یوں لگتا ہے زلزلہ سے متاءثر آج ہماری ہر بہن ہر بھائی ہر بچہ ہماری طرف دونوں باہیں پھیلا کر کہہ رہا ہے ۔کیا کہوں اے دنیا والو کیا ہوں میں
دیکھ لو مجھ کو کہ تم جیسا ہوں میں
جب مجھے تم نہیں پہچانتے
غیر اپنے آپ کو لگتا ہوں میں
عجیب کیفیت ہے کہیں کوئی بچہ کوئی بہن کوئی بھائی ٹنوں ملبہ کے نیچے سے زندہ برآمد ہوتا ہے تو مایوسیوں کے گھٹاٹوپ اندھیرے میں امید کی ایک کرن پھوٹتی ہے جو لمحہ بھر میں غائب ہو جاتی ہے اور پھر گھٹا ٹوپ اندھیرا چھا جاتا ہے ۔ امید و یاس کی اس فضا می نہ رات کو آرام نہ دن کو چین ۔ ہفتہ 8 اکتوبر سحری کے وقت سے اب تک میں کل دس گھنٹے آرام کر سکا ہوں ۔ کام کا حساب لگاتا ہوں تو سمندر میں ایک قطرہ محسوس ہوتا ہے ۔گذشتہ رات اور اس پچھلی رات مرگلہ ٹاورز پر جذباتی صورت پیدا ہوئی ۔ اتوار اور پیر کی درمیانی شب ایک امدادی کارکن کو مدھم سی آواز سنائی دی “مجھے نکالو میں زندہ ہوں” ۔ وہاں ایک چھوٹا سوراخ کر کے ایک مائیک لٹکایا گیا تو صاف آواز سنائی دی “میں زندہ ہوں ۔ میں بالکل ٹھیک ہوں ۔ مجھے نکالو” ۔ ملبہ میں ایک طرف سے سرنگ کھودی گئی جس میں دو تین گھنٹے بعد جب حماد نامی بائیس تیئس سالہ لڑکے کو باہر نکالا تو وہ بلند آواز میں اللہ اکبر اللہ اکبر کہتا جا رہا تھا ۔ اس پر تمام امدادی کارکن اور اپنے عزیزون دوستوں کے نکلنے کی آس میں کھڑے لوگوں نے یک زبان ہو کر نعرہ لگایا ” نعرہء تکبیر ۔ اللہ اکبر” گذشتہ رات ایک عراقی خاتون اور اس کے شیر خوار بچے کو نکالا گیا تو لوگوں نے نعرے لگاۓ “برطانوی مددگار زندہ باد” عراقی عورت نے بتایا کہ “میں نے تو کچھ نہیں کھایا پیا لیکن میں اپنے بچے کو اپنا دودھ پلاتی رہی اور وہ کھیلتا رہا” ۔ سبحان اللہ ۔
اب تک وقفے وقفے سے جھٹکے محسوس کئے جا رہے ہیں ۔ آج دو بج کر دس منٹ پر ذرا تیز تھا ۔ آج تنبہہ کی گئی ہے کہ رات آٹھ اور بارہ بجے کے درمیان زلزلے کے تیز جھٹکے آ سکتے ہیں ۔ اللہ سب کو خیریت سے رکھے ۔ ہمارا مالی بتا رہا تھا کہ گاؤں پیر سوہاوہ میں جو مکان اس نے پچھلے سال بنایا تھا اس میں دراڑیں پڑ گئی ہیں اور اس کے بھائی کا مکان گر گیا ہے ۔ اس مکان کے لئے بیچارے نے بڑی مشکل سے پیسے اکٹھے کئے تھے اور خود بھی تعمیر میں حصہ لیا تھا ۔ اور کہہ رہا تھا کہ زلزلے کے بار بار جھٹکوں سے اس کی بیٹی اتنی ڈر گئی ہے کہ تین دن سے سوئی نہیں ہے اور ہر وقت دروازے میں کھڑی رہتی ہے ۔ اس سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ان لوگوں کا کیا حال ہو گا جہاں اتنی تباہی ہوئی ہے ۔
ہمارے ایک عزیز اسی سال اگست میں لیبیا گئے اور اپنے 16 سالہ بیٹے ذھیر اقبال کو اپنے بڑے بھائی کے پاس تعلیم کی خاطر چھوڑ گئے ۔ ہفتہ کے روز اس کی لاش مرگلہ ٹاورز کے ملبہ سے نکلی تھی ۔ انا للہ و انّا الہہ راجعون ۔ بعد میں اس کی تائی صاحبہ کو زخمی حالت میں نکالا گیا ۔ تایا صاحب کا ابھی تک کچھ پتہ نہیں ۔
آج صبح اطلاع ملی کہ جن علاقوں میں اب جا سکتے ہیں وہاں بھی پینے کا پانی نہیں ہے اور لوگ گندا پانی پینے پر مجبور ہیں تو تین سے دس لیڑ کی بوتلوں میں پانی کا ایک ٹرک بھجوایا ۔ ہم اتوار سے کوشش کر رہے ہیں ابھی تک صرف 250 تھیلے آٹا اکٹھا ہوا ہے ۔ مل والے کہتے ہیں گندم نہیں مل رہی ۔ راولپنڈی سے کمبل اور رضائیاں اتوار کو جو ملیں اس کے بعد نہیں مل رہے ۔ بھنے چنے جتنے ملے لے لئے ۔کل 7 سے 10 من کا وعدہ ہے اس کے بعد پتہ نہيں ۔ چھوٹے چھوٹے اداروں کی پہنچ اتنی ہی ہوتی ہے ۔ لپٹن نے مشہوری کے لئے پیکٹ بناۓ تھے جس میں بسکٹ اور ایوری ڈے وائٹنر ہے وہ سب اٹھا لئے ۔ جوں ہی ایک ٹرک کے قابل سامان بنتا ہے بھیج دیا جاتا ہے ۔ آج دوپہر تک مظفرآباد جانے کا راستہ بذریعہ ایبٹ آباد تھا ۔ الحمدللہ مری والا راستہ بھی آج کھل گیا ہے ۔ اب دبے ہوؤں کو نکالنے کے لئے فوجی بھی کام کر رہے ہیں ۔ خوراک بھی کچھ پہنچنا شروع ہو گئی ہے ۔