غزہ ۔ اسرائیل ۔ برطانیہ ۔ امریکہ اور یو این او

غزہ میں اسرائیل کی دہشتگردی کوئی نئی بات نہیں ہے ۔ برطانیہ نے روس اور قُرب و جوار سے نکالے گئے یہویوں سے اپنی جان چھُڑانے کے لئے یہ خطرناک ناسُور (اسرائیل) 1948ء میں مسلمانوں کے سینے میں گاڑھ دیا تھا جو برطانیہ ۔ امریکہ اور ان کے مغربی ساتھیوں کی بھرپُور امداد سے پھُلتا پھُولتا رہا

غزہ میں کُشت خون بھی 2 سال قبل شروع نہیں ہوا بلکہ 2 داہائیوں سے ہوتا چلا آ رہا ہے ۔ اِس کی ایک جھلک دیکھنے کیلئے مندرجہ ذیل ربط (لِنک) پر  کلِک کر کےدیکھیئے 31 دسمبر 2008ء کو شائع کردہ چند مناظر

https://theajmals.com/blog/2008/12/31

اور مندرجہ ذیل ربط (لِنک) پر  کلِک کر کے پڑھیئے امریکہ کے کردار کے بارے میں 4 جنوری 2009ء کو شائع کردہ مضمون

https://theajmals.com/blog/2009/01/04

اگر آپ اسرائیل کے بارے میں مکمل حقائق جاننا چاہتے ہیں تو مندرجہ ذیل ربط (لِنک) پر  کلِک کر کے پڑھیئے تحقیقی مقالہ (ریسرچ آرٹیکل) جس کا عنوان ہے بنی اسراءِیل اور ریاست اسرائیلhttps://theajmals.com/blog/%D8%A8%D9%86%DB%8C-%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A1%DB%8C%D9%84-%D8%A7%D9%88%D8%B1-%D8%B1%DB%8C%D8%A7%D8%B3%D8%AA-%D8%A7%D8%B3%D8%B1%D8%A7%D8%A6%DB%8C%D9%84

غزہ اور اسرائیل

امریکہ کی بھرپور مدد کے ساتھ ساتھ برطانیہ اور کچھ دوسرے ممالک کی امداد کی بُنیاد پر اسرائیل فلسطین کے کے محصور مسلمانوں پر جو ظُلم ڈھا رہا ہے ۔ اس کا مقصد کیا ہے ؟

(اسرائیل 1948ء سے اب تک امریکا سے 851 کھرب 72 ارب روپے کی امداد لے چکا ہے اور  سالانہ 10 کھرب 79 ارب روپےکی فوجی امداد 2028ء  تک جاری رہے گی)


میرے کئی دہائیوں کے مطالعہ کے بعد یکم نومبر 2005ء کو شائع کردہ تحقیقی مقالہ کا صرف ایک بند (پیراگراف)

ریاست اسرائیل کا پس منظر

آسٹروی یہودی تھیوڈور ہرستل یا تیفادار ہرستل جو بڈاپسٹ میں پیدا ہوا اور ویانا میں تعلیم پائی سیاسی صیہونیت کا بانی ہے ۔ اس کا اصلی نام بن یامین بتایا جاتا ہے ۔ اس نے ایک کتاب جرمن زبان میں لکھی ” ڈر جوڈن شٹاٹ” یعنی یہودی ریاست جس کا انگریزی ترجمہ اپریل 1896ء میں آیا ۔ اس ریاست کے قیام کے لئے ارجٹائن یا مشرق وسطہ کا علاقہ تجویز کیا گیا تھا ۔ برطانوی حکومت نے ارجٹائن میں یہودی ریاست قائم کرنے کی سخت مخالفت کی اور اسے فلسطین میں قائم کرنے پر زور دیا

لارڈ بیلفور نے 1905ء میں جب وہ برطانیہ کا وزیرِ اعظم تھا تو برطانیہ میں یہودیوں کا داخلہ روکنے کے لئے ایک قانون منظور کرایا اور اُس کے بعد برطانیہ نے مندرجہ ذیل ڈیکلیریشن منظور کی

“Government view with favour the establishment in Palestine of a national home for the Jewish people….”

