ایک تنتبو لا دو نا ۔ ۔چھ سالہ بچے کا انٹرویو

گڑھی حبیب اللہ کے گورنمنٹ سکول میں پہلی جماعت کے طالب علم منّان سے بی بی سی کے وسعت اللہ خان کی گفتگو ۔

صحافی ۔ تمہارے گھر میں کتنے لوگ باقی ہیں ؟

منّان ۔ صاحب ایک تنبو لا دو نا ۔ (تنبو خیمے کا دوسرا نام ہے)

صحافی ۔ اچھا یہ بتاؤ منان تمہارے ابو کیا کرتے ہیں؟

منّان ۔ کہیں سے ایک تنبو منگوا دو!

صحافی ۔ منان تمھارے کتنے ہم جماعت ملبے میں دب گئے؟

منّان ۔ مجھے تنبو کہاں سے ملےگا!

صحافی ۔ اچھا چلو گاڑی میں بیٹھو۔میں تمھیں ایک کیمپ سے کچھ کھانے پینے کا سامان دلانے کی کوشش کروں۔مگر تم تو چھوٹے سے ہو آخر کتنا وزن اٹھا پاؤ گے؟

منّان ۔ صاحب کسی سے کہہ دو نا، ہمیں صرف ایک تنبو دے دے!

صحافی ۔ چلو تم میرے ساتھ نہیں چلتے نہ سہی۔یہ تو بتادو کہ جب تم رات کو سوتے ہو تو کس طرح کے خواب دیکھتے ہو؟

منّان ۔ مجھے اور میری بہن کو سردی لگتی ہے آپ ایک تنبو تو دلواسکتے ہونا!

صحافی ۔ منان کیا میں تمہیں مظفرآباد یا اسلام آباد کی اس ڈیلی بریفنگ میں لے جاؤں جس میں تم خود سن لوگے کہ حکومت کتنی جان توڑ کوشش کررہی ہے ہر خاندان کو سردیاں شروع ہونے سے پہلے تنبو دینے کے لئے۔ بس کچھ دنوں کی بات ہے۔تم اکیلے تو نہیں ہونا منان! دس لاکھ ٹینٹوں کی ضرورت ہے اور ان میں سے ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ آ بھی چکے ہیں۔یقین نہیں آتا تو چلو کسی افسر سے ملوادوں۔اقوامِ متحدہ کے کسی اہلکار سے پوچھ لو۔بولو کس سے ملوگے ؟

منّان ۔ آپ میرے ابو کو لے جائیں نا اور انہیں کسی سے بھی ایک تنبو دلوادیں!

جن کے پورے پورے یا آدھے خاندان ختم ہوگئے انہیں اس سے کیا کہ عالمی برادری ڈیڑھ کروڑ ڈالر چندہ دیتی ہے یا اٹھاون کروڑ ڈالر۔

انہیں اس بات کی کیوں پروا ہو کہ حکومت نے پہلے پہل جذباتی ہوکر فی ہلاک شدہ ایک لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کیوں کیا اور پھر اسے ایک لاکھ روپیہ فی خاندان کیوں کردیا۔

وہ کیوں اس بات پر کان دھریں کہ انکے لئے فائبر گلاس کے گھر کب اور کہاں بنیں گے۔

چین سے تین لاکھ ٹینٹ جلدآ رہے ہیں ! آیا کریں۔

نیٹو کی فوج اور مزید امریکی شنوک پہنچ رہے ہیں ! پہنچتے رہیں۔

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

2 thoughts on “ایک تنتبو لا دو نا ۔ ۔چھ سالہ بچے کا انٹرویو

  1. SHUAIB

    حالانکہ دنیا بھر سے اربوں کی امداد بھیجی جارہی ہے ـ مگر متاثرین کو بھی ماننا چاہئیے کہ وہ ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہیں ـ پھر بھی ننھے منّے بچوں کا سردی سے ٹھٹھرنا واقعی دکھ والی بات ہے ـ

  2. اجمل

    شعیب صاحب
    متاءثرین کی امداد میں بہت سے ادارے ہمہ تن و گوش لگے ہوۓ ہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ عمدہ پلیننگ اور کوآرڈینیشن کی ضرورت ہے جو صرف پاکستان کی حکومت مہیا کر سکتی ہے اور وہ بالکل نہیں ہے ۔ حکومتی کارندے اپنی پرانی روش پر قائم ہیں اور ان کی گردنیں ویسے ہی سخت ہیں جیسی حکمرانی کے نشہ سے ہو چکی ہیں ۔ دوسرے امدادی سامان جو بے شمار آیا ہے وہ حکومت کی تحویل میں ہے جو بلا کسی ترتیب کے تقسیم کیا جارہا ہے اوریہ بھی سننے میں آیا ہے کہ بغیر سفارش کے کسی کو نہیں ملتا ۔–>

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.