کسی شاعر نے کہا تھا ” کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی” ۔ سچ ہی کہا تھا ۔ میں نے لکھ دیا Please do not disturb ۔ خیال تھا کہ قاری کالج میں پڑھتے ہیں یا ماضی قریب میں پڑھتے رہے ہیں بات سمجھ لیں گے مگر ایسی ہماری قسمت کہاں ۔ جب ہم کالج میں پڑھتے تھے تو ہوسٹل میں عموماّ جب لڑکے عام کھانے کے علاوہ کچھ کھانے لگتے تو دروازہ پر لکھ کر لگا دیتے Please do not disturb میرے محترم قاریوں نے سمجھا کہ میں خدانخواستہ اتنا گستاخ ہوں کہ اُنہیں Buzz off کر دیا ہے ۔
اچھا تو انکل جی اب آپ کيا خاص کھا رہے تھے ہی ہی ہی
جہانزیب اشرف صاحب
کھانے تو آجکل سپیشل ہی مل رہے ہیں آخرتین سال بعد بیٹا اور بہو بیٹی آئے ہیں لیکن بات یہ ہے کہ جو شستہ مزاح کسی زمانہ میں لاہور کے انجنیئرنگ کالج اور پوسٹ گریجوئیٹ ہوسٹلز میں ہوتا تھا وہ آجکل نہیں ہے اسی لئے آج کے جوانوں کو ہماری باتیں سمجھ نہیں آتیں ۔