(ترجمہ ۔ حکومتِ برطانیہ اِس کی حمائت کرتی ہے کہ فلسطین میں یہودیوں کا وطن بنایا جائے)

اس کے بعد صیہونی کانگرس کا باسل (سوٹزرلینڈ) میں اِجلاس ہوا جس میں فلسطین میں خالص صیہونی ریاست بنانے کی منظوری دی گئی اور ساتھ ہی بین الاقوامی صیہونی تنظیم بنائی گئی تاکہ وہ صیہونی ریاست کا قیام یقینی بنائے ۔ اس ریاست کا جو نقشہ بنایا گیا اس میں دریائے نیل سے لے کر دریائے فرات تک کا سارا علاقہ شامل دِکھایا گیا یعنی مصر کا دریائے نیل سے مشرق کا علاقہ بشمول پورٹ سعید ۔ سارا فلسطین ۔
سارا اردن ۔ سارا لبنان ۔ شام اور عراق کا دو تہائی علاقہ اور سعودی عرب کا ایک چوتھائی علاقہ ۔ ( دیکھیئے نقشہ)

ہم اور ہمارا وطن

عصرِ حاضر میں یہ روائت بن گئی ہے کہ شاید اپنے آپ کو اُونچا دکھانے کیلئے اپنے وطن پاکستان کو نِیچا دکھایا جائے

یہ فقرے عام سُننے میں آتے ہیں

”اس مُلک نے ہمیں کیا دیا ہے“۔

”کیا رکھا ہے اس مُلک میں“۔

”سب چور ہیں“۔

بہت افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ مُلک کے اندر ہی نہیں مُلک کے باہر بھی میرے کچھ ہموطن اپنے مُلک اور اپنے ہموطنوں کو بُرا کہتے ہیں ۔ صرف آپس میں نہیں بلکہ غیر مُلکیوں کے سامنے بھی ۔ ایسے لوگ اپنے آپ کو عقلمند ظاہر کرنا چاہتے ہیں لیکن دراصل وہ بیوقوف ہیں کیونکہ وہ نہیں جانتے کہ وہ خود اپنے آپ کو بدنام کر رہے ہیں

اس مُلک پاکستان نے ہمیں ایک شناخت بخشی ہے
اس سے مطالبات کرنے کی بجائے ہمیں یہ سوچنا چاہیئے کہ ہم نے اس مُلک کو کیا دیا ہے اور کیا دینا ہے
ہم نے ہی اس مُلک کو بنانا ہے اور ترقی دینا ہے جس کیلئے بہت محنت کی ضرورت ہے ۔ اسی میں ہماری بقاء ہے

یہ وطن پاکستان الله سُبحانُهُ و تعالٰی کا عطاء کردہ ایک بے مثال تحفہ بلکہ نعمت ہے
میرے وطن پاکستان کی سرزمین پر موجود ہیں
دنیا کی بلند ترین چوٹیاں ۔ ہر وقت برف پوش رہنے والے پہاڑ ۔ سرسبز پہاڑ اور چٹیّل پہاڑ ۔ سطح مرتفع ۔ سرسبز میدان اور صحرا
چشموں سے نکلنے والی چھوٹی ندیوں سے لے کر بڑے دریا اور سمندر بھی
ہر قسم کے لذیز پھل جن میں آم عمدگی اور لذت میں لاثانی ہے
بہترین سبزیاں اور اناج جس میں باسمتی چاول عمدگی اور معیار میں لاثانی ہے
میرے وطن پاکستان کی کپاس مصر کے بعد دنیا کی بہترین کپاس ہے
میرے وطن پاکستان میں بننے والا کپڑا دنیا کے بہترین معیار کا مقابلہ کرتا ہے
میرے وطن پاکستان کے بچے اور نوجوان دنیا میں اپنی تعلیمی قابلیت اور ذہانت کا سکّہ جما چکے ہیں
پاکستان کے انجنیئر اور ڈاکٹر اپنی قابلیت کا سکہ منوا چکے ہیں
سِوِل انجنیئرنگ میں جرمنی اور کینیڈا سب سے آگے تھے ۔ 1961ء میں پاکستان کے انجنیئروں نے پری سٹرَیسڈ پوسٹ ٹَینشنِنگ ری اِنفَورسڈ کنکرِیٹ بِیمز () کے استعمال سے مری روڈ کا نالہ لئی پر پُل بنا کر دنیا میں اپنی قابلیت ۔ ذہانت اور محنت کا سِکہ منوا لیا تھا ۔ اس پُل کو بنتا دیکھنے کیلئے جرمنی ۔ کینیڈا اور کچھ دوسرے ممالک کے ماہرین آئے اور تعریف کئے بغیر نہ رہ سکے ۔ یہ دنیا میں اس قسم کا پہلا تجربہ تھا ۔ یہ پُل خود اپنے معیار کا منہ بولتا ثبوت ہے ۔ پچھلے ساڑھے 63 سال میں اس پر ٹریفک زیادہ وزنی اور بہت زیادہ ہو چکی ہے لیکن اس پُل پر بنی سڑک میں کبھی ہلکی سی دراڑ نہیں آئی

