Monthly Archives: October 2005

ٹمٹماتی روشنی اور گٹاٹوپ اندھیرا

یوں لگتا ہے زلزلہ سے متاءثر آج ہماری ہر بہن ہر بھائی ہر بچہ ہماری طرف دونوں باہیں پھیلا کر کہہ رہا ہے ۔کیا کہوں اے دنیا والو کیا ہوں میں
دیکھ لو مجھ کو کہ تم جیسا ہوں میں
جب مجھے تم نہیں پہچانتے
غیر اپنے آپ کو لگتا ہوں میں

عجیب کیفیت ہے کہیں کوئی بچہ کوئی بہن کوئی بھائی ٹنوں ملبہ کے نیچے سے زندہ برآمد ہوتا ہے تو مایوسیوں کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں امید کی ایک کرن پھوٹتی ہے جو لمحہ بھر میں غائب ہو جاتی ہے اور پھر گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا جاتا ہے ۔ امید و یاس کی اس فضا می نہ رات کو آرام نہ دن کو چین ۔ ہفتہ 8 اکتوبر سحری کے وقت سے اب تک میں کل دس گھنٹے آرام کر سکا ہوں ۔ کام کا حساب لگاتا ہوں تو سمندر میں ایک قطرہ محسوس ہوتا ہے ۔گذشتہ رات اور اس پچھلی رات مرگلہ ٹاورز پر جذباتی صورت پیدا ہوئی ۔ اتوار اور پیر کی درمیانی شب ایک امدادی کارکن کو مدھم سی آواز سنائی دی “مجھے نکالو میں زندہ ہوں” ۔ وہاں ایک چھوٹا سوراخ کر کے ایک مائیک لٹکایا گیا تو صاف آواز سنائی دی “میں زندہ ہوں ۔ میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ مجھے نکالو” ۔ ملبہ میں ایک طرف سے سرنگ کھودی گئی جس میں دو تین گھنٹے بعد جب حماد نامی بائیس تیئس سالہ لڑکے کو باہر نکالا تو وہ بلند آواز میں اللہ اکبر اللہ اکبر کہتا جا رہا تھا ۔ اس پر تمام امدادی کارکن اور اپنے عزیزون دوستوں کے نکلنے کی آس میں کھڑے لوگوں نے یک زبان ہو کر نعرہ لگایا ” نعرہء تکبیر ۔ اللہ اکبر” گذشتہ رات ایک عراقی خاتون اور اس کے شیر خوار بچے کو نکالا گیا تو لوگوں نے نعرے لگاۓ “برطانوی مددگار زندہ باد” عراقی عورت نے بتایا کہ “میں نے تو کچھ نہیں کھایا پیا لیکن میں اپنے بچے کو اپنا دودھ پلاتی رہی اور وہ کھیلتا رہا” ۔ سبحان اللہ ۔

اب تک وقفے وقفے سے جھٹکے محسوس کئے جا رہے ہیں ۔ آج دو بج کر دس منٹ پر ذرا تیز تھا ۔ آج تنبہہ کی گئی ہے کہ رات آٹھ اور بارہ بجے کے درمیان زلزلے کے تیز جھٹکے آ سکتے ہیں ۔ اللہ سب کو خیریت سے رکھے ۔ ہمارا مالی بتا رہا تھا کہ گاؤں پیر سوہاوہ میں جو مکان اس نے پچھلے سال بنایا تھا اس میں دراڑیں پڑ گئی ہیں اور اس کے بھائی کا مکان گر گیا ہے ۔ اس مکان کے لئے بیچارے نے بڑی مشکل سے پیسے اکٹھے کئے تھے اور خود بھی تعمیر میں حصہ لیا تھا ۔ اور کہہ رہا تھا کہ زلزلے کے بار بار جھٹکوں سے اس کی بیٹی اتنی ڈر گئی ہے کہ تین دن سے سوئی نہیں ہے اور ہر وقت دروازے میں کھڑی رہتی ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جہاں اتنی تباہی ہوئی ہے ۔

