بڑوں کا احترام اُس وقت کیجئے جب آپ جوان ہوں
کمزوروں کی اُس وقت مدد کیجئے جب آپ توانا ہوں
جب آپ غلطی پر ہوں تو اپنی غلطی مان لیجئے
کیونکہ ایک وقت آئے گا
جب آپ بوڑھے اور کمزور ہوں گے اور یہ احساس بھی پیدا ہو گا کہ آپ غلطی پر تھے
لیکن
اُس وقت آپ صرف پچھتا ہی سکیں گے
خوبصورت نصیحت ۔۔۔ جزاک اللہ : )
میں کاپی کر رہی ہوں یہ بس
محترم
سلام مسنون
بقیہ سب باتیں جو لکھی ہیں صحیح ہیں. پر یہ کہ…
“بڑوں کا احترام اس وقت کیجئے جب آپ جوان ہوں”.
مزکورہ قولِ زرین کیا آپ کا اپنا ہے. یہ عجیب بات ہوئی. یہ جو کم عمری و بچپن سے بتایا سمجھایا جاتا ہے کہ اپنوں سے بڑوں کا ادب و احترام کیا جانا چاہیئے وغیرہ وغیرہ تو پھر یہ سبق و تلقین کیا ہے. یعنی جوان ہونے تک جو جی چاہے کرے. یقیناً یہ آپ کی منشا نہیں ہو سکتی پر لکھا آپ نے تو یہی ہے. یا پھر Typographical error ہے.
ذکریٰ خان
محترمہ ذکرٰی خان صاحبہ ۔ السلام علیکم
بی بی جی ۔ بچے تو بڑوں کا احترام کرتے ہی ہیں ۔ دماغ تب خراب ہوتا ہے جب جوانی سر پہ چڑھ جاتی ہے ۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ پر جوانی کا رنگ نہیں چڑھا میری طرح
سیما آفتاب صاحبہ ۔ السلام علیکم
میری تحاریر بے شک سب نقل کر لیجئے ۔ البتہ میری نقل نہ کیجئے گا ۔ مجھ میں بہت سی بُری عادات ہیں
محترمی واہ
کیا بات کہی ہے آپ نے بچے تو بڑوں کا احترام کرتے ہی ہیں دماغ تب خراب ہوتا ہے جب جوانی سر چڑھ جاتی ہے.
اچھا آپ بھی گِلٹی فِیل کرتے ہیں , ازراہ مزاح کہہ رہے ہیں ہونگے.
ذکریٰ خان
محترم
سلام مسنون
اصل بات کہنے والی تو رہ گئی وہ یہ کہ آدمی کو ہر وقت اپنا جائزہ لیتے رہنا چاہیئے ہم سے کب کہاں کیا کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں اور اگر وہ کسی سے سلوک کے ذمن میں ہوئی ہیں تو جن کی حق تلفی ہوئی ہو ان سے معافی تلافی کرلی جائے تو آدمی بڑھاپے کے پچھتاوے افسوس و شرمندگی سے بچ جاتا ہے.
ایک اچھی تزکیر آپ نے پیش فرمائی ہے جزاک اللہ.
