آخری قسط کا انتظار کئے بغیر دانیال صاحب نے اپنی 19 جولائی کی تحریر میں تجزیہ کر دیا اور سوال پوچھنے کے جرم میں مجھ پر جذباتی ہونے کا لیبل لگا دیا حالانکہ جذباتی وہ ہوتا ہے جو دوسرے کی پوری بات سنے بغیر اپنی بات شروع کر دے ۔ فی الحال میں اپنی تحریر مکمل کروں گا ۔ دانیال صاحب کی تحریر کا جائزہ بعد میں ۔
جو سائنسدانوں کا نام لکھا ہے، یہ صرف اسلامک ہسٹری تک ہی محدود ہیں دنیا کی باقی قومیں ان ناموں سے بالکل ناواقف ہے ۔ ۔ ۔ سال میں صرف ایک دن یہاں دبئی میں بارش ہوتی ہے، سائنس کی بدولت اس بار دبئی کی تاریخ میں پہلی بار ٹھہر ٹھہر کر پورا مہینہ بارش برستا رہا ـ اس کام کیلئے امارات نے امریکہ کو کروڑوں ڈالر ادا کئے ہونگے ـ یہ اسلامی ملک ہے اگر چاہتے تو دعا کرلیتے، امریکہ سے بارش خریدنے کی کیا ضرورت تھی ۔ ۔ ۔ آپ یقین کیجئے آج کا سائنسدان بہت کچھ کرسکتا ہے، اتنا کچھ کہ سوچنا بھی مشکل ہے
مغربی دنیا کے عیسائی اور یہودی جنہیں ہم لوگ کشادہ دل سمجھتے ہیں وہ انتہائی شقی القلب ہیں ۔ مگر سچائی نے قائم رہنا ہوتا ہے اس لئے مغربی دنیا ہی میں چند محقق ایسے پیدا ہوتے رہتے ہیں جو دنیا کو حقیقت سے آشنا کر دیتے ہیں ۔ جو نام میں نے لکھے یہ بیسویں صدی میں مغرب کے لوگوں نے ہی تحقیق کے بعد کتابوں میں نہ صرف شامل کئے بلکہ ان کے کارناموں کی تفصیل اور ان کے اصلی نام بھی لکھے ۔ وہیں سے پڑھ کر کچھ مسلمانوں نے ان معلومات کو انٹرنٹ کی زینت بنایا اور مختلف ویب سائٹس نے ان کو یکجا کیا ۔
ہلاکو خان نے 1258 عیسوی میں بغداد کو فتح کرنے کے بعد وہاں کی ہر چیز تباہ کر دی ۔ اور 1492 عیسوی میں یورپ کے لوگوں نے غرناطہ اور قرطبہ میں یہی عمل دہرایا ۔ کچھ کتابیں جو صاحب علم لوگوں کے ہاتھ لگیں ان کا انہوں نے ترجمہ کیا یا کروایا اور اس علم کو آگے بڑھانا شروع کیا ۔ کچھ ایسے بھی تھے جنہوں نے مسلمانوں کی تحقیقات کو ترجمہ کے بعد اپنے نام لکھ لیا ۔ایک اور بات بھی ہے کہ مختلف زبانوں میں نام مختلف طریقہ سے لکھے جاتے ہیں بعض نام بدل بھی دیئے جاتے ہیں ۔ جس طرح مغرب والے حضرت عیسی علیہ السلام کو جیزز کہتے ہیں اور حضرت یحی علیہ السلام کو جوھن یا جاھن کہتے ہیں ۔ اسی طرح ممبئی کو انہوں نے بمبے ۔ اٹک کو کیمبلپور اور ساہی وال کو منٹگمری بنا دیا تھا ۔
سائنس کی مثبت سمت میں ترقی سے انسان کو کافی فوائد حاصل ہوئے ہیں لیکن ابھی تک عام انسان اس کے فوائد سے زیادہ فائدہ نہیں اٹھا سکا ۔ جبکہ منفی ترقی انسان بلکہ انسانیت کی تباہی کا باعث بنی ہے اور بن رہی ہے ۔ یہ حقیقت کبھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیئے کہ سب کچھ اللہ سبحانہ و تعالی نے مہیا کیا ہوا ہے ۔ انسان صرف کھوج لگا کر اسے دریافت کرتا ہے اور استعمال کے قابل بناتا ہے ۔ سائنس نہ خالق ہے نہ طاقت نہ ہمیشہ رہنے والی ۔ خالق صرف اللہ ہے ۔ سب طاقت بھی اسی کے پاس ہے اور وہی الحی و القیّوم ہے ۔ حسبی اللہ و لا الہ الا اللہ علیہ توکّلت و ہو رب العرش العظیم ۔
ذرائع رسل و رسائل یعنی کمیونیکیشن سسٹمز میں جس میں کمپیوٹر بھی شامل ہے سائنس کی ترقی انسانوں کی اکثریت کے لئے فائدہ مند ہوئی ہے اور جرائم کی روک تھام میں بھی اس کا کردار ہے مگر ساتھ ہی جرائم کو آسان اور تباہ کن بھی بنا دیا ہے ۔ اسلحہ تو سراسر تباہی کا باعث ہے ۔ انسان کی آسائش کے لئے ہوائی جہاز ۔ کاریں ۔ ایئر کنڈیشنر ۔ ریفریجریٹر ۔ آٹومیٹک واشنگ مشین ۔ کوکنگ رینج ۔ کچن مشینز وغیرہ نے آسائش مہیا کی ہے مگر بہت کم لوگوں کو ۔ یہ تو ان لوگوں کے استعمال کی اشیاء ہیں جن کے پاس خریدنے کی استطاعت ہو ۔ دنیا کی آبادی کے کم از کم ایک تہائی لوگوں کو پیٹ بھر کے کھانا نہیں ملتا ۔ رہنے کو اپنا مکان نہیں ۔ مزید ایک تہائی بمشکل گذر اوقات کرتے ہیں ۔ ان دو تہائی لوگوں کے لئے ابھی تک کوئی خاص کام نہیں ہوا ۔
سرطان کا علاج دریافت ہو گیا ہے لیکن دنیا کے 70 فیصد سے زائد لوگ اس علاج کا خرچ برداشت نہیں کر سکتے ۔ عام آدمی کی سب سے اہم اور جان لیوا بیماری یرقان ہے جس کی نہ وجہ آج تک معلوم ہوئی نہ کو ئی جامع علاج ۔ پولیو کی ویکسین نے فائدہ پہنچایا ہے ۔ اینتھریکس بھوت بنے کھڑی ہے ۔
مالدار ملک دبئی نے مصنوئی بارش خرید لی مگر جو ملک غریب اور خشک سالی کا شکار ہیں وہ کہاں جائیں ؟ مصنوعی بارش کے لئے فضا میں مناسب بخارات کا ہونا شرط ہے جو فی الحال سائنس کے بس کی بات نہیں ۔ دوسری بات یہ ہے کہ سلور نائیٹریٹ یا دوسرے نمکیات جو فضا میں بکھرے جاتے ہیں یہ صحت افزاء نہیں ۔ میرے خیال میں تو قدرتی نظام کو درہم برہم کرنا کوئی مفید بات نہیں ۔ یہ بات میں سائنس کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں دین کی بنیاد پر نہیں ۔
سنتے ہیں آجکل میڈیکل سائنس بھی بہت ترقی کر گئی ہے ۔ باپ کے بغیر یا شائد ماں کے بغیر یا شائد دونوں کے بغیر انسان پیدا کرنے کو ہيں ۔ مجھے کوئی اتنا بتائے کہ ترقی یافتہ دنیا میں کتنے معالج ڈاکٹر ہیں جن کی اپنی صحت سو فیصد ٹھیک ہے ؟ ایک امیر آدمی کو آرام دہ گھر کے آرام دہ کمرے میں آرام دہ بستر پر اچھے سے اچھے ڈاکٹر سے مشورہ کر کے اچھی سے اچھی دوائی کھانے کے باوجود نیند نہیں آتی ۔ سائنس اس امیر مگر بدقسمت انسان کو نیند مہیا کرنے سے قاصر ہے ۔ گرمی ہو یا سردی غریب آدمی زمین پر بھی اس طرح سو جاتا ہے کہ قریب ڈھول بج رہے ہوں تو اسے خبر نہیں ہوتی ۔ یہ نیند اور سکون اللہ عطا کرتا ہے ۔
رہی اللہ سبحانہ و تعالی سے دعا کرنے کی بات تو اس کی ہجو کو میں گناہ سمجھتا ہوں ۔ میرا یقین ہے کہ انسان خلوص نیّت سے دعا مانگے تو قبول ہوتی ہے ۔ بات صرف اتنی ہے کہ کبھی ہمیں منظور ہوئی نظر آ جاتی ہے اور کبھی نہیں ۔اللہ کا منکر شخص بھی جب مشکل میں ہو یا کسی وجہ سے مایوس ہو تو پکار اٹھتا ہے ۔ یا اللہ ۔ یا رب ۔ اے بھگوان ۔ او گاڈ ۔ ان میں وہ سائنسدان بھی ہوتے ہیں جو بقول شعیب صاحب کے اللہ کی بھی پروہ نہیں کرتے ۔ میرا نظریہ تو یہ ہے کہ سائنس کی تعلیم انسان کو اللہ کا قائل کرتی ہے اللہ سے دور نہیں ۔ بلکہ دین کے کئی پہلو ماضی قریب میں سائنس کی مدد سے بھی ثابت کئے جا چکے ہیں ۔
اسلام اور جدید سائنس سے ایک اقتباس
صدی جب کروٹ بدلتی ہے تو ایک ممکن کو حقیقت کا روپ مل چکا ہوتا ہے۔ پچھلی نسل جس ترقی کی خواہش کرتی تھی موجودہ نسل اسے کئی منزلیں پیچھے چھوڑ چکی ہے سائنسی تحقیقات کی موجودہ تیزی نے زمین و آسمان کی پہنائیوں میں پوشیدہ لاتعداد حقائق بنی نوع انسان کے سامنے لا کھڑے کۓ ہیں۔ آج سے کم و پیش ڈیڑھ ہزار سال پہلے بنی نوع انسان کے ذہن میں علم کے موجودہ عروج کا ادنیٰ سا تصور بھی موجود نہ تھا۔ انسان یوں جہلِ مرکب میں غرق تھا کہ اپنی جہالت کو عظمت کی علامت گردانتے ہوۓ اس پر نازاں ہوتا تھا۔ اسلام کی آفاقی تعلیمات نے اُس دورِ جاہلیت کا پردہ چاک کرتے ہوۓ ہزار ہا ایسے فطری ضوابط کو بے نقاب کیا جن کی صداقت پر دورِ حاضر کا سائنسی ذہن بھی محوِ حیرت ہے۔
قرونِ وُسطیٰ میں مسلمان سائنسدانوں نے جن سائنسی علوم کی فصل بوئي تھی آج ہو پک کر جوان ہو چکی ہے اور موجودہ دور اسی فصل کو کاشت کرتے ہوۓ اس کے گوناگوں فوائد سے مستنیر ہو رہا ہے۔ مسلمان جب تک علمی روش پر قائم رہے سارے جہاں کے امام و مقتدا ر ہے اور جونہی علم سے غفلت برتی ‘ثریا سے زمیں پر آسمان نے ہم کو دے مارا۔ اور آج حالت یہ ہے کہ ہمارے اسلاف کا علمی ورثہ اپنے اندر ہونے والے بے شمار اضافہ جات کے ساتھ اغیار کا اوڑھنا بچھونا ہے اور ہم ان کے پیچھے علمی و ثقافتی اور سیاسی و معاشی میدانوں میں در در کی بھیک مانگتے نظر آتے ہیں۔
2 جنوری 1492ء کا تاریخی دن مغربی دنیا کیلۓ علم و فن، تہذیب و تمدن اور سانئس و ٹیکنالوجی کا تحفہ لۓ طلوع ہوا۔ غرناطہ میں ہونے والی سیاسی شکست کے بعد مسلم قوم ذہنی شکست خوردگی کی دلدل میں الجھ کر سو گئی اور عالم مغرب مسلمانوں کی تحقیقات و اکتشافات پر سے ان کے موجدوں کا نام کھرچ کر انہیں اپنے نام سے منسوب کرنے لگا۔ اسلامی سپین کی یونیورسٹیوں میں زیر تعلیم عیسائی و یہودی طلباء مسلمانوں کا علمی وطیرہ اپنے ساتھ اپنے ممالک کو لے گۓ اور ہم غرناطہ میں سیاسی شکست کھانے کے بعد اسے مقدر کا لکھا کہتے ہوۓ رو پیٹ کر بیٹھ رہے اور سیاسی میدان میں ہونے والی شکست کے بعد علمی میدان سے بھی فرار کا راستہ اختیار کر لیا۔ اغیار نے ہمارے علمی ورثے سے بھر پور فائدہ اٹھایا اور سائنسی ترقی کی اوج ثریا تک جا پہنچے۔ غفلت کی نیند بے سدھ پڑی مسلمان قوم کو فقط ایک ٹہو کے کی ضرورت ہے ، فقط اپنی میراث سے شناسائی ضروری ہے۔ جس روز اس قوم نے اغیار کے قبضے میں گھری اپنی قیمتی متاع کو پہچان لیا یقینا اپنے کھوۓ ہوۓ ورثے کے حصول کے لیے تڑپ اٹھے گی۔ وہ دن تاریخ عالم کا سنہری دن ہو گا۔
بیسوی صدی عالم اسلام کے لیے اللہ رب العزت کی بے شمار نعمتیں لے کر آئی۔ اس صدی میں جہاں کرہ ارضی کے بیشتر مسلمان سیاسی آزادی کی نعمت سے بہرہ مند ہوئے وہاں علمی میدان میں بھی مثبت تبدیلی کے آثار نمودار ہو ئے لیکن مسلمان حکمرانوں نے نہ صرف آزادی کے اثرات کو اپنے عوام کی پہنچ سے دور رکھا بلکہ صحیح فطری خطوط پر ان کی تعلیم کا خاطر خواہ انتظام بھی نہ کیا، جس کی وجہ سے قحط الرجال کا مسئلہ جوں کا توں باقی رہا۔ اس وقت دنیا کی معیشت کا بڑا انحصار تیل پیدا کرنے والے مسلمان ممالک پر ہے۔ عرب کی دولت مسلمانوں کی معاشی ابتری سے نجات اور عالمی سطح پر سیاسی تفوق کی بحالی کے لیے بہترین مدد گآر ثابت ہو سکتی تھی مگر افسوس کہ وہ بھی شاہی اللوں تللوں میں ضائع ہو گئی اور من حیث المحجموع امت مسلمہ اس سے کوئی خاص فائدہ نہ اٹھا سکی۔
اقتبس تحریر کرنے کا شکریہ