ہمارے ایک عزیز اسی سال اگست میں لیبیا گئے اور اپنے 16 سالہ بیٹے ذھیر اقبال کو اپنے بڑے بھائی کے پاس تعلیم کی خاطر چھوڑ گئے ۔ ہفتہ کے روز اس کی لاش مرگلہ ٹاورز کے ملبہ سے نکلی تھی ۔ انا للہ و انّا الہہ راجعون ۔ بعد میں اس کی تائی صاحبہ کو زخمی حالت میں نکالا گیا ۔ تایا صاحب کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں ۔

آج صبح اطلاع ملی کہ جن علاقوں میں اب جا سکتے ہیں وہاں بھی پینے کا پانی نہیں ہے اور لوگ گندا پانی پینے پر مجبور ہیں تو تین سے دس لیڑ کی بوتلوں میں پانی کا ایک ٹرک بھجوایا ۔ ہم اتوار سے کوشش کر رہے ہیں ابھی تک صرف 250 تھیلے آٹا اکٹھا ہوا ہے ۔ مل والے کہتے ہیں گندم نہیں مل رہی ۔ راولپنڈی سے کمبل اور رضائیاں اتوار کو جو ملیں اس کے بعد نہیں مل رہے ۔ بھنے چنے جتنے ملے لے لئے ۔کل 7 سے 10 من کا وعدہ ہے اس کے بعد پتہ نہيں ۔ چھوٹے چھوٹے اداروں کی پہنچ اتنی ہی ہوتی ہے ۔ لپٹن نے مشہوری کے لئے پیکٹ بناۓ تھے جس میں بسکٹ اور ایوری ڈے وائٹنر ہے وہ سب اٹھا لئے ۔ جوں ہی ایک ٹرک کے قابل سامان بنتا ہے بھیج دیا جاتا ہے ۔ آج دوپہر تک مظفرآباد جانے کا راستہ بذریعہ ایبٹ آباد تھا ۔ الحمدللہ مری والا راستہ بھی آج کھل گیا ہے ۔ اب دبے ہوؤں کو نکالنے کے لئے فوجی بھی کام کر رہے ہیں ۔ خوراک بھی کچھ پہنچنا شروع ہو گئی ہے ۔

ہاتھ جوڑ کر پاؤں پکڑ کر التجا کرتا ہوں

انّا للہ و انّا الہہ راجعون ۔ ہم اللہ کے لئے ہیں اور اسی کی طرف لوٹ جانا ہے ۔ اللہ الرحمان الرحیم ہمارے گناہ معاف کرے اور ہماری مدد فرماۓ آمین ۔مجھ سے شکائت تھی کہ میں کبھی خشک اور کبھی سخت تحاریر لکھتا ہوں ۔ سو میں نے نرم و ملائم اور خوشگوار لکھنے کی کوشش کی ۔ لیکن کیا کروں اپنے ارد گرد کے ماحول اور اس کے اثرات کا ۔ میں تین دن سے اپنے اوپر جبر کر کے چپ بیٹھا تھا ۔ آج فجر کی نماز کے بعد مسجد ہی میں وہ مصنوعی بند ٹوٹ گیا جو میں نے باندھا تھا ۔ قدرتی آفت سے جو کچھ ہوا اس پر آنکھیں برسات برساتی رہیں اور دل خون کے آنسو روتا رہا لیکن لب پر تالا ڈالے رکھا اب قدرتی آفات سے بچ جانے والے بہن بھائیوں اور بچوں کو آفت زدہ علاقہ سے دور بیٹھی اپنی قوم کی بیوقوفیوں کے باعث مرتے ہوۓ نہیں دیکھا جاتا ۔ رات بھر اللہ سے گڑگڑا کر دعا کرتا رہا کہ میری ریڑھ کی ہڈی میں جو نقص اس سال جنوری میں پیدا ہوا اسے ٹھیک کر دے تا کہ میں اپنی کار میں جتنی خشک تیار خوراک بھر سکوں بھر لوں اور متاءثرین کو پہنچاؤں ۔ شائد میری وساطت سے چند انسانوں میں زندگی باقی رہے ۔

اسلام آباد سے لے کر کراچی تک سب (بمع ان اداروں کے جن کے لئے میں کام کر رہا ہوں) خیمے اور دوائیاں اکٹھی کر رہے ہیں ۔ شائد ایدھی ٹرسٹ کا کفن اکٹھے کرنا صحیح قدم ہے کیونکہ قدرتی آفات میں دب کے مرنے والوں کو تو کفن پہنانا فرض نہیں جب خدانخواستہ قدرتی آفات سے بچ جانے والے تین لاکھ افراد بھوک سے مر جائیں گے تو کفنوں کی ضرورت پڑے گی ۔

پیر مورخہ 10 اکتوبر کی شام تک آزاد جموں کشمیر کے متاثرین کو کچھ کھانے کے لئے نہیں ملا ۔ وہ سب ہفتہ 8 اکتوبر کی سحری کے بعد سے بھوکے ہیں اور ہم سب صرف امداد اکٹھا کرنے میں لگے ہیں اور بہت خوش ہیں کہ ڈھیر لگ گئے ہیں ۔ابھی تو امداد پہنچنے کی صرف باتیں ہی ہیں اگر یہ امداد پہنچ بھی گئی تو تین لاکھ متاثرین کے لئے اونٹ کے منہ میں ذیرہ سے بھی کم ہو گی ۔

میرے محترم و مکرم حضرات اور خواتین ۔ ابھی فوری طور پر رس (جنہیں کراچی میں پاپے کہتے ہیں) ۔ بسکٹ ۔ بھنے ہوۓ چنے ۔ کھجوریں ۔ خشک دودھ اور اسی طرح کی غذائی اشیاء فوری طور پر متاءثرہ علاقہ میں پہنچائیں ۔ اور آٹا ۔ چاول ۔ چینی ۔ گھی وغیرہ خریدنا شرو‏ع کردیں اور ساتھ وہ بھی بیجھیں ۔

میری سب سے درخواست ہے کہ میری اس التجا کو اپنی بنا کر اپنے تمام جاننے والوں تک پہنچا دیں ۔ اللہ سبحانہ و تعالی آپ کی مدد فرماۓ آمین

سلوک ۔ برتاؤ

ہم رمضان کے مہینہ میں روزے رکھتے ہیں ۔ چاہے تنہا ہوں کچھ کھاتے پیتے نہیں اور نہ کوئی برا یا غلط کام کرتے ہیں صرف اس لئے کہ اللہ تعالی دیکھ رہے ہیں ۔ مجھے یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ باقی سارا سال ہمیں کیوں یاد نہیں رہتا کہ اللہ دیکھ رہے ہیں اس لئے برے یا غلط کام نہ کریں ؟

سورۃ 2 البقرۃ آیۃ 263 ۔ ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو ۔
اللہ بے نیاز ہے اور بردباری اس کی صفت ہے ۔

>سورۃ 4 النّسآء آیۃ 36 ۔ اور تم سب اللہ کی بندگی کرو ۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ ۔ ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ۔ قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ۔ اور پڑوسی رشتہ دار سے ۔اجنبی ہمسایہ سے ۔ پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں احسان کا معاملہ رکھو ۔ یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے ۔

سورۃ 25 الفرقان آیۃ 68 ۔ جو اللہ کے سوا کسی اور کو معبود نہیں پکارتے ۔ اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا ۔