ذکریٰ خان
محترمہ ذکریٰ خان صاحبہ ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ
بی بی جی ۔ اب تک تو میں سنجیدہ ہی تھا اور بے تکلّفی نہ ہو تو میں سنجیدہ ہی رہتا ہوں خواہ دوسرے قہقہے لگا رہے ہوں ۔ لیکن آپ نے دو لفظ ایسے لکھ دیئے ہیں جنہوں نے میری شرارتی حس کو جگا دیا ہے ۔ تین چار دہائیاں پرانی بات ہے پی ٹی وی پر سنجیدہ اصلاحی ڈراموں کے ساتھ ساتھ چھوٹے چھوٹے ڈرامے ناظرین کو ہنسانے کیلئے بھی دکھائے جاتے تھے ۔ ایک ڈرامہ سیریز تھی جس میں ایک مشہور مزاحیہ اداکار کہا کرتا تھا ” گِلٹی فِیل ؟ یُو نَو گِلٹی فِیل“۔ اُس کا انداز ایسا ہوتا تھا کہ خواہ مخوا ہنسی آ جا تھی
سو میرا جواب ہے ” آئی نَو گِلٹی فِیل ۔ آئی نَو گِلٹی“۔ ”بَٹ آئی نَو ناٹ ۔ یُو گِلٹی“۔
محترمہ ذکریٰ خان صاحبہ ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ
واہ جی واہ ۔ زبردست ۔ آپ میری اسی طرح راہنمائی کرتی رہیں تو شاید اچھی باتیں سیکھ کر کچھ مہذب بن جاؤں گا ورنہ میرا حال تو دیکھ ہی رہی ہیں کہ آپ سلام مسنون لکھتی ہیں اور میں خُشک سا ”السلام علیکم“ لکھ دیتا ہوں
میں ایک عرصہ سے نوٹ کر رہا ہوں ایک افریقن [صومالی]بچہ صبح کی نماز میں اپنی دادی کے ساتھ آتا ہے کار کا دروازہ وہی کہولتا ہی اس کی دادی چلاتی ہیں مین خوش ہوتا ہوں کیوںکہ امریکہ میں یہ نہیں ہے یہاں بچے بڑوں کی عزت کرنا نہیں جانتے ہم دیسی ماں باپ کو باقاعدہ بچوں کو سکھانا پڑتا ہے
Janab e Mohtram
Salam e Masnoon
I’M ONLY
Bothered
for what
i say
not for
WHAT YOU
UNDERSTAND
Guilty Free
😊
Zikra khan
بھائی وھاج الدین احمد صاحب ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ
آپ نے درست فرمایا ہے ۔ جب باہر بارش ہو رہی ہو تو بچوں کو خُشک رکھنا بہت مشکل کام ہے ۔ جو کرتا ہے وہ میری سمجھ کے مطابق ثواب کا حقدار ہے ۔ یہ طور طریقہ ایشیائی ہے ۔ روس کا تو علم نہین باقی چین جاپان انڈونیشیا فلپین تک بلاتمیز مذہب یہی شعار ہے
محترمہ ذکرٰی خان صاحبہ ۔ السلام علیکم
گستاخی معاف ۔ یہ فقرہ جو آپ نے بزبانِ انگریزی لکھا ہے ۔ اگر میں آپ سے پہلے لکھ دیتا تو ؟
محترمہ ۔ ہر آدمی کو بات کرنے سے پہلے سوچنا چاہیئے کہ اگر یہ بات کوئی دوسرا مجھے کہے تو میرا ردِ عمل کیا ہو گا ۔
۔” گِلٹی فِیل“ کے الفاظ پہلے آپ نے استعمال کئے تھے ۔ میں نے تو مزاحیہ ڈرامے کے الفاظ نقل کئے ۔ آپ کے متعلق تو میں نے صرف یہ لکھا تھا کہ میں نہیں جانتا کہ آپ گِلٹی ہیں ۔
محترمی
سلام مسنون
بات دراصل یہ ہے کہ جسطرح آپ کو شرارت سوجھی تھی یا جاگی تھی اُسی طرح مجھے بھی سُوجھی کہ گِلٹی فِیل کا ذکر بھی میں نے کیا اور اپنی بات سے مُکر گئی.
ادب کو ملحوظ رکھتے ہوئے حساب برابر.
……..
