے مواقع حاصل ہوں ۔طلعت طیّب جی نے یہ بھی لکھا ہے کہ اردو کے سلیبس کی 32 کہانیوں میں سے عریاں جنسی کہانیاں جیسے پچھم سے چلی پروا اور سعادت حسن منٹو کی کھول دو سمیت سات کہانیاں استانیوں اور استادوں کے احتجاج کے بعد نکال دی گئی ہیں ۔

صورت حال یہ ہے کہ حکومت کے بڑے بڑے اہلکاروں نے سراسر جھوٹ پر جھوٹ بولے ۔ ثابت ہو گیا کہ عریاں جنسی سوالنامہ تقسیم کیا گیا تھا اور بارہویں جماعت تک سلیبس اور تعلیمی نظام بھی آغاخان بورڈ کے سپرد ہے ۔

والدین کے مطابق بقیہ 25 کہانیوں میں سے بھی زیادہ تر محظ عریاں جنسی یعنی پورنو ہیں ۔

کہانیاں صرف اردو کے سلیبس میں شامل کی گئی ہیں اور وہ زیادہ تر عریاں جنسی یعنی پورنو ہیں ۔ انگریزی کے سلیبس میں کوئی کہانی شامل نہیں ۔ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ سب کمسن طلباء اور طالبات کے دماغ کو پراگندہ کیا جائے کیونکہ آغا خان بورڈ کے خیال میں سب بچے شائد انگریزی نہ سمجھ سکیں اور جنسی عریانی سے بچ جائیں اسلئے کہانیاں صرف اردو میں رکھی گئی ہیں جو کہ عریاں جنسی یعنی پورنو ہیں ۔

تفصیل پڑھنے کی لئے یہاں کلک کیجئے اور پڑھئے برگیڈیئر ریٹائرڈ شمس الحق قاضی کا لکھا ہوا اسماعیلی آغاخانی وضاحتیں

دانیال صاحب کا استفسار ۔ چوتھی قسط

دانیال صاحب کا سوال ۔ کیا یہ بات صحیح نہیں کہ ہمارے مدارس کے طلباء اسامہ بن لادن کو ہیرو سمجھتے ہیں؟

اوسامہ کے متعلق پچھلے پچیس سال میں جو کچھ میں نے مختلف اخباروں اور جرائد میں پڑھا ہے اسے عسکری تربیت امریکی حکومت نے دلوائی اور دو ہزار عرب جوانوں کو عسکری تربیت دے کر ان کا سپہ سالار بنایا ۔ اوسامہ کو مجاہد اعظم امریکی حکومت نے بنایا اور دنیا کے مسلمانوں کی اکثریت نے امریکی پراپیگنڈا کے زیر اثر اسے مجاہد مان لیا ۔ دس سال بعد جب امریکی فوج نے سعودی عرب میں پکا ڈیرہ ڈال دیا تو جو تعلیم امریکہ نے روسیوں کے خلاف لڑنے کے لئے اوسامہ کو دی تھی اسی کے مطابق اس نے امریکیوں کو سعودی عرب سے نکلنے کا نوٹس دے دیا ۔ اس پر اسے دہشت گرد قرار دے دیا گیا اور اس نے افغانستان میں پناہ لی ۔ اوسامہ کے متعلق ساری خبریں یک طرفہ ہیں یعنی مغربی ذرائع ابلاغ سے ملتی ہیں ۔ الجزیرہ اور العربیہ ٹیلیویژن جو اوسامہ کی وڈیو اور آڈیو ٹیپ نشر کرتے ہیں وہ قطر کے حکمرانوں کے ہیں جو امریکہ کے غلام ہیں اور اب تو ظاہرہ طور پر بھی الجزیرہ ایک امریکن ٹیلیویژن نے خرید لیا ہوا ہے ۔ مسلمانوں کی اکثریت اوسامہ کو دہشت گرد ماننے کے لئے تیار نہیں ۔

