آج سے پچیس سال پہلے کا واقعہ ہے۔ اس وقت میں حکومت پاکستان کی طرف سے لیبیا کی حکومت کے ایڈوائزر (انڈسٹریل پلاننگ) کی حیثیت سے طرابلس میں متعین تھا۔ میرا چھوٹا بیٹا فوزی اس وقت سوا پانچ سال کا تھا۔26 جون 1980 بروز بدھ فوزی سکول سے واپس آیا تو کھانے پینے سے انکار کر دیا اور ایک کونے میں قالین پر بیٹھ کر آنسوؤں کے ساتھ رونا شروع کر دیا کہ میں نے پاکستان جانا ہے۔ اس وقت لبیا میں لگ بھگ ساڑھے تین (پاکستان میں ساڑھے پانچ) بجے بعد دوپہر کا وقت تھا ۔ میں نے بہلانے کی کوشش میں کہا اچھا کل دفتر جا کر چھٹی لوں گا اور ہوائی جہاز کے ٹکٹ لے کر آؤں گا پھر پاکستان چلیں گے۔ لیکن فوزی نے اپنا فیصلہ سنا دیا کہ میں نے ابھی اور اسی وقت پاکستان جانا ہے۔ ہر طریقہ سے بہلانے کی کوشش کی۔ اس کی مرغوب ترین ملک چاکلیٹ بار۔ میکنٹاش کوالٹی سٹریٹ کا ڈبہ۔ آٹومیٹڈ کھلونے۔ مگر کسی لالچ نے کوئی اثر نہ کیا۔ فوزی رات تک روتا رہا اور تھک کر سو گیا۔
اگلے دو دن سکول سے واپس آ کر پھر پاکستان جانے کا تقاضہ شروع ہو جاتا ۔ روتا بھی مگر زیادہ نہیں ۔ 29 جون کو میرے دفتر سے آتے ہی فوزی نے پہلے دن کی طرح متواتر رونا اور پاکستان جانے کا مطالبہ شروع کر دیا۔ ہم میاں بیوی کی سمجھ میں کچھ نہیں آتا تھا کہ کیا کریں ۔ ہماری پریشانی کی وجہ یہ تھی کہ فوزی نے کبھی زیادہ ضد نہیں کی تھی ۔ نہ ہی خاص روتا تھا اور ہماری بات مان بھی لیا کرتا تھا ۔
آخر 30 جون کو ہمیں دو تاریں اکٹھی ملیں۔ یہ میرے بہنوئی کی طرف سے تھیں۔ میری دو بہنیں پاکستاں میں تھیں باقی دو بہنیں اور ہم چاروں بھائی ملک سے باہر تھے۔ ایک تار 27 جون کی صبح کی تھی لکھا تھا ماں شدید بیمار ہے جلدی پہنچو۔ دوسری 29 جون کی تھی کہ والدہ فوت ہوگئیں ہیں جلدی پہنچو۔ کسی شخص کی بےوقوفی کی وجہ سے ہمیں یہ دونوں تاریں اکٹھی ملیں ۔ پاکستاں پہنچنے پر معلوم ہوا کہ بدھ 26 جون کو سوا پانچ ساڑھے پانچ کے درمیان میری والدہ محترمہ کر سٹروک یعنی برین ہیموریج ہوا تھا اور وہ کوما میں چلی گئیں تھیں اور 29 جون بعد دوپہر فوت ہوئیں ۔
اتنے چھوٹے بچے کے دل میں ہزاروں میل دور کس نے پاکستان جانے کا خیال ڈالا۔ اور کس چیز نے اس کو اتنا رلایا۔ اس سوال کا جواب آج کے بڑے سے بڑے سائنسدان کے پاس نہیں ہے ۔
Corrected. Thanks for pointing out.
har insn main koi nakoi khasyt huti hey .yee sab upar wala janiey
mager insan ko kushish karni chey main bhiy telepathi sekhn chta hoon mujhey rhnumiy chey ap merey madad karein plese
محمد یوسف صاحب
تبصرہ کا شکریہ ۔ آپ نے درست کہا کہ سب راز صرف اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی ہی جانتے ہیں ۔ بھائی ۔ میں تو ٹیلی پیتھی کو صرف اتنا سمجھتا ہوں کہ اللہ چاہے جس کے دل یا ذہن میں کچھ معلومات ڈال دیے ۔ آپ کا قیام کہاں ہے سُنا ہے کہ امریکہ میں ٹیلی پیتھی کی تعلیم دی جاتی ہے ۔ میں ایسے ایک شخص کو جانتا ہوں ۔
Telepathy ko aam insan manta hi nai
6th sence hi sahi
insan k pas b kcuh nadidh khososiyat hain jo ksi main kam or ksi mai ziyadah hoti hain
bas samjh ka or sahor ka pher hai
افتخار صاحب کوشش کرتا ہوں تبصرہ پر سے پابندی ہٹا سکوں
کئی بار کوشش کی ہے جانے مسئلہ کیا ہے
آپ کی تحریر پرانی ہے پر کچھ بھی تلاش کروں تو یہی بلاگ کھل جاتا ہے
اتنا کچھ لکھ رکھا ہے جناب آپ نے
تحريم صاحبہ
آپ طارق راحيل صاحب کی تلاش ميں يہاں پہنچيں ؟
نہیں چچا جان
وہ کہاں کہاں جا چکے ہیں میں سمجھ ہی نہیں سکتی
مجال ہو جہاں میں جاؤں اور وہ وہاں موجود نہ ہوں
جس مضمون پر لکھنا چاہوں ان کے پاس مواد اور لنکس کا ڈھیر
سو ان کو نہ ہی کچھ بتاتی ہوں اور نہ ہی ان کی تلاش میں جاتی ہوں
اب دیکھئے یہاں تو آپ ہی مجھے لے آئے ورنہ میں تو جانتی ہی نہیں وہ یہاں1سال سے زیادہ عرصہ پہلے آ چکے ہیں
تحريم صاحبہ
جہاں سے آپ کا تبصرہ اس بلاگ پر مُنتقل کيا گيا ہے وہاں بھی اُن کا تبصرہ آپ کے تبصرہ سے اُوپر موجود ہے ۔ دوبارہ ديکھ ليجئے ۔ ربط يہ ہے
http://iftikharajmal.wordpress.com/2005/06/29/