Monthly Archives: May 2005

ہوشیار۔ پاکستان ترقی کی راہ پر دوڑرنے لگا

کل یعنی اکیس مئی کو ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان والوں اور دیگر این جی اوز والوں نے لاہور میں مخلوط واک کروائی جس میں نعرے لگائے گئے کہ عورتوں مردوں کی مخلوط دوڑوں کی اجازت دی جائے۔ کیا اسی وجہ سے امریکہ۔ یورپ اور جاپان ترقی کر گیا ہے ؟یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ملک میں جو اصلی جمہوریت نافذ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اس کا پہلا اصول ہے کہ اپنے عوام کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے جسے چاہو جان سے مار دو جسے چاہو قید کر دو یا پکڑ کے امریکہ کے حوالے کر دو اور جسے چاہو پولیس سے ڈنڈے مرواؤ۔ اس لئے پچھلی دفعہ اگر عاصمہ جہانگیر کو ڈنڈے پڑے تو کوئی نئی بات نہیں۔ پہلے بھی بہت لوگوں کو پڑ چکے ہیں۔

جو بات سمجھ میں نہیں آتی وہ یہ ہے کہ کیا مردوں عورتوں کی مخلوط دوڑ سے معاشرہ یا قوم ترقی کی راہ پر دوڑنے لگیں گے؟ آخر اس دوڑ کا بندوبست کرنے کے پیچھے کیا راز تھا؟ کیا مخلوط محفلوں اور ناچ گانے سے قوم ترقی کر جائے گی یا تعلیم یافتہ بن جائے گی؟ آخر ان ڈراموں کا سوائے اس کے کیا مقصد ہے کہ کچھ لوگ ذاتی سرفرازی یا اپنے نام کو میڈیا میں زندہ رکھنے کے لئے ایسی حرکتیں کرتے ہیں یا پھر ان غیر ملکی اداروں کی خوشنودی کے لئے ایسا کرتے ہیں جن کے فنڈ لاکھوں ڈالر انہوں نے ہڑپ کئے ہوتے ہیں۔

اگر ان ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان والوں اور دیگر این جی اوز والوں کو واقعی مظلوموں سے ہمدردی ہے تو جو فنڈز انہیں مختلف غیر ملکی اداروں سے ملتے ہیں ان کو فضول جلوسوں۔ فائیو سٹار ہوٹلوں میں پارٹیوں اور ناچ گانا کرنے کی بجائے۔ لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کے لئے دو چار سکول اچھے معیار اور کم فیس والے کیوں نہیں کھول دیتے؟ اگر مال خرچ نہیں کر سکتے تو جن سکولوں کالجوں میں اساتذہ کی کمی ہے ان میں سے ہر ایک وہاں باقاعدگی سے کوئی مضمون پڑھا دیا کرے۔

جن مولویوں کے خلاف یہ نام نہاد آزاد خیال لوگ ہر وقت زہر اگلتے رہتے ہیں ان میں یہ وصف تو ہے کہ کچھ مفت اور کچھ معمولی مشاہرہ کے عوض مدرسوں میں یتیم اور نادار بچوں کو کم از کم قرآن شریف اور اردو کی تعلیم دیتے ہیں اور کئی مدرسوں میں حساب۔ سائنس اور انگریزی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔

علامہ اقبال نے شاید ان آزاد خیالوں کے متعلق ہی کہا تھا
ہاتھوں سے اپنے دامن دنیا نکل گیا ۔۔۔ رخصت ہوا دلوں سے معاد بھی
قانون وقف کے لۓ لڑتے تھے شیخ جی ۔ پوچھو تو۔وقف کے لۓ ہے جائیداد بھی