آیئے آج یہ عہد کریں کہ
ہم اپنے اس وطن کو اپنی محنت سے ترقی دیں گے اور اس کی حفاظت کیلئے تَن مَن دھَن کی بازی لگا دیں گے
الله سُبحانُهُ و تعالٰی کا فرمان اَٹل ہے

سورت ۔ 53 ۔ النّجم ۔ آیت ۔ 39

وَأَن لَّيْسَ لِلْإِنسَانِ إِلَّا مَا سَعَی

اور یہ کہ ہر انسان کیلئے صرف وہی ہے جس کی کوشش خود اس نے کی

سورت ۔ 13 ۔ الرعد ۔ آیت ۔ 11

إِنَّ اللّہَ لاَ يُغَيِّرُ مَا بِقَوْمٍ حَتَّی يُغَيِّرُواْ مَا بِأَنْفُسِہِمْ

الله تعالٰی کسی قوم کی حالت نہیں بدلتا جب تک وہ خود اسے نہ بدلیں جو ان کے دلوں میں ہے

سُپر ہائی وے ؟

انسان کا قلب تو ایک ” سُپر ہائی وے“ کی مانند ہے

اس پر بادشاہی سواریاں بھی گزرتی ہیں،

امیر کبیر بھی چلتے ہیں،

غریب و فقیر بھی گزرتے ہیں،

خوبصورتوں اور بدشکلوں کی بھی یہی گزر گاہ ہےِ

نیکو کاروں، پارساؤں اور دین داروں کے علاوہ کافروں، مُشرکوں، مُجرموں اور گنہگاروں کے لئے بھی یہ شارع عام ہے
عافیت اسی میں ہے کہ اس شاہراہ پر جیسی بھی ٹریفک ہو، اس سے متوجہ ہو کر اسے بند کرنے یا اس کا رخ موڑنے کی کوشش کی گئی تو دل کی سڑک پر خود اپنا پہیہ جام ہونے کا خطرہ ہے

اس لئے راستے کا ٹریفک سگنل صرف سبز بتی پر ہی مشتمل ہوتا ہے، اس میں سرخ بتی کے لئے کوئی جگہ نہیں قدرت اللہ شہاب

دنیا اور آخرت ۔ دونوں ہی جنّت 

اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے دکھ بھلا دیں

اور اپنی چھوٹی چھوٹی خوشیاں یاد رکھیں

اگر ہم اپنے چھوٹے چھوٹے نقصان بھلا دیں

اور جو فائدے پائے ان سب کو یاد رکھیں

اگر ہم لوگوں میں عیب ڈھونڈنا چھوڑ دیں

اور ان میں خوبیاں تلاش کر کے یاد رکھیں

کتنی آرام دہ ۔ خوش کن اور اطمینان بخش

یہ دنیا بن جائے اس معمولی کوشش سے

اور الله کی مہربانی سے آخرت میں بھی جنّت مل جائے

میری یادیں 1947ء کی ۔ تيسری اور آخری قسط

پہلے واقع کے تین دن بعد يعنی 9 نومبر کو ایک ادھیڑ عمر اور ایک جوان خاتون اور ایک سترہ اٹھارہ سال کی لڑکی آئے ۔ جوان خاتون کی گردن میں پچھلی طرف ایک انچ چوڑا اور کافی گہرا زخم تھا جس میں پیپ پڑ چکی تھی ۔ یہ لوگ جموں میں ہمارے محلہ دار تھے ۔ لڑکی میرے ہم جماعت لڑکے ممتاز کی بڑی بہن تھی جوان خاتون اُس کی بھابھی اور بڑی خاتون اُس کی والدہ تھیں ۔ اُن کا پورا خاندان 6 نومبر والے قافلہ میں تھا ۔ انہوں نے دیکھا کہ جوان لڑکیوں کو اُٹھا کر لے جا رہے ہیں ۔ وہ بس سے نکل بھاگے ۔ ممتاز کی بھابھی اور دونوں بہنوں نے اغواء سے بچنے کے لئے نہر میں چھلانگیں لگائیں ۔ چھلانگ لگاتے ہوئے ایک کافر نے نیزے سے وار کیا جو بھابھی کی گردن میں لگا ۔ خون کا فوارہ پھوٹا اور وہ گر کر بیہوش ہوگئی ۔ پھر گولیاں چلنی شروع ہو گئیں ۔ ممتاز کی والدہ گولیوں سے بچنے کے لئے زمین پر لیٹ گئی اس کے اُوپر چار پانچ لاشیں گریں اُس کی ہڈیاں چٹخ رہی تھیں مگر وہ اُسی طرح پڑی رہی ۔ اُس نے دیکھا کہ ایک بلوائی نے ایک شیرخوار بچے کو ماں سے چھین کر ہوا میں اُچھالا اور نیزے سے ہلاک کر دیا ۔

شور شرابا ختم ہونے پر اُس خاتون کو خیال ہوا کہ بلوائی چلے گئے ۔ بڑی مشکل سے اُس نے اپنے آپ کو لاشوں کے نیچے سے نکالا اور اپنے پیاروں کو ڈھونڈنے لگی ۔ لاشوں پر اور اپنی بے چارگی پر آنسو بہاتی رہی ۔ اچانک بہو اور بیٹیوں کا خیال آیا اور دیوانہ وار نہر کی طرف بھاگی ۔ بہو نہر کے کنارے پڑی ملی اس کے منہ میں پانی ڈالا تو اس نے آنکھیں کھولیں ۔ تھوڑی دیر بعد بڑی بیٹی آ کر چیختی چلّاتی ماں اور بھابھی کے ساتھ لپٹ گئی ۔ اُس نے بتایا کہ چھوٹی بہن ڈوب گئی ۔ وہ نہر کی تہہ میں تیرتی ہوئی دور نکل گئی تھی اور واپس سب کو ڈھونڈنے آئی تھی ۔

ماں بیٹی نے زخمی خاتون کو سہارا دے کر کھڑا کیا اور اس کے بازو اپنی گردنوں کے گرد رکھ کر چل پڑے ۔ ایک نامعلوم منزل کی طرف ۔ رات ہو گئی تو جنگلی جانوروں سے بے نیاز وہیں پڑ رہیں ۔ صبح ہوئی تو پھر چل پڑیں ۔ چند گھنٹے بعد دور ایک کچا مکان نظر آیا ۔ بہو اور بیٹی کو جھاڑیوں میں چھپا کر بڑی خاتون مکان تک گئی ۔ کھانے کو کچھ نہ لائی ۔ جیب خالی تھی اور مانگنے کی جرأت نہ ہوئی ۔ جموں چھاؤنی کا راستہ پوچھا تو پتا چلا کہ ابھی تک سارا سفر غلط سمت میں طے کیا تھا ۔ چاروناچار اُلٹے پاؤں سفر شروع کیا ۔ بھوک پیاس نے ستایا تو جھاڑیوں کے سبز پتے توڑ کے کھا لئے اور ایک گڑھے میں بارش کا پانی جمع تھا جس میں کیڑے پڑ چکے تھے وہ پی لیا ۔ چلتے چلتے پاؤں سوج گئے ۔ مزید ایک دن کی مسافت کے بعد وہاں پہنچے جہاں سے وہ چلی تھیں ۔ حد نظر تک لاشیں بکھری پڑی تھیں اور ان سے بدبو پھیل رہی تھی ۔ نہر سے پانی پیا تو کچھ افاقہ ہوا اور آگے چل پڑے ۔ قریب ہی ایک ٹرانسفارمر کو اُٹھائے ہوئے چار کھمبے تھے ۔ ان سے ایک عورت کی برہنہ لاش کو اس طرح باندھا گیا تھا کہ ایک بازو ایک کھمبے سے دوسرا بازو دوسرے کھمبے سے ایک ٹانگ تیسرے کھمبے سے اور دوسری ٹانگ چوتھے کھمبے سے ۔ اس کی گردن سے ایک کاغذ لٹکایا ہوا تھا جس پر لکھا تھا یہ ہوائی جہاز پاکستان جا رہا ہے ۔

چار ہفتوں میں جو 6 نومبر 1947 کی شام کو ختم ہوئے بھارتی فوج ۔ راشٹریہ سیوک سنگ ۔ ہندو مہا سبھا اور اکالی دل کے مسلحہ لوگوں نے صوبہ جموں میں ایک لاکھ تیس ہزار کے قریب مسلمانوں کو قتل کیا جن میں مرد عورتیں جوان بوڑھے اور بچے سب شامل تھے ۔ سینکڑوں جوان لڑکیاں اغواء کر لی گئیں اور لاکھ سے زیادہ مسلمانوں کو پاکستان کی طرف دھکیل دیا ۔ تیس ہزار سے زائد مسلمان صرف نومبر کے پہلے چھ دنوں میں ہلاک کئے گئے ۔