کل یعنی اکیس مئی کو ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان والوں اور دیگر این جی اوز والوں نے لاہور میں مخلوط واک کروائی جس میں نعرے لگائے گئے کہ عورتوں مردوں کی مخلوط دوڑوں کی اجازت دی جائے۔ کیا اسی وجہ سے امریکہ۔ یورپ اور جاپان ترقی کر گیا ہے ؟یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ملک میں جو اصلی جمہوریت نافذ کرنے کی کوشش ہو رہی ہے اس کا پہلا اصول ہے کہ اپنے عوام کی کوئی قدر و قیمت نہیں ہے جسے چاہو جان سے مار دو جسے چاہو قید کر دو یا پکڑ کے امریکہ کے حوالے کر دو اور جسے چاہو پولیس سے ڈنڈے مرواؤ۔ اس لئے پچھلی دفعہ اگر عاصمہ جہانگیر کو ڈنڈے پڑے تو کوئی نئی بات نہیں۔ پہلے بھی بہت لوگوں کو پڑ چکے ہیں۔
جو بات سمجھ میں نہیں آتی وہ یہ ہے کہ کیا مردوں عورتوں کی مخلوط دوڑ سے معاشرہ یا قوم ترقی کی راہ پر دوڑنے لگیں گے؟ آخر اس دوڑ کا بندوبست کرنے کے پیچھے کیا راز تھا؟ کیا مخلوط محفلوں اور ناچ گانے سے قوم ترقی کر جائے گی یا تعلیم یافتہ بن جائے گی؟ آخر ان ڈراموں کا سوائے اس کے کیا مقصد ہے کہ کچھ لوگ ذاتی سرفرازی یا اپنے نام کو میڈیا میں زندہ رکھنے کے لئے ایسی حرکتیں کرتے ہیں یا پھر ان غیر ملکی اداروں کی خوشنودی کے لئے ایسا کرتے ہیں جن کے فنڈ لاکھوں ڈالر انہوں نے ہڑپ کئے ہوتے ہیں۔
اگر ان ہیومن رائٹس کمشن آف پاکستان والوں اور دیگر این جی اوز والوں کو واقعی مظلوموں سے ہمدردی ہے تو جو فنڈز انہیں مختلف غیر ملکی اداروں سے ملتے ہیں ان کو فضول جلوسوں۔ فائیو سٹار ہوٹلوں میں پارٹیوں اور ناچ گانا کرنے کی بجائے۔ لڑکیوں اور خواتین کی تعلیم کے لئے دو چار سکول اچھے معیار اور کم فیس والے کیوں نہیں کھول دیتے؟ اگر مال خرچ نہیں کر سکتے تو جن سکولوں کالجوں میں اساتذہ کی کمی ہے ان میں سے ہر ایک وہاں باقاعدگی سے کوئی مضمون پڑھا دیا کرے۔
جن مولویوں کے خلاف یہ نام نہاد آزاد خیال لوگ ہر وقت زہر اگلتے رہتے ہیں ان میں یہ وصف تو ہے کہ کچھ مفت اور کچھ معمولی مشاہرہ کے عوض مدرسوں میں یتیم اور نادار بچوں کو کم از کم قرآن شریف اور اردو کی تعلیم دیتے ہیں اور کئی مدرسوں میں حساب۔ سائنس اور انگریزی کی تعلیم بھی دی جاتی ہے۔
علامہ اقبال نے شاید ان آزاد خیالوں کے متعلق ہی کہا تھا
ہاتھوں سے اپنے دامن دنیا نکل گیا ۔۔۔ رخصت ہوا دلوں سے معاد بھی
قانون وقف کے لۓ لڑتے تھے شیخ جی ۔ پوچھو تو۔وقف کے لۓ ہے جائیداد بھی