مزید امریکی حکومت کے کئی دہائیوں پر پھیلے ہوئے ایشیا اور افریقہ کے لوگوں پر جبروتشدد کی وجہ سے بے شمار لوگ بالخصوص مسلمان امریکی حکومت سے نفرت کرتے ہیں اور اس کا اظہار وہ امریکی حکومت کے مخالف کی تعریف کر کے کرتے ہیں ۔ مدرسوں کے طلباء کی تخصیص ٹھیک نہیں زیادہ تر پاکستانی ۔ دوسرے ملکوں کے مسلمان بلکہ کئی غیرمسلم بھی اوسامہ کو بے قصور سمجھتے ہیں ۔ اوسامہ بن لادن کو دہشت گرد ثابت کرنا ابھی باقی ہے لیکن اسے دہشت گرد بنانے والے لازمی طور پر دہشت گرد ہیں ۔مجھے کبھی کبھی خیال آتا ہے کہ اوسامہ بن لادن یا تو اس وڈیو کے بننے سے پہلے مر چکا تھا جس میں اسے گیارہ ستمبر کے حملہ کا اقرار نما ذکر کرتے دکھایا گیا تھا یا امریکہ کے پاس محفوظ ہے اور امریکی حکومت ساری دنیا کو بیوقوف بنا رہی ہے ۔ اگر صدّام حسین کی گرفتاری کی وڈیو اور گرفتاری کے وقت کے اعلان پر غور کیا جائے تو یوں محسوس ہوتا ہے کہ صدّام حسین کی گرفتاری کا ڈرامہ رچایا گیا تھا وہ پہلے ہی امریکی حکومت کے پاس تھا ۔ تو ایسا اوسامہ کے لئے کیوں نہیں ہو سکتا ۔ البتہ ملّا عمر امریکی حکومت کے لئے پریشانی کا باعث ہے کیونکہ افغانیوں کی اکثریت ملّا عمر کی دشمن ہونے کی بجائے امریکی قبضہ کے خلاف ہے ۔

دانیال صاحب کا سوال ہے ۔ اور ایسا کیوں ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ہونے والی تحقیقات کی تان پاکستان پر آ کر ٹوٹتی ہے؟

دہشت گردی کے خلاف تحقیقات کی تان پاکستان پر آ کر ٹوٹتی نہیں بلکہ یہ مذموم پراپیگینڈہ کے تحت توڑی جاتی ہے ۔ یہ حقیقت اظہرمن الشمس ہے کہ آج تک جتنے لوگ دہشت گردی کے مجرم یا ملزم قرار دیئے گئے ہیں ان کا کسی بھی دینی مدرسہ کے ساتھ تعلق تو کجا ان کا تعلق پاکستان سے بھی ثابت نہیں ہوا مگر اندھی طاقت کے زور پر مدرسوں اور مدرسوں میں پڑھے ہوئے بے قصور لوگوں اور پاکستانیوں پر انتہاء پسندی اور دہشت گردی کا لیبل لگایا جارہا ہے اور ان کے ساتھ زیادتی بھی کی جا رہی ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اپنے سب سے بڑے دشمن روسی یونین کو توڑنے کے بعد اب مغربی طاقتیں اسلام کو اپنا سب سے بڑا دشمن سمجھتے ہوئے مسلمانوں کو ختم کرنے کے پروگرام پر عمل پیرا ہیں اور پاکستان ایٹمی طاقت ہونے کی وجہ سے ان کی آنکھ میں بہت زیادہ کھٹکتا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ ہماری حکومت کے بادشاہ سے بڑھ کر بادشاہ کا خیرخواہ قسم کے رویّے کے باوجود پاکستان پر بہت زیادہ دباؤ ڈالا جا رہا ہے ۔گیارہ ستمبر اور اس کے بعد ہونے والے دھماکوں میں جو طریقہ استعمال کیا گیا اس کے لئے مندرجہ ذیل میں مہارت لازمی تھی ۔

علاقائی زبان پر عبور
علاقائی رسوم سے واقفیت
ذرائع رسل و رسائل کا علم
دستیاب کیمیائی مواد سے طاقتور دھماکہ خیز مواد تیار کرنے کا عملی تجربہ
بم تیار کرنے اور دھماکہ کرنے کے سلسلہ میں مہارت