آپ سے ایک سوال ہے وہ یہ ک آپ غالبً اپنے Status میں یا کہیں اور لکھتے ہیں کہ آپ کی منشاء بلاگ میں لکھنے کی محض یہ ہے کہ بندگانِ خدا تک اُن کے کام کی یا کوئی بھی نیک بات پینچائیں تاکہ آپ کے توشہ آخرت کا سامان بنے. یہ تو تھی آپ کی نیت و منشاء اور امید ہے آپ کو نیک نیتی کا اجر و ثواب ملے گا. یہ تو تھی آپ کی بات, رہے سامعین یا کمنٹس دینے لینے والے اور اسی میں مجھ جیسے اپنا قیمتی وقت کھپانے والوں کی سعیی و جہد کس کھاتے میں شمار ہوگی, آیا ٹائم پاس یا فروعی کھاتے میں. آیا ہم جیسے لوگوں کو بھی اجر و ثواب کی امید رکھنی چاہیئے. یا یہی وقت تلاوت ذکر و تسبیح یا دوسرے اور نیکی کے کاموں میں صرف کرنا زیادہ مناسب ہے. اردو فیڈز میں اللہ کے نزدیک ہماری کیا پوزیشن شمار ہوگی. اگر تھوڑی بہت نیکی بھی ملنے کی امید ہے تو رمضان کے اس با برکت مہینے میں افضل عبادت کیا ہے یہ آپ سے پتہ کرنا تھا. ورنہ اس بے مقصدیت کو ہم Wind up کریں.
چونکہ معاملہ آپ کے ساتھ ہے لہٰزا تشفی بخش جواب آپ ہی کو دینا ہوگا.
وسلام
ذکریٰ خان
محترمہ ذکرٰی خان صاحبہ ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ
میں نے اپنی تحاریر کا سبب بلاگ کے عنوان کے نیچے لکھا ہوا ہے جو یہ ہے ” ميرا مقصد انسانی فرائض کے بارے میں اپنے علم اور تجربہ کو نئی نسل تک پہنچانا ہے“۔ وہیں میں نے قارئین سے ایک درخواست بھی کی ہوئی ہے
میری سانس کا کیا بھروسہ کہاں ساتھ چھوڑ جائے
مُجھ سے وابستہ لوگو ۔ مجھے معاف کر کے سونا
میری تحاریر اپنے تجربات دوسروں تک پہنچانے کیلئے ہیں تاکہ جو بات میں نے عمر کا بیشتر حصہ لگا کر سمجھی قارئین اُس وقت کی بچت کر کے بچا ہوا وقت کسی دوسری بہتری میں لگا سکیں ۔ میں نے کہیں نہیں لکھا کہ میری تحاریر پڑھنا کارِ ثواب ہے یا آخرت کیلئے توشہ ہے ۔ ھدایت صرف قرآن شریف اور حدیث سے لی جا سکتی ہے ۔ کوئی آدمی زندگی میں صرف تسبیح نہیں کرتا ۔ اس دنیا میں اللہ کے فرمان کے مطابق درست طریقہ سے رہنا اور درست طریقہ سے رہنے کا طریقہ سیکھنا کارِ ثواب ہے ۔ ہر آدمی کی اپنا انتخاب ہے کہ وہ کہاں سے اور کیسے سیکھتا ہے ۔ اگر کسی بھی کام کو اللہ کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے کیا جائے تو وہ کارِ ثواب ہے ۔ اگر کوئی نماز اسلئے پڑھتا ہے کہ لوگ اسے نیک سمجھے تو نماز کارِ ثواب نہیں رہتی
محترمہ ذکرٰی خان صاحبہ ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ
میں نے اپنی تحاریر کا سبب بلاگ کے عنوان کے نیچے لکھا ہوا ہے جو یہ ہے ” ميرا مقصد انسانی فرائض کے بارے میں اپنے علم اور تجربہ کو نئی نسل تک پہنچانا ہے“۔ وہیں میں نے قارئین سے ایک درخواست بھی کی ہوئی ہے
میری سانس کا کیا بھروسہ کہاں ساتھ چھوڑ جائے
مُجھ سے وابستہ لوگو ۔ مجھے معاف کر کے سونا
میری تحاریