دماغی امراض کے ہسپتال کے سب سے بڑے ڈاکٹر صاحب شام کو فارغ ہو کر گھر جانے کے لئے اپنی کار کے پاس پہنچے تو سر پکڑ کر رہ گئے ۔ ایک مریض اپنے کمرے کی کھڑکی سے دیکھ رہا تھا بولا
مریض ”ڈاکٹر صاحب ۔ کیا پریشانی ہے ؟“
ڈاکٹر ” کوئی شریر میری کار کے ایک پہیئے کی چاروں ڈھبریاں اتار کر لے گیا ہے“۔
ڈھبری کو انگریزی میں nut کہتے ہیں ۔
مریض “ڈاکٹر صاحب اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ۔ باقی تین پہیئوں سے ایک ایک ڈھبری اُتار کر اس میں لگا لیں اور کار آہستہ چلاتے ہوئے سپیئر پارٹس کی دکان تک چلے جائیں ۔ وہاں سے چار ڈھبریاں خرید کر لگا لیں پھر گھر چلے جائیں“۔
ڈاکٹر ” تم نے پاگل ہوتے ہوئے وہ بات کہہ دی جو میری عقل میں نہیں آئی تھی“۔
مریض ” میں پاگل ہوں مگر بیوقوف نہیں“۔
بہت خوب ۔ لیکن پاگل اور بیوقوف میں فرق واضح نہیں کیا ٓپ نے
رانا صاحب
پاگل اور بیوقوف کا فرق واضح ہے ۔ ذہنی مریض کو پاگل کہتے ہیں ۔ مرض کسی کے اپنے قابو میں نہیں ہوتا لیکن بیوقوف وہ ہوتا ہے جو عقل استعمال نہیں کرتا یا عقل کا صحیح استعمال نہیں کرتا ۔
Well said!!
اسماء مرزا صاحبہ
یہ ایک حقیقی مکالمہ ہے جو آج سے شائد پنتالیس سال پہلے برطانیہ کے ذہنی امراض کے ایک بڑے ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ اور مریض کے درمیان ہوا تھا اور ڈاکٹر نے خود بیان کیا تھا ۔ میں نے اپنی ڈائری سے دیکھ کر ترجمہ کیا ۔
پاگل کی اسی بات پر ایک لطیفہ نما حقیقی واقعہ یاد آیا۔ ہمارےایک وزیرِ اعظم پاگل خانے کے دورے پر گئے ان کا مکالمہ ایک پاگل کے ساتھ کچھ اس طرح ہوا۔
پاگل: آ پ کون ہیں
وزیر اعظم: میں وزیرِ اعظم پاکستان ہوں
پاگل: کوئی بات نہیں ٹھیک ہو جاؤ گے میں بھی جب یہاں آیا تو یہی کہتا تھا۔
بہت خوب ۔ ہمارے موجودہ وزیر اعظم صاحب اس کا زیادہ حق رکھتے ہیں