پاکستان میں قائم دینی مدارس کا تعلق دہشت گردی کے ساتھ جوڑنے سے پہلے کم از کم پڑھے لکھے لوگوں کو یہ سوچنا چاہیئے کہ مدرسوں میں اس قسم کی تعلیم و تربیت کا انتطام ہے یا نہیں ۔ لندن دھماکوں میں ایسیٹون پرآکسائیڈ استعمال کیا گیا جو بہت حسّاس دھماکہ خیز مواد ہے ۔ معمولی سی بے احتیاطی دھماکہ کا باعث بن سکتی ہے ۔اس کے استعمال کے لئے اعلی درجے کی مہارت کی بھی ضرورت ہے ۔ دوسرے اس کام کے لئے سائنس اور الیکٹرونکس کی سمجھ بھی ہونی چاہیئے ۔ دینی مدرسوں میں کوئی بھی ایسا استاد نہیں ہے جو یہ علم رکھتا ہو اور نہ ان مدرسوں کے پاس کوئی ایسا انتظام ہے ۔ ایسی تعلیم و تربیت کا انتظام صرف خفیہ اداروں میں ہوتا ہے جیسے امریکہ کا سی آئی اے ۔ بھارت کا را یا پاکستان کا آئی ایس آئی ۔

میں پاگل ہوں بیوقوف نہیں

دماغی امراض کے ہسپتال کے سب سے بڑے ڈاکٹر صاحب شام کو فارغ ہو کر گھر جانے کے لئے اپنی کار کے پاس پہنچے تو سر پکڑ کر رہ گئے ۔ ایک مریض اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھ رہا تھا بولا
مریض ”ڈاکٹر صاحب ۔ کیا پریشانی ہے ؟“

ڈاکٹر ” کوئی شریر میری کار کے ایک پہیئے کی چاروں ڈھبریاں اتار کر لے گیا ہے“۔
ڈھبری کو انگریزی میں nut کہتے ہیں ۔

مریض “ڈاکٹر صاحب اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ۔ باقی تین پہیئوں سے ایک ایک ڈھبری اُتار کر اس میں لگا لیں اور کار آہستہ چلاتے ہوئے سپیئر پارٹس کی دکان تک چلے جائیں ۔ وہاں سے چار ڈھبریاں خرید کر لگا لیں پھر گھر چلے جائیں“۔

ڈاکٹر ” تم نے پاگل ہوتے ہوئے وہ بات کہہ دی جو میری عقل میں نہیں آئی تھی“۔

مریض ” میں پاگل ہوں مگر بیوقوف نہیں“۔

کراچی کی حکومت پھر نمبر لے گئی

کراچی کے ایک پولنگ سٹیشن پر پولنگ سے قبل ہی بیلٹ باکس بھرے ہوئے پائے گئے۔ شہر کے مصروف علاقے برنس روڈ کے وومن کالج پولنگ سٹیشن پر صبح سوا آٹھ بجے جب بیلٹ باکس دیکھے گئے تو ان میں سے بعض پہلے سے بھرے ہوئے تھے جب کہ بعض کی سیلیں ٹوٹی ہوئی تھیں۔

پریذائیڈنگ افسر احمد سلیمان نے صحافیوں کو بتایا کہ انہیں جب سرکاری طور پر یہ بیلٹ بکس ملے تو ایسے ہی ملے ہیں، اور ہم ان پر ہی کام کر رہے ہیں۔

اس علاقے میں متحدہ مجلس عمل کے الخدمت گروپ اور متحدہ قومی موومنٹ ( ایم کیو ایم ) کے حامی امیدواروں کے درمیان مقابلہ ہے۔ الخدمت پینل کے پولنگ ایجنٹوں کا کہنا ہے کہ قواعد کے مطابق پولنگ شروع ہونے سے پہلے خالی بیلٹ بکس امیدواروں یا ان کے پولنگ ایجنٹوں کو دکھائے جاتے ہیں۔ الخدمت پینل نے الزام عائد کیا ہے کہ ان کے مخالف پینل نے پہلے سے بیلٹ بکس بھر کر رکھ دیے ہیں۔

سنی تحریک نے الزام عائد کیا ہے کہ پولنگ کے مقامات پر بھی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔ تحریک کے ترجمان کا کہنا ہے امیدواروں کے پولنگ کیمپ پولنگ اسٹیشن سے کم از کم دو سو گز کے فاصلے پر قائم ہوتے ہیں لیکن ایم کیو ایم کے حامی امیدواروں نے شہر کے چاروں اضلاع میں بیشتر مقامات پر پولنگ کیمپ پولنگ اسٹیشن کی دیواروں کے ساتھ قائم کیے ہوئے ہیں اور پولنگ اسٹیشنوں کے ساتھ دیواروں پر بیلٹ پیپر کے رنگ کی سیاہی سے ایم کیو ایم کے امیدواروں کے بارے میں چاکنگ کی گئی ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ کئی پولنگ اسٹیشنوں پر بوتھ نمبر بھی لکھے ہوئے نہیں ہیں۔ انہوں نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ لیاقت آباد میں ان کے انسان دوست پینل کے پولنگ ایجنٹوں کو پولنگ پر جاتے ہوئے مخالف پینل نے روکا، ہراساں کیا اور تلاشی لینے کے بعد دھمکیاں دی۔

دانیال صاحب کا اِستفسار ۔ تیسری قسط ۔ مُلاؤں کی بے عِلمی کا سبب کیا ہے ؟

جاہل مُلّا
کہتے ہیں نیم حکِیم خطرہءِ جان نیم مُلّا خطرہءِ ایمان ۔ صرف 2 واقعات درج کروں گا
1 ۔ آٹھویں جماعت میں میرے سکول کی اسلامیات کا حال دیکھ کر والد صاحب نے راولپنڈی شہر میں محلے کی مسجد کے امام صاحب کی ٹیوشن مقرر کی کہ میں قرآن شریف دوہرا لوں ۔ میں تلاوت شروع کرتا تو مولوی صاحب سو جاتے ۔ پارہ ختم ہو جاتا تو وہ جاگ جاتے ۔ اِسی طرح 2 ماہ میں پورا قرآن شریف پڑھا ۔ یہ صاحب بغیر مدرسہ گئے مولوی بن گئے تھے ۔ میری تلاوت کی تصحیح پھر میری والہ صاحبہ نے کی

2 ۔ حکومت نے 1984ء میں سکولوں میں اِسلامیات کے اُستاد مدرسوں سے سنَد یافتہ رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ کام ایک سیکشن آفیسر کے سپرد ہوا جو ہمارے سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی والے گھر کے قریب مسجد کے خطیب بھی تھے ۔ ایک شام میں کسی کام سے ان کے پاس گیا تو پریشان پایا ۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے پہلی قسط میں 500 اساتذہ بھرتی کرنا ہیں ۔ ایک سالہ کورس کی سند ہونی چاہیئے ۔ میں نے 6 اور 3 ماہ والوں کے نام بھی لکھ لئے ہیں ۔ اس کے باوجود 247 ہوئے ہیں
میں نے کہا ”جناب ۔ اتنے سارے امام مسجد خیراتی روٹیوں پر پَل رہے ہیں ان کو لے لیں“۔
فرمانے لگے ”محلہ میں جو بقیہ 4 مساجد ہیں ان کے امام ایک دن کے لئے مدرسہ نہیں گئے“۔
میں نے حیرت سے کہا ”تو یہ امام کیسے بن گئے؟“
فرمایا ”لوگوں نے اپنی مقصد براری کے لئے بنا دیئے یا خود زورآوری سے بن گئے ہوں گے“۔
میں نے پوچھا ”یہ سینکڑوں جو رجسٹر شدہ مدرسوں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں ؟“
فرمایا ”حکومت نے اسلامیات کے اُستاذ کی تنخواہ اتنی کم رکھی ہوئی ہے کہ بتاتے ہوئے شرم آتی ہے ۔ اور امام مسجد کا ماہانہ معاوضہ تو تذلیل سے کم نہیں ۔ اسلام آباد کی مرکزی مسجد (لال مسجد) کے خطیب کی ماہانہ تنخواہ سکیل نمبر 12 ہے اور باقی مساجد کی پے سکیل نمبر 9 ۔ اس لئے مدرسہ کا فارغ التحصیل انگریزی کا امتحان پاس کر کے ایم اے ہو جاتا ہے اور سی ایس ایس پاس کر کے سیکشن آفیسر یا مجسٹریت بن جاتا ہے ۔ کئی لوگ اِکنامکس وغیرہ کر لیتے ہیں اور کسی پرائیویٹ کمپنی میں اِن سے بھی زیادہ تنخواہ پاتے ہیں

