میرے والد (اللہ جنت عطا کرے) کا کوئی بھائی نہیں تھا۔ میں دو بہنوں کے بعد پیدا ہوا اور بڑی قدر و قیمت پائی لیکن میں ابھی ایک سال کا بھی نہیں ہوا تھا کہ بخار میں مبتلا ہوا۔ سب سے سینئر ڈاکٹر کا علاج مگر بخار اترتا نہ تھا اور میں اتنا کمزور ہو گیا کہ ہڈیوں پر صرف کھال ہی رہ گئی۔ پھر کہیں واضح ہوا کہ ٹانگ جہاں دھڑ سے ملتی ہے وہاں کوئی ابھار ہے جو کہ زہرباد (ایبسیس) کہلاتا ہے۔ جان بچانے کے لئے اس کی جراحی ضروری تھی سو کی گئی مگر جسم پر گوشت نہ ہونے کی وجہ سے زخم بھر نہیں رہا تھا چنانچہ ڈاکٹروں کی کانفرنس ہوئی۔ انہوں نے میرے لواحقین کو تو اللہ سے دعا کرنے کو کہا اور مجھے آپریشن تھیئٹر میں لے گئے۔ وہاں لوہے کی ایک سلاخ گرم کر کے زخم پر لگائی۔ سمجھ لیں کیا ہوا ہو گا۔ آپریشن کی جگہ جل گئی۔ بات وہی ہے کہ جسے اللہ رکھے اسے کون مار سکتا ہے۔ میں آج آپ کے سامنے اس کا ثبوت ہوں۔ البتہ جس جگہ گرم سلاخ لگی تھی وہاں گوشت نہیں بن سکا اور ایک کھڈا موجود ہے مگر اس کی وجہ سے مجھے کبھی کوئی تکلیف نہیں ہوئی۔
سب کچھ دیا ہے اللہ نے مجھ کو ۔۔۔ میری تو کوئی بھی چیز نہیں ہے
یہ تو کرم ہے فقط میرے اللہ کا ۔۔۔ مجھ میں ایسی کوئی بات نہیں ہے
سر منڈاتے ہی اولے پڑے”
یا
جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے
شعیب صفدر آپ نے بالکل ٹھیک کہا۔ عنوان “جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے” ہی ہونا چاہیئے تھا۔ دراصل معاملہ یوں ہے کہ میں فی البدیع لکھتا ہوں پہلے سے مضمون تیار نہیں کیا ہوتا۔ صرف یہ خیال رکھتا ہوں کہ میری تحویر موضوع (میں کیا ہوں) سے باہر نہ جائے۔ لکھتے لکھتے میرے ذہن نے کہا کہ یہ سب تو اللہ کی مہربانی سے ہوا۔ تو میں نے لکھ دیا “جسے اللہ رکھے اسے کون مارے”۔ یہ غلطی ضرور ہوئی کہ مجھے عنوان بدل دینا چاہیئے تھا۔