سر منڈاتے ہی اولے پڑے

میرے والد (اللہ جنت عطا کرے) کا کوئی بھائی نہیں تھا۔ میں دو بہنوں کے بعد پیدا ہوا اور بڑی قدر و قیمت پائی لیکن میں ابھی ایک سال کا بھی نہیں ہوا تھا کہ بخار میں مبتلا ہوا۔ سب سے سینئر ڈاکٹر کا علاج مگر بخار اترتا نہ تھا اور میں اتنا کمزور ہو گیا کہ ہڈیوں پر صرف کھال ہی رہ گئی۔ پھر کہیں واضح ہوا کہ ٹانگ جہاں دھڑ سے ملتی ہے وہاں کوئی ابھار ہے جو کہ زہرباد (ایبسیس) کہلاتا ہے۔ جان بچانے کے لئے اس کی جراحی ضروری تھی سو کی گئی مگر جسم پر گوشت نہ ہونے کی وجہ سے زخم بھر نہیں رہا تھا چنانچہ ڈاکٹروں کی کانفرنس ہوئی۔ انہوں نے میرے لواحقین کو تو اللہ سے دعا کرنے کو کہا اور مجھے آپریشن تھیئٹر میں لے گئے۔ وہاں لوہے کی ایک سلاخ گرم کر کے زخم پر لگائی۔ سمجھ لیں کیا ہوا ہو گا۔ آپریشن کی جگہ جل گئی۔ بات وہی ہے کہ جسے اللہ رکھے اسے کون مار سکتا ہے۔ میں آج آپ کے سامنے اس کا ثبوت ہوں۔ البتہ جس جگہ گرم سلاخ لگی تھی وہاں گوشت نہیں بن سکا اور ایک کھڈا موجود ہے مگر اس کی وجہ سے مجھے کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔

سب کچھ دیا ہے اللہ نے مجھ کو ۔۔۔ میری تو کوئی بھی چیز نہیں ہے
یہ تو کرم ہے فقط میرے اللہ کا ۔۔۔ مجھ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے

یاد داشت

اسلام علیکم قارئین !جیسا کہ اوپر تحریر ہے اس بلاگ میں نام تعلیم پیشہ اور تجربہ کے علاوہ فرائض اور ذمہ داریاں (صرف میری نہیں آپ کی بھی) لکھی جائیں گی۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ قارئین بھی اپنے تجربات تحریر کریں گے۔ یعنی کوئی واقع جس سے انسانیت ظاہر ہوتی ہو یا انسانیت کا سبق ملتا ہو۔ آپ تبصرہ کے طور پر لکھئے۔ میں ان واقعات کو مین پوسٹ میں لے آؤں گا۔

ایسا کرنا

اب کے سال کچھ ایسا کرنا
اپنے پحھلے بارہ ماہ کے
دُکھ سُکھ کا اندازہ کرنا
سنہری یادیں تازہ کرنا
سادہ سا اک کاغذ لے کر
بھُولے بَسرے پَل لکھ لینا
اپنے سارے کل لکھ لینا
پھر بیتے ہوئے ہر اِک پل کا
اپنے گذرے اِک اِک کل کا
اِک اِک موڑ کا احاطہ کرنا
سارے دوست اکٹھے کرنا
ساری صُبحیں حاضر کرنا
ساری شامیں پاس بُلانا
اور علاوہ اِن کے دیکھو
سارے موسم دھیان میں رکھنا
اِک اِک یاد گمان میں رکھنا
پھر اِک محتاط قیاس لگانا
گر تو خوشیاں بڑھ جاتی ہیں
پھر تم کو میری طرف سے
آنے والا یہ سال مبارک
اور اگر غم بڑھ جائیں تو
مت بیکار تکلّف کرنا
دیکھو پھر تم ایسا کرنا
میری خوشیا ں تم لے لینا
مجھ کو اپنے غم دے دینا

اسماء کی ای میل بابت بن مانس یا آدمی ۔ اور اس کا جواب

میرا ارادہ تھا کہ اس کھاتہ کو اردو ہی میں رکھوں گا مگر ایک تو اسماء نے انگریزی لکھ بھیجی دوسرے میرا جواب ذرا لمبا ہو گیا اور میری اردو لکھنے کی رفتار ابھی بہت سست ہے دیگر میں نے محسوس کیا ہے کہ بہت سے اردو بلاگ رکھنے والے اور پڑھنے والے صحیح طرح اردو نہیں جانتے۔ چنانچہ جواب بھی انگریزی میں لکھ دیا۔ اصول کی خلاف ورزی پر معذرت خواہ ہوں۔

Assalamo alaykum w.w.!
Well, as far as comment to ur post about evolution is concerned, i would surely give a detailed answer as my papers would end on 27th :)
Well, i was just wondering do u have any Ahmadi in ur social circle? If yes, then U can ask him for a book
“Revelation, Rationality, Knowledge and Truth” By: Hadhrat Mirza Tahir Ahmad. If you can borrow this book, i’m sure u’ll be greatly delighted to read the book.
Wassalam Take care
Allah Hafiz
ASMA

My Reply

Thank you for your e-mail and your nice guidance on recommending a book. By chance I have already read (not the recommended book but) many books that describe views of people who call themselves Ahmedia. The first discussion I had about it was in 1955 with a student who was Ahmedia. In my young age (including college life), I have been writing articles effectively refuting false claims of the so-called Ahmedia community.