جاہل مُلّا کہاں سے آئے ؟
مُلّا اور جاہل اس حقیقت نے مجھے لڑکپن ہی میں پریشان کر دیا تھا ۔ میں اس کا مَنبہ تلاش کرنے میں لگ گیا ۔ حالات کی سختیاں جھِیلتے سال گذرتے گئے مگر میری جُستجُو جاری رہی ۔ آخر عُقدہ کھُلا
ہندوستان ميں انگریزوں کی حکومت بننے سے پہلے بڑی مساجد عِلم کا گھر ہوا کرتی تھیں اور انہیں جامع یعنی یونیورسٹی کہا جاتا تھا ۔ وہاں دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی علُوم (ریاضی ۔ طِب ۔ معاشیات ۔ معاشرت ۔ طبیعات ۔ کیمیاء ۔ علوم الارض وغیرہ) بھی پڑھائے جاتے تھے ۔ طلباء دُور دراز حتٰی کہ غیر ممالک سے آکر سالہا سال قیام کرتے اور عِلم حاصل کرتے تھے ۔ اساتذہ اور تعلیم کا خرچ چلانے کے لئے مُسلمان بادشاہوں نے ان مساجد کو بڑی بڑی جاگیریں دے رکھی تھیں جن میں سبزیاں اور پھل اُگا کر اخراجات پورے کئے جاتے تھے ۔ اس کے علاوہ مسلمان بادشاہ اور امیر طلباء نذرانے بھی دیتے رہتے تھے
خیال رہے کہ احیائے اسلام سے قبل گرجا ہی عِلم کا گھر ہوا کرتا تھا ۔ پرانے زمانہ کے کئی معروف سائنسدان پادری تھے

پھر 1857ء میں جب ہندوستان پر انگریزوں کا مکمل قبضہ ہو گیا تو اُنہوں نے ہُنرمندوں کے ساتھ عُلماء (جو دین کے علاوہ دُنیاوی علوم سے بہرہ ور تھے) بھی قتل کروا دیئے اور جامعات کی جاگیریں ضبط کر لیں ۔ اِس کے بعد پسماندہ علاقوں سے 8 جماعت تک پڑھے نوجوان چُنے جو دین و دُنیا کا کوئی عِلم نہ رکھتے تھے ۔ ان جوانوں کو برطانیہ بھیج کر چند ماہ کا امام مسجد کا کورس کرایا گیا اور واپسی پر مساجد کا بغیر تنخواہ کے امام مقرر کر دیا ۔ ان اماموں کا نان و نُفقہ علاقہ کے لوگوں کے ذمہ کر دیا گیا اور نگرانی علاقہ کے نمبردار یا چوہدری یا وڈیرے یا سردار وغیرہ جو خُود انگریزوں نے مقرر کئے ہوئے تھے کے ذمہ کر دی ۔ آجکل کے جاہل مُلّا زیادہ تر اسی عمل کا نتیجہ ہیں

فرقہ وارانہ تشدد
موجودہ حالات میں سمجھ میں نہیں آتا کہ فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ۔ کیونکہ متحدہ مجلس عمل دیوبندی ۔ بریلوی ۔ شیعہ یا اثناعشری اور اہل حدیث سب کا اتحاد ہے اور حکومت کی اسے توڑنے کی کوششوں کے باوجود یہ اتحاد قائم ہے ۔ کوئی ایسی قوت ہے جو ایم ایم اے کے اتحاد کو ختم کرنے کے لئے کبھی ایک فرقہ کے اور کبھی دوسرے فرقہ کے لوگوں کو قتل کر یا کروا رہی ہے ۔ ظاہر ہے یہ کام صرف دین کے دشمن ہی کر سکتے ہیں ۔

جاہل اور فرقہ واریت پھیلانے والے ملّا حکومت کی لگائی ہوئی پنیری اور حکومت کے باغ کے درخت ہیں ۔ حکمران ان لوگوں کو علماء و مشائخ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ ان میں مساجد کے امام بھی ہیں اور شیخ بے مسجد بھی ۔ کنونشن سنٹر اسلام آباد میں حکومت کے خرچ پر ایک علماء و مشائخ کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس سے صدر جنرل پرویز مشرف نے خطاب کیا اور ان سے اپنے حق میں قرارداد منظور کروائی ۔ اس کانفرنس کا ایم ایم اے ۔ بے نظیر کی پی پی پی اور نواز شریف کی مسلم لیگ نے بائیکاٹ کیا تھا ۔ اس کے باوجود صرف راولپنڈی سے 260 علماء و مشائخ شامل ہوئے جبکہ راولپنڈی میں 150 مساجد بھی نہیں اور بہت سے مولوی ایم ایم اے ۔ بےنظیر اور نواز شریف کے حامی ہیں ۔ ہر حکومت کو ایسے داڑھی والوں کی ضرورت ہوتی ہے جو حکومت کے حق میں فتوی دیں ۔ باقی وقت اپنا ٹَیکا رکھنے کے لئے یہ نام نہاد علماء و مشائخ فرقہ پرستی کرواتے ہیں ۔ ان کے خلاف اگر حکومت کوئی قدم اٹھائے گی تو پھر حکومت کے حق میں فتوے کون دے گا ۔

جشن آزادی مبارک

ان ہم وطنوں کو آزادی کی سالگرہ مبارک جو اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتے ہیں ۔ اللہ ہمیں آزادی کے صحیح معنی سمجھنے اور اپنے ملک کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

یہ وطن ہمارے بزرگوں نے حاصل کیا تھا کہ مسلمان اسلام کے اصولوں پر چلتے ہوئے مل جل کر اپنی حالت بہتر بنائیں ۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں یا نہیں البتہ پاکستانی نہیں بنے ۔ کوئی سندھی ہے کوئی پنجابی کوئی بلوچ کوئی پختون کوئی سرائیکی کوئی پاکستان میں پیدا ہو کر مہاجر ۔ کوئی سردار کوئی ملک کوئی خان کوئی وڈیرہ کوئی پیر ۔ اس کے علاوہ ہم ان گنت ذاتوں اور برادریوں میں بٹے ہوئے ۔

بڑے بڑے روشن خیال بھی پیدا ہو گئے ہیں جو قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریر کا صرف ایک فقرہ سیاق وسباق سے علیحدہ کر کے کہتے ہیں کہ قائد اعظم نے پاکستان کو ایک اسلامی نہیں سیکولر ریاست بنایا تھا ۔ ان روشن خیالوں سے کوئی پوچھے کہ کیا قائد اعظم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ان کی باقی ساری تقریریں اور اقوال بھول جائیں ؟ ایک نعرہ جو تحریک پاکستان کا لازمی جزو تھا وہ بھی ان روشن خیالوں نے کہیں نہیں پڑھا ؟ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ

قائداعظم 1942 میں الہ آباد میں تھے تو وکلاء کے ایک وفد کی ملاقات کے دوران ایک وکیل نے پوچھا کہ پاکستان کا دستور کیسا ہوگا اور کیا آپ پاکستان کا دستور بنائیں گے ؟ قائداعظم نے جواب میں فرمایا کہ پاکستان کا دستور بنانے والا میں کون ہوتا ہوں ۔ پاکستان کا دستور تو تیرہ سو برس پہلے بن گیا تھا ۔

قائداعظم کی 11 اگست 1947 کا خطاب رسول اکرم صل اللہ علیہ و سلم کے خطبہ الوداع کے ان الفاظ کی غمازی کرتا محسوس ہوتا ہے ۔ تمام انسان آدم اور حوا سے ہیں ۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری حاصل نہیں اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر ۔ نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری حاصل ہے اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر ۔ سوائے اس کے کہ کوئی پرہیزگاری اور اچھے عمل کی وجہ سے بہتر ہو ۔

گیارہ اگست 1947 کی تقریر سے متعلقہ اقتباس ۔

Now, if we want to make this great State of Pakistan happy and prosperous we should wholly and solely concentrate on the well being of the people, and especially of the masses and the poor. If you will work in co-operation, forgetting the past, burying the hatchet, you are bound to succeed. If you change your past and work together in a spirit that everyone of you, no matter to what community he belongs, no matter what relations he had with you in the past, no matter what is his color, caste or creed, is first, second and last a citizen of this State with equal rights, privileges and obligations, there will be no end to the progress you will make.

I cannot emphasize it too much. We should begin to work in that spirit and in course of time all these angularities of the majority and minority communities, the Hindu community and the Muslim community – because even as regards Muslims you have Pathans, Punjabis, Shias, Sunnis and so on and among the Hindus you have Brahmins, Vashnavas, Khatris, also Bengalees, Madrasis, and so on – will vanish. Indeed if you ask me this has been the biggest hindrance in the way of India to attain the freedom and independence and but for this we would have been free peoples long long ago. No power can hold another nation, and specially a nation of 400 million souls in subjection; nobody could have conquered you, and even if it had happened, nobody could have continued its hold on you for any length of time but for this. Therefore, we must learn a lesson from this. You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place of worship in this State of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed – that has nothing to do with the business of the State. As you know, history shows that in England conditions, some time ago, were much worse than those prevailing in India today. The Roman Catholics and the Protestants persecuted each other. Even now there are some State in existence where there are discriminations made and bars imposed against a particular class. Thank God, we are not starting in those days. We are starting in the days when there is no discrimination, no distinction between one community and another, no discrimination between one caste or creed and another. We are starting with this fundamental principle that we are all citizens and equal citizens of one State.

قائداعظم کی دو مزید تقریروں سے اقتباس ۔

Eid-ul-Fitr Message to the Nation on 18th August, 1947


This is our first Eid immediately following in the heralding of free independent Sovereign Pakistan having been established. This day of rejoicing throughout the Muslim world so aptly comes immediately in the wake of our national state being established, and therefore, it is a matter of special significance and happiness to us all. I wish on this auspicious day a very happy Eid to all Muslims wherever they may be throughout the world —an Eid that will usher in, I hope, a new era of prosperity and will mark the onward march of renaissance of Islamic culture and ideals. I fervently pray that God Almighty make us all worthy of our past and hoary history and give us strength-to make Pakistan truly a great nation amongst all the nations of the world.

Eid-ul-Azha Message to the Nation, on 24th October, 1947

God often tests and tries those whom he loves. He called upon Prophet Ibrahim to sacrifice the object he loved most. Ibrahim answered the call and offered to sacrifice his son. Today too, God is testing and trying the Muslims of Pakistan and India. He has demanded great sacrifices from us. Our new-born State is bleeding from wounds inflicted by our enemies. Our Muslim brethren in India are being victimized and oppressed as Muslims for their help and sympathy for the establishment of Pakistan. Dark clouds surround us on all sides for the moment but we are not daunted, for I am sure, if we show the same spirit of sacrifice as was shown by Ibrahim, God would rend the clouds and shower on us His blessing as He did on Ibrahim. Let us, therefore, on the day of Eid-ul-Azha which symbolizes the spirit of sacrifice enjoined by Islam, resolve that we shall not be deterred from our objective of creating a State of our own concept by any amount of sacrifice, trials or tribulations which may lie ahead of us and that we shall bend all our energies and resources to achieve our goal. I am confident that in spite of its magnitude, we shall overcome this grave crisis as we have in our long history surmounted many others and notwithstanding the efforts of our enemies, we shall emerge triumphant and strong from the dark night of suffering and show the world that the State exists not for life but for good life.

آج میں بلاگنگ نہیں کروں گا ۔


آج کا دن صرف اور صرف پیاری پیاری مشل کے لئے مخصوص و محفوظ ہے ۔

Our Dear Dear Michelle
We long for you so much

مشل ہماری پیاری پیاری ننھی سی پوتی جو طبعی طور پر ہم سے بارہ ہزار کلو میٹر سے زیادہ دور اٹلانٹا میں ہے مگر ہر دم ہمارے پاس ہمارے دلوں میں دماغوں میں آنکھوں میں موجود ہے ۔ ہمارے تخیّل میں ہمارے ساتھ کھیلتی اور اپنی کوڈڈ زبان میں باتیں کرتی ہے ۔ کبھی مسکراتی کبھی کھلکھلا کر ہنستی کبھی ہمیں چھیڑتی ہے ۔آج ہماری پیاری پیاری مشل ماشاءاللہ ایک سال کی ہو گئی ہے ۔
مشل ۔ دادی کا دل دادا کی جان ۔
جیو ہز ا ر و ں سال
سال کے دن ہوں پچاس ہزار

آج ہم بہت خوش بھی ہیں اور اداس بھی ۔ آج اپنی پیاری پوتی کے لئے لاکھوں اچھی اچھی دعائیں دل کی گہرائیوں سے نکل رہی ہیں اور امریکی ویزہ آفیسر عورت کے
لئے کچھ بددعائیں بھی وہ عورت جس کا ہر فقرہ حقارت آمیز اور بدتمیزی سے بھرپور تھا ۔ اور جس نے ہم دونوں کو فیس وصول کر کے ویزا دینے سے انکار کر دیا اور ہم اپنی پہلی پوتی کو آج تک سینے سے نہیں لگا سکے ۔

یہاں کلک کر کے دیکھئے میرے بیٹے زکریا کی تحریر اور میرا تبصرہ

مشل کے دادی اور دادا