صحافی ۔ تمہارے گھر میں کتنے لوگ باقی ہیں ؟
منّان ۔ صاحب ایک تنبو لا دو نا ۔ (تنبو خیمے کا دوسرا نام ہے)
صحافی ۔ اچھا یہ بتاؤ منان تمہارے ابو کیا کرتے ہیں؟
منّان ۔ کہیں سے ایک تنبو منگوا دو!
صحافی ۔ منان تمھارے کتنے ہم جماعت ملبے میں دب گئے؟
منّان ۔ مجھے تنبو کہاں سے ملےگا!
صحافی ۔ اچھا چلو گاڑی میں بیٹھو۔میں تمھیں ایک کیمپ سے کچھ کھانے پینے کا سامان دلانے کی کوشش کروں۔مگر تم تو چھوٹے سے ہو آخر کتنا وزن اٹھا پاؤ گے؟
منّان ۔ صاحب کسی سے کہہ دو نا، ہمیں صرف ایک تنبو دے دے!
صحافی ۔ چلو تم میرے ساتھ نہیں چلتے نہ سہی۔یہ تو بتادو کہ جب تم رات کو سوتے ہو تو کس طرح کے خواب دیکھتے ہو؟
منّان ۔ مجھے اور میری بہن کو سردی لگتی ہے آپ ایک تنبو تو دلواسکتے ہونا!
صحافی ۔ منان کیا میں تمہیں مظفرآباد یا اسلام آباد کی اس ڈیلی بریفنگ میں لے جاؤں جس میں تم خود سن لوگے کہ حکومت کتنی جان توڑ کوشش کررہی ہے ہر خاندان کو سردیاں شروع ہونے سے پہلے تنبو دینے کے لئے۔ بس کچھ دنوں کی بات ہے۔تم اکیلے تو نہیں ہونا منان! دس لاکھ ٹینٹوں کی ضرورت ہے اور ان میں سے ڈیڑھ لاکھ کے لگ بھگ آ بھی چکے ہیں۔یقین نہیں آتا تو چلو کسی افسر سے ملوادوں۔اقوامِ متحدہ کے کسی اہلکار سے پوچھ لو۔بولو کس سے ملوگے ؟
منّان ۔ آپ میرے ابو کو لے جائیں نا اور انہیں کسی سے بھی ایک تنبو دلوادیں!
جن کے پورے پورے یا آدھے خاندان ختم ہوگئے انہیں اس سے کیا کہ عالمی برادری ڈیڑھ کروڑ ڈالر چندہ دیتی ہے یا اٹھاون کروڑ ڈالر۔
انہیں اس بات کی کیوں پروا ہو کہ حکومت نے پہلے پہل جذباتی ہوکر فی ہلاک شدہ ایک لاکھ روپے معاوضے کا اعلان کیوں کیا اور پھر اسے ایک لاکھ روپیہ فی خاندان کیوں کردیا۔
وہ کیوں اس بات پر کان دھریں کہ انکے لئے فائبر گلاس کے گھر کب اور کہاں بنیں گے۔
چین سے تین لاکھ ٹینٹ جلدآ رہے ہیں ! آیا کریں۔
نیٹو کی فوج اور مزید امریکی شنوک پہنچ رہے ہیں ! پہنچتے رہیں۔
حالانکہ دنیا بھر سے اربوں کی امداد بھیجی جارہی ہے ـ مگر متاثرین کو بھی ماننا چاہئیے کہ وہ ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ہیں ـ پھر بھی ننھے منّے بچوں کا سردی سے ٹھٹھرنا واقعی دکھ والی بات ہے ـ
شعیب صاحب
متاءثرین کی امداد میں بہت سے ادارے ہمہ تن و گوش لگے ہوۓ ہیں ۔ مسئلہ یہ ہے کہ عمدہ پلیننگ اور کوآرڈینیشن کی ضرورت ہے جو صرف پاکستان کی حکومت مہیا کر سکتی ہے اور وہ بالکل نہیں ہے ۔ حکومتی کارندے اپنی پرانی روش پر قائم ہیں اور ان کی گردنیں ویسے ہی سخت ہیں جیسی حکمرانی کے نشہ سے ہو چکی ہیں ۔ دوسرے امدادی سامان جو بے شمار آیا ہے وہ حکومت کی تحویل میں ہے جو بلا کسی ترتیب کے تقسیم کیا جارہا ہے اوریہ بھی سننے میں آیا ہے کہ بغیر سفارش کے کسی کو نہیں ملتا ۔–>