یہ بات آج تک میری سمجھ میں نہیں آ سکی کہ ہم اسلام کو مذہب کیوں کہتے ہیں ۔ شائد اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم انگریزی کے لفظ religion کا ترجمہ کرتے ہیں ۔ قرآن الحکیم میں کہیں بھی اسلام کے ساتھ یا اس کے متعلق مذہب کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ سورۃ المائدہ کی آیۃ 3 میں تو بالکل واضح ہے ” آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔” صدق اللہ العظیم ۔ اسلام دین ہے ۔ لائحہء حیات یعنی زندگی گذارنے کا ایک دستور یا آئین ہے ۔مذہب کا لفظ عربی زبان سے اردو میں آیا۔ اس کا مطلب فرقہ ہوتا ہے ۔ عربی زبان میں ایک مقولہ یا محاورہ ہے ۔ من تہذب خاءن ۔ یعنی جس نے تفرقہ ڈالا اس نے خیانت کی ۔ ایک کتاب پاکستان میں دستیاب ہے ” کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعہ ” تالیف ہے عبدالرحمان الجزیری کی جو جامعہ الازہر۔ مصر کے مایہء ناز عالم تھے۔ اس کتاب کا اردو ترجمہ تیئس سال پہلے شائع ہوا تھا۔ اس کتاب میں جو اربعہ مطلب چار مذہب یعنی فرقے ہیں وہ حنفی۔ شافعی۔ مالکی اور حنبلی ہیں ۔ جن اشخاص سے یہ مذہب منسلک کئے گئے ہیں وہ چار مجتہد ہیں امام ابو حنیفہ 80 تا 150 ہجری ۔ امام مالک 93 تا 179 ہجری ۔ امام شافعی 150 تا 204 ہجری اور امام احمد بن حنبل 164 تا 241 ہجری ۔ ۔
ان چاروں حضرات کی سوانح پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے وقت کے مطابق دین کی سمجھ بڑھانے کے لئے اجتہاد کیا ۔ ان کے ادوار میں مسلمان کسی خاص مذہب یعنی فرقہ کے پابند نہیں تھے اور نہ ہی ان کے علم میں تھا کہ ایسی کوئی شق ہے جس میں علماء اور ائمہ کرام کے استنباط اور اجتہاد کو حتمی حیثیت دے دی جائے ۔ جب تک مجتہدین نے اجتہاد کی حدود و قیود کی پابندی کی اس وقت تک اجتہاد باعث رحمت رہا اور اختلاف رائے میں رواداری حوصلہ اور درگذر کا پہلو غالب رہا اور مسلمان فقط دین اسلام پر کاربند رہے ۔ وسط چوتھی صدی ہجری یعنی امام ابو حنیفہ کی وفات کے دو صدی بعد تک اور امام احمد بن حنبل کی وفات کے ایک صدی بعد تک مسلمان دین پر صحیح طور سے کاربند رہے ۔ جب اجتہاد کی شرائط سے چشم پوشی شروع ہوئی تو مذہبیت یعنی فرقہ واریت بتدریج غالب آنا شروع ہو گئی اور تعصّب کے دور کا آغاز ہو گیا ۔ آج ہم ان گنت فرقوں میں بٹ کر دین سے بہت دور جاچکے ہیں ۔ ہم لوگ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے راستہ کو چھوڑ کر اپنے منتخب مرشدوں یا اماموں کے بتائے ہوئے یا شائد اپنی طرف سے ان کے نام سے منسوب کردہ اپنے بنائے ہوئے راستوں پر چل رہے ہیں جس کے نتیجہ میں نہ صرف دینی بلکہ دنیاوی لحاظ سے بھی ہم بہت پیچھے رہ گئے ہیں ۔
اہل مغرب نے دین کو چھوڑ کر انسانی آسائش کو اپنی زندگی کا دستور یا آئین بنا لیا اور ہر چیز کو اس طرز پر ڈھالا ۔ جس کے نتیجہ میں انہوں نے مادی ترقی کر کے زندگی کی تمام آسائشیں حاصل کر لیں لیکن ساتھ ہی دین سے دور ہو جانے کے باعث اخلاقی پستیوں میں گھر گئے ۔
ہم نے دین کے علاوہ وطن کے ساتھ بھی غلو کیا ۔ ایک چھوٹی سی مثال دیتا ہوں ۔ ہمارے ملک میں قومی جھنڈے کی یہ عزت ہے کہ یوم آزادی پر اپنی دکانیں اور مکان سجاتے ہیں اس کے بعد قومی جھنڈے ہمیں سڑکوں یا کوڑے کے ڈھیروں پر پڑے نظر آتے ہیں ۔ ایک عام حکم نامہ ہے کہ جب قومی ترانہ بج رہا ہو تو با ادب کھڑے ہو جائیں مگر وہی کھڑے ہوتے ہیں جو کسی وجہ سے مجبور ہوتے ہیں ۔ میں امریکہ گیا ہوا تھا تو میرا بیٹا زکریا مجھے لیزر شو دکھانے سٹوں مؤنٹین لے گیا ۔ شو کے آخر میں امریکہ کا ترانہ بجایا گیا ۔ تمام امریکی مرد اور عورتیں اٹھ کر کھڑے ہوگئے اور ان میں سے بہت سے اسی لے کے ساتھ ترانہ گانے لگے اور ترانہ ختم ہونے پر گھروں کو روانہ ہوئے ۔ کاش ہم ان کی اچھی عادات اپناتے ۔
خوب لکھا ہے۔۔۔۔
عالیجناب اجمل صاحب جان کی امان پاؤں تو عرض ہے، جیسا کہ آپ نے لکھا
’’آج ہم ان گنت فرقوں میں بٹ کر دین سے بہت دور جاچکے ہیں ۔ ہم لوگ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے راستہ کو چھوڑ کر اپنے منتخب مرشدوں یا اماموں کے بتائے ہوئے یا شائد اپنی طرف سے ان کے نام سے منسوب کردہ اپنے بنائے ہوئے راستوں پر چل رہے ہیں‘‘
میں صرف اتنا جاننا چاہتا ہوں کہ آخر آپ کس لئے فرقوں میں بٹ گئے، ایسی کیا آفت آگئی جس کی وجہ سے آپ مرشدوں اور اماموں کے راستے پر چل پڑے ـ میں آپ کو نیک بزرگ مانتا ہوں، آپ بھی ایک نیا دین بنا لیں تاکہ ہم سب آپکے پیچھے چلیں ـ جیسا کہ پرانے زمانے کے بزرگوں نے اپنے اپنے الگ مذہب بناکر ہم انسانوں کو فرقوں میں بانٹ کر چلے گئے ـ
برائے مہربانی غصّہ نہ ہوں، میں نے آپ کے ذاتی بارے سوالات نہیں پوچھے ـ امید کرتا ہوں میٹھے الفاظوں میں جواب دیں گے ـ
شعیب صفدر صاحب اور دبئی والے شعیب صاحب
جو بات جیسے میری سمجھ میں آتی ہے اسی طرح اظہار کر دیتا ہوں ۔ کوئی پسند کرتا ہے اور کوئی پسند نہیں کرتا ۔ زیادہ تعداد ناپسند کرنے والوں کی ہوتی ہے ۔
اب دبئی چلتے ہیں ۔ استغفراللہ العظیم و نعوذ باللہ من ذالک ۔ شعیب صاحب ۔ کیا آپ مجھ سے فرقہ بندی کی توقع رکھتے ہیں ؟ اس کا مطلب تو کچھ اس طرح ہوا کہ آج تک میں نے بلاگ پر جو کچھ لکھا وہ مبہم اور سمجھ میں نہ آنے والا تھا یعنی میری ساری محنت صرف گدھےکی طرح کتابیں اٹھانے کی طرح ہی تھی ۔
رہی بات مسلم امّہ کی تو لوگوں کو اللہ کی بجاۓ دنیا کی چند روزہ زندگی پیاری ہو گئی تو نہ صرف امّہ بالکہ خاندان بھی بٹ گئے ۔ جب انسان لالچی اور خود غرض ہو جاۓ تو اس کی عقل اندھی ہو جاتی ہے اور وہ ہر چمکدار چیز کے پیچھے بھاگنا شروع کردیتا ہے حالانکہ اسے معلوم ہوتا ہے کہ ہر چمکنے والی چیز سونا نہیں ہوتی ۔ خود غرضی انسان کو وحشی جانور سے بدتر بنا دیتی ہے اور وہ اس سراب میں مبتلا ہو جاتا ہے کہ وہ کامیاب جا رہا ہے ۔ نہ اس کی نیند اپنی ہوتی ہے نہ اس کا دن اپنا ہوتا ہے ۔ شیطان ان کو اس غلط فہمی میں مبتلا کر دیتا ہے کہ سب کچھ اس کا اپنا ہے ۔
ایک ذاتی بات میں واضح کرنا چاہتا ہوں کہ اللہ سبحانہ کے فضل وکرم سے میں اور میرا خاندان فرقوں میں نہیں بٹے اور سب کے سب ماشاء اللہ اپنی مرضی سے اکٹھے ہیں ۔ اس کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے کہ اللہ جل شانہ کی مہربانی سے ہم چاروں بھائی بیویوں بچوں سمیت ایک ہی گھر میں رہتے ہیں ۔
جناب افتخار صاحب
میں نے آپ سے وہی پوچھا تھا جیسا آپ نے خود لکھا کہ آپ مرشدوں اور اماموں کے راستے پر چل رہے ہیں اور فرقوں میں بٹ چکے ہیں وغیرہ
آپ کی تحریروں میں ناپسند جیسی کوئی بات ہی نہیں، آپکی تحریریں معیاری اور معلومات سے بھر پور ہوتی ہیں اسلئے تو آپ کے بلاگ پر آتا ہوں ـ
ہند اور پاک میں زلزلوں سے ہوئی تباہی پر بہت دکھ ہوا –
شعیب صاحب
ہم اس لئے استعمال کیا جاتا ہے کہ قارئین ناراض نہ ہو جائیں ۔ میرے پورے خاندان میں یعنی بہن بھائیوں سمیت نہ کوئی پیر پرست ہے اور کسی فرقہ کو صحیح سمجھتا ہے ہم سب صرف قرآن اور سنت پر چلنے کی کوشش کرتے ہیں ۔
can not read it all, Urdu portion is broken and shown in machine language.
Mr Iftikhar thank u for introducing blogger. I,m trying to create an account.