You must be knowing the name of Roshan Din Tanvir who remained editor of Al-Fazal the news paper of your community. I lived for a month with his one son and three daughters at 3-Maclagen Road, Lahore in 1953 or so. In those days Roshan Din Tanvir was at Rabwah. The adjoining apartment was office of Al-Fazal and library. I had access to the library. So I am one of the very few Muslims in Pakistan who were lucky to have that opportunity. There-after Allah was kind to provide me chance to know more about beliefs of followers of Mirza Ghulam Ahmed through my Ahmedia friends at Engineering College, Lahore.

From that study: I know that your community does not believe that Hazrat Adam, AS, was the first human being but only the first Nabi saying that humans were already there. Also, your community does not believe that Hazrat Eisa, AS, was lifted to heavens but believes that he died and is buried some-where in Kashmir.

I also know something that you may not be knowing that nearly all the followers of Mirza Ghulam Ahmed signed a memorandum and sent that to Ruler of Great Britain in early 1947 which stated that followers of Mirza Ghulam Ahmed were not of the same belief as followers of Muhammad Ali Jinnah, as such should be counted as separate community and Qadian (Gurdaspur) should be given to them like Vatican City. This effort resulted in changing of demarcation line of India and Pakistan, and Gurdaspur was given to India because subtracting the followers of Mirza Ghulam Ahmed from the Muslims and adding them to non-Muslims, Muslim majority of Gurdaspur became marginal and eased British Rulers hands to favour Jawahar Lal Nehru who was supported by wife of Viceroy, Lord Mount Batten. This clever action of followers of Mirza Ghulam Ahmed proved cancerous for Pakistan in the form of Jammu & Kashmir dispute.

Quaid-i-Azam was fully confident that state Jammu & Kashmir will even geographically be part of Pakistan because it would be surrounded by Pakistan territory. It was a shock to every Muslim of India when a few days after 14th August, 1947, Redcliff award (of partition) was announced and that showed Gurdaspur (a Muslim Majority area) in India. The result was that India entered her armed forces in to Jammu & Kashmir through Gurdaspur.

Having done all this, I fail to understand, why followers of Mirza Ghulam Ahmed came over to Pakistan and what their leaders Tahir and the next have been doing sitting in London, something like Altaf Hussain?

بن مانس یا آدمی ؟

اسماء نے تبصرہ میں یہ نقطہ اٹھایا ہے

But then becoming an aadmi is also not very easy!! We are homosapiens

جیسا کہ میں نے شروع ہی میں اشارہ دیا تھا میں تخلیق آدم اور پھر تخلیق کائنات کے متعلق اپنے خیالات کا اظہار کرنے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ بلکہ میں نے دس مئی کو اس کا آغاز کر دیا تھا۔ میرے خیال میں اس تقابل کا ابھی وقت نہیں آیا تھا مگر پانچ مئی کو اسماء کے مندرجہ بالا تبصرہ کی وجہ سے میں نے سوچا وقتی طور پر اس کے متعلق مختصر سا لکھ دیا جائے اور سب کو اس پر رائے دینے کا موقع فراہم کیا جائے۔

علم حیاتیات کے نظریات امتحان میں کامیابی حاصل کرنے کے لئے تو ٹھیک ہیں مگر بنائے ہوئے آدمی کے ہی ہیں۔ انسان غلطی بھی کر سکتا ہے اور یہ نظریات کل کلاں تبدل بھی ہو سکتے ہیں۔ اس لئے ان کو آفاقی حقیت تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔ اب ذرا غور کیجئے ہو مو سیپیئنز کے معنی پر

Homo sapiens is a Latin for “knowing man” : a bipedal primate belonging to the super family of Hominoidea, with all of the apes: chimpanzees, gorillas, orangutans, and gibbons

