گذ شتہ جمعہ مسجد سے واپسی پر راستہ میں ایک خوش بوش نوجوان نے مجھے چار صفحوں کا ایک پرچہ تھما دیا جس کا عنوان تھا ” کیا ہم زندہ ہیں ۔ ۔ ؟ ” اس پرچہ کی 74 سطور میں سے چند یہاں نقل کر رہا ہوں۔نائن الیون کا بدلہ لینے کے بہانے بے شمار معصوم مسلمانوں کے خون سے ہولی کھلنے اور دو مسلم ممالک کی اینٹ سے اینٹ بجا دینے کے باوجود جب امریکہ کا غصہ ٹھنڈ ا نہ ہوا تو دہشت گردی کی آڑ میں اسلام اور مسلمانوں کے خلاف محاذ کھولا گیا اور ہم نے اس میں تعاون کرتے ہوئے تن من دھن سبھی کچھ بیچ ڈالا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سینکڑوں جوانوں کو ہم نے چند ڈالروں کے عوض پنجروں میں بند کرنے کے لئے گوانتا ناموبے بھیج دیا اور اجازت دی کہ جاؤ امریکہ ان سے وہی سلوک کرو جو قریش مکہ نے بلال۔ یاسر یا عمّار بن یاسر ( رضی اللہ عنہم) سے کیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اکیسویں صدی کے شایان شان بننے کے لئے بے حیائی کو روشن خیالی کے نام پر ترویج دی۔ مذاکروں میں اسلام اور نظریہ پاکستان کی ہم نے دھجیاں بکھیریں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایمان اور اسلام کا لا متناہی سلسلہ ہائے بے حرمتی چلتے چلتے بات یہاں تک پہنچی کہ امریکہ نے قرآن پاک کے نسخے پھاڑنے۔ غشل خانوں کے فرش پر بچھا نے اور فلش میں بہانے کی جسارت کر لی۔ سوا ارب مسلمان ۔۔ ؟ خس و خاشاک کی مانند ۔۔ جھاگ کی مانند ۔۔ کیڑے مکوڑوں سے زیادہ حقیر اور بے وقعت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ہم نے اپنی قوم سے بمشکل نیوز ویک چھپایا کہ کہیں انہیں
قرآن مجید کی بے حرمتی کی خبر نہ لگ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پرچہ کے آخر میں شعر ہیں۔
اٹھو کہ ظلمت ہوئی پیدا افق خاور پر
بزم میں شعلہ نوائی سے اجالا کر دیں
اس چمن کو سبق آئین نو کا دے کر
قطرہء شبنم بے مایہ کو دریا کر دیں
شمع کی طرح جئیں ہر جگہ عالم میں
خود جلیں۔ دیدہء اغیار کو بینا کر دیں