بلاگرز سے دست بستہ درخواست

آپ سب انسانیت کے علمبردار ہیں اور انسانیت کے حق میں بہت کچھ لکھتے رہتے ہیں ۔ آج آپ کے امتحان کا وقت ہے کہ آپ ثابت کریں کہ آپ حقیقی طور پر انسانیت دوست ہیں ۔ مجھے یقین ہے کہ آپ واقعی انسان دوست ہیں ۔ آگے بڑھئیے اور اسے عملی طور پر ثابت کیجئے ۔ ہزاروں کی تعداد میں بچے بوڑھے جوان عورتیں اور مرد آزاد جموں کشمیر اور صوبہ سرحد میں بے خانماں پڑے ہیں ۔ نہ سر پر چھت ہے نہ ان کے پاس سردی سے بچنے کے لئے کپڑے ہیں اور نہ کچھ کھانے کو ہے ۔ عزیزوں کی اچانک موت کے ساتھ ساتھ ان کا سب کچھ تباہ ہو چکا ہے ۔ ان لوگوں نے 8 اکتوبر کی صبح سحری کھائی تھی اس کے بعد سے کچھ نہ کھایا نہ پیا ۔ کھائیں کہاں سے سب کچھ ملبے کے نیچے دب گیا ۔اپنے گھروں کی الماریوں اور صندوقوں کی تلاشی لیجئے ۔ آپ دیکھیں گے کہ آپ کا گذارا پانچ جوڑوں ۔ دو سویٹروں ۔ دو کوٹوں اور ایک کمبل یا رضائی سے ہو سکتا ہے مگر آپ کے پاس اس سے زیادہ یا بہت زیادہ چیزیں ہیں ۔ ان زائد کپڑوں ۔ کمبلوں اور رضائیوں کا اس سے بہتر کوئی استعمال نہیں کہ انہیں زلزلہ کے متاءثرین کو دے کر اپنی انسانیت کا ثبوت دیں اور ان کی دلی دعائیں بھی حاصل کریں ۔

جب آپ اپنے گھر سے سامان دے چکیں تو پھر اپنے رشتہ داروں ۔ دوستوں اور محلہ داروں کو اس نیک کام میں بھرپور حصہ لینے کی نہ صرف ترغیب دیں بلکہ ان سے کپڑے ۔ کمبل اور رضائیاں اکٹھے کر کے مناسب طریقہ سے متاءثرین تک پہنچانے کا بندوبست کیجئے ۔ راولپنڈی اور اسلام آباد کے رہائشی اس سلسہ میں مجھ سے ٹیلیفون نمبر 2252988 اور 03215102236 پر رابطہ کر سکتے ہیں ۔ میں سامان ان کے گھر سے اٹھانے کے لئے بھی تیار ہوں ۔ میں سامان پہنچانے والے کچھ با اعتماد اداروں کو جانتا ہوں

اسلام ۔ دین یا مذہب ؟

یہ بات آج تک میری سمجھ میں نہیں آ سکی کہ ہم اسلام کو مذہب کیوں کہتے ہیں ۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم انگریزی کے لفظ religion کا ترجمہ کرتے ہیں ۔ قرآن الحکیم میں کہیں بھی اسلام کے ساتھ یا اس کے متعلق مذہب کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ سورۃ المائدہ کی آیۃ 3 میں تو بالکل واضح ہے ” آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔” صدق اللہ العظیم ۔ اسلام دین ہے ۔ لائحہء حیات یعنی زندگی گذارنے کا ایک دستور یا آئین ہے ۔مذہب کا لفظ عربی زبان سے اردو میں آیا۔ اس کا مطلب فرقہ ہوتا ہے ۔ عربی زبان میں ایک مقولہ یا محاورہ ہے ۔ من تہذب خاءن ۔ یعنی جس نے تفرقہ ڈالا اس نے خیانت کی ۔ ایک کتاب پاکستان میں دستیاب ہے ” کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعہ ” تالیف ہے عبدالرحمان الجزیری کی جو جامعہ الازہر۔ مصر کے مایہء ناز عالم تھے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ تیئس سال پہلے شائع ہوا تھا۔ اس کتاب میں جو اربعہ مطلب چار مذہب یعنی فرقے ہیں وہ حنفی۔ شافعی۔ مالکی اور حنبلی ہیں ۔ جن اشخاص سے یہ مذہب منسلک کئے گئے ہیں وہ چار مجتہد ہیں امام ابو حنیفہ 80 تا 150 ہجری ۔ امام مالک 93 تا 179 ہجری ۔ امام شافعی 150 تا 204 ہجری اور امام احمد بن حنبل 164 تا 241 ہجری ۔ ۔