اگر وقتی طور پر اس نظریہ کو صحیح تصوّر کر بھی لیا جائے تو یہ سلسہ ڈارون کے نظریہ کے مطابق جاری رہنا چاہئے تھا اور پچھلے ایک ہزار سال میں لوگ کچھ بن مانسوں کو آدمیوں کی شکل اختیار کرتے ہوئے ضرور دیکھتے اور یہ انتہائی اہم خبر تحریر میں آ جاتی اور آج بطور عملی ثبوت موجود ہوتی مگر ایسا نہیں ہوا۔ اس لئے یہ نظریہ محض مفروضہ ہے اور از خود ہی غلط ثابت ہو جاتا ہے۔ ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آدمی اگر پہلے بن مانس تھا تو بن مانس پہلے کیا تھا ؟ یہ لمبی بات ہے چنانچہ پھر کبھی سہی۔ علامہ اقبال نے آدمی کی خصلت کو خوب بیان کیا ہے۔تسلیم کی خوگر ہے جو چیز ہے دنیا میں ۔۔۔۔۔ انسان کی ہر قوّت سرگرم تقاضہ ہے
اس ذرّے کو رہتی ہے وسعت کی ہوس ہر دم ۔۔۔۔۔ یہ ذرّہ نہیں ۔ شاید سمٹا ہوا صحرا ہے
چاہے تو بدل ڈالے ہیئت چمنستاں کی ۔۔۔۔۔ یہ ہستی دانا ہے ۔ بینا ہے ۔ توانا ہے

عجب بات یہ ہے کہ ہم اپنی موجودہ زندگی میں کسی چیز کے متعلق اس کے بنانے والے کی فراہم کردہ معلومات کو سب سے زیادہ معتبر سمجھتے ہیں اور ان کے مطابق عمل کرتے ہیں تو پھر آدمی کے سلسہ میں ہم آدمیوں کے خالق کی طرف رجوع کیوں نہیں کرتے ؟ یہ ایک اہم سوال ہے جس کا جواب میں آپ لوگوں بالخصوص اسماء سے چاہتا ہوں۔

اللہ سبحانہ و تعالی نے آدمی کی پیدائش کو واضح الفاظ میں قرآن الحکیم کے ذریعہ ہم تک پہنچا دیا ہوا ہے۔ اگر حوالے چاہیئں تو میں حاضر ہوں

کیا ہم زندہ ہیں۔۔۔۔۔؟ ؟ ؟

گذ شتہ جمعہ مسجد سے واپسی پر راستہ میں ایک خوش بوش نوجوان نے مجھے چار صفحوں کا ایک پرچہ تھما دیا جس کا عنوان تھا ” کیا ہم زندہ ہیں ۔ ۔ ؟ ” اس پرچہ کی 74 سطور میں سے چند یہاں نقل کر رہا ہوں۔نائن الیون کا بدلہ لینے کے بہانے بے شمار معصوم مسلمانوں کے خون سے ہولی کھلنے اور دو مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے باوجود جب امریکہ کا غصہ ٹھنڈ ا نہ ہوا تو دہشت گردی کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف محاذ کھولا گیا اور ہم نے اس میں تعاون کرتے ہوئے تن من دھن سبھی کچھ بیچ ڈالا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سینکڑوں جوانوں کو ہم نے چند ڈالروں کے عوض پنجروں میں بند کرنے کے لئے گوانتا ناموبے بھیج دیا اور اجازت دی کہ جاؤ امریکہ ان سے وہی سلوک کرو جو قریش مکہ نے بلال۔ یاسر یا عمّار بن یاسر ( رضی اللہ عنہم) سے کیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اکیسویں صدی کے شایان شان بننے کے لئے بے حیائی کو روشن خیالی کے نام پر ترویج دی۔ مذاکروں میں اسلام اور نظریہ پاکستان کی ہم نے دھجیاں بکھیریں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایمان اور اسلام کا لا متناہی سلسلہ ہائے بے حرمتی چلتے چلتے بات یہاں تک پہنچی کہ امریکہ نے قرآن پاک کے نسخے پھاڑنے۔ غشل خانوں کے فرش پر بچھا نے اور فلش میں بہانے کی جسارت کر لی۔ سوا ارب مسلمان ۔۔ ؟ خس و خاشاک کی مانند ۔۔ جھاگ کی مانند ۔۔ کیڑے مکوڑوں سے زیادہ حقیر اور بے وقعت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اپنی قوم سے بمشکل نیوز ویک چھپایا کہ کہیں انہیں

قرآن مجید کی بے حرمتی کی خبر نہ لگ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پرچہ کے آخر میں شعر ہیں۔
اٹھو کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں
اس چمن کو سبق آئین نو کا دے کر
قطرہء شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں
شمع کی طرح جئیں ہر جگہ عالم میں
خود جلیں۔ دیدہء اغیار کو بینا کر دیں