ان چاروں حضرات کی سوانح پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے وقت کے مطابق دین کی سمجھ بڑھانے کے لئے اجتہاد کیا ۔ ان کے ادوار میں مسلمان کسی خاص مذہب یعنی فرقہ کے پابند نہیں تھے اور نہ ہی ان کے علم میں تھا کہ ایسی کوئی شق ہے جس میں علماء اور ائمہ کرام کے استنباط اور اجتہاد کو حتمی حیثیت دے دی جائے ۔ جب تک مجتہدین نے اجتہاد کی حدود و قیود کی پابندی کی اس وقت تک اجتہاد باعث رحمت رہا اور اختلاف رائے میں رواداری حوصلہ اور درگذر کا پہلو غالب رہا اور مسلمان فقط دین اسلام پر کاربند رہے ۔ وسط چوتھی صدی ہجری یعنی امام ابو حنیفہ کی وفات کے دو صدی بعد تک اور امام احمد بن حنبل کی وفات کے ایک صدی بعد تک مسلمان دین پر صحیح طور سے کاربند رہے ۔ جب اجتہاد کی شرائط سے چشم پوشی شروع ہوئی تو مذہبیت یعنی فرقہ واریت بتدریج غالب آنا شروع ہو گئی اور تعصّب کے دور کا آغاز ہو گیا ۔ آج ہم ان گنت فرقوں میں بٹ کر دین سے بہت دور جاچکے ہیں ۔ ہم لوگ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے راستہ کو چھوڑ کر اپنے منتخب مرشدوں یا اماموں کے بتائے ہوئے یا شائد اپنی طرف سے ان کے نام سے منسوب کردہ اپنے بنائے ہوئے راستوں پر چل رہے ہیں جس کے نتیجہ میں نہ صرف دینی بلکہ دنیاوی لحاظ سے بھی ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔

اہل مغرب نے دین کو چھوڑ کر انسانی آسائش کو اپنی زندگی کا دستور یا آئین بنا لیا اور ہر چیز کو اس طرز پر ڈھالا ۔ جس کے نتیجہ میں انہوں نے مادی ترقی کر کے زندگی کی تمام آسائشیں حاصل کر لیں لیکن ساتھ ہی دین سے دور ہو جانے کے باعث اخلاقی پستیوں میں گھر گئے ۔

ہم نے دین کے علاوہ وطن کے ساتھ بھی غلو کیا ۔ ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں ۔ ہمارے ملک میں قومی جھنڈے کی یہ عزت ہے کہ یوم آزادی پر اپنی دکانیں اور مکان سجاتے ہیں اس کے بعد قومی جھنڈے ہمیں سڑکوں یا کوڑے کے ڈھیروں پر پڑے نظر آتے ہیں ۔ ایک عام حکم نامہ ہے کہ جب قومی ترانہ بج رہا ہو تو با ادب کھڑے ہو جائیں مگر وہی کھڑے ہوتے ہیں جو کسی وجہ سے مجبور ہوتے ہیں ۔ میں امریکہ گیا ہوا تھا تو میرا بیٹا زکریا مجھے لیزر شو دکھانے سٹوں مؤنٹین لے گیا ۔ شو کے آخر میں امریکہ کا ترانہ بجایا گیا ۔ تمام امریکی مرد اور عورتیں اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور ان میں سے بہت سے اسی لے کے ساتھ ترانہ گانے لگے اور ترانہ ختم ہونے پر گھروں کو روانہ ہوئے ۔ کاش ہم ان کی اچھی عادات اپناتے ۔

وضاحت

شعیب صاحب ۔ شعیب صفدر صاحب ۔ ڈاکٹر افتخار راجہ صاحب ۔ حارث بن خرم صاحب ۔ اور دیگر صاحبین و صاحبات ۔ اسلام علیکم و رحمتہ اللہ و برکاتہ
میرے نقل کردہ گانے پر آپ حضرات کا تبصرا دلچسپ ہے اور اس سے کئی ذی معنی اور منطقی سوالات ابھرے ہیں ۔ اس لئے میں نے جواب مین پوسٹ میں دینے کا فیصلہ کیا ۔

سبحان اللہ ۔ تعریف اس خدا کی جس نے مجھے اور آپ سب کو بنایا

اگر کوئی شخص ہمیں ایک چھوٹا سا تحفہ بھی دے تو ہم تحفہ دینے والے احسانمند ہوتے ہیں اور موقع ملنے پر اسے بہتر تحفہ دیتے ہیں ۔ لیکن عجب بات ہے کہ جس نے ہمیں ان گنت تحائف دیئے اور آئے دن دیتا رہتا ہے اس کا ہم شکریہ بھی ادا نہیں کرتے ۔ ” اور تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے” ۔ یہاں کلک کر کے پڑھیئے سورۃ 55 الرحمان اردو ترجمہ کے ساتھ صفحہ 931 سے 936 تک ۔ ماہ رمضان میں تلاوت کا کئی گنا ثواب کمائیے اور تلاوت کا لطف بھی اٹھائیے ۔

متذکّرہ گانے کی یاد مجھے دو باتوں نے کرائی ۔

اول ۔ ہم اندھا دھند اپنی پیاری زبانوں اردو پنجابی سندھی پشتو کشمیری سرائیکی کو روندتے ہوۓ انگریزی کے پیچھے سرپٹ بھاگ رہے ہے جس کا صحیح قانون قاعدہ ہی نہیں ۔ ہے کوئی ہم میں جو اپنے ملک کی سب زبانیں جانتا ہے ۔ شائد ایک بھی نہیں ۔ میں خود اپنے آپ کو اس سلسلہ میں مجرم گردانتا ہوں ۔ میں اردو اور پنجابی اچھی طرح جانتا ہوں ۔ سندھی پشتو کشمیری اور سرائیکی میں نے سیکھنے کی تھوڑی سی کوشش کی اور نتیجہ میں یہ زبانیں تھوڑی سی سمجھ لیتا ہوں ۔ (بلوچی کا ذکر میں نے نہیں کیا کیوں بلوچی بذات خود کوئی زبان نہیں ہے)

دوم ۔ تین دہائیوں سے ہم لوگ تعلیم وتربیت حاصل کرنے کی طرف توجہ چھوڑ کر صرف کاغذ کے ٹکڑے (ڈگریاں) اکٹھا کرنے میں لگے ہوۓ ہیں ۔ اب تو یہ حالت ہو چکی ہے کہ یہ کاغذ کے ٹکڑے بھی ہم اپنی دولت سے خریدنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ شیخ سعدی نے فرمایا تھا کہ گدھے پر سو من کتابیں لاد دی جائیں پھر بھی وہ گدھا ہی رہتا ہے ۔ لیکن اگر کسی جانور کو بھی تربیت دی جاۓ تو وہ اچھے کام کرنے لگ جاتا ہے ۔

ڈاکٹر افتخار راجہ صاحب نے ٹھیک لکھا ہے کہ ہمارے بہت سے لوگ اس لئے بے روزگار ہیں کہ انہوں نے امتحان پاس کر کے ڈگریاں لی ہیں تعلیم و تربیت کی طرف توجہ نہیں دی ۔ میں تو کہوں گا کہ ہمارے ملک میں جمہوریت نہ ہونے اور ہماری پسماندگی کا سبب بھی یہی ہے ۔ اور اسی وجہ سے ہمیں اچھے اور برے میں تمیز نہیں ہے ۔

حارث بن خرم صاحب لکھتے ہیں ۔ “بالکل ہماری پڑھائی الٹی ہے۔ دراصل عوام دھوبی کے گدھے سے بھی گئی گزری ہے جو رات کو کم از کم گھر تو آ جاتا ہے ۔ حکمرانوں نے کم اور ہماری عادتوں اور ظلم، سہنے کی بری ””’خصلت”” نے ہماری مت مار دی ہے۔”

پڑھائی

شاید 40 سال یا اس سے بھی پہلے جب میں کبھی کبھی فلم دیکھ لیا کرتا تھا ۔ ویسے میرا حافظہ فلموں کے معاملہ میں بہت کمزور ہے ۔ ایک گانے کے کچھ بول یاد ہیں گانے والے کا اور لکھنے والے کا نام یاد نہیں ۔

جو سکندر نے پورس پہ کی تھی چڑھائی
جو کی تھی چڑھائی تو میں کیا کروں
جو کورو نے پانڈو سے کی ہاتھا پائی
جو کی ہاتھا پائی تو میں کیا کروں
بی یو ٹی بَٹ ہے تو پی یُو ٹی پُٹ ہے
زمانے میں پڑھائی کا دستور اُلٹ ہے
جو ہے اُلٹی پڑھائی تو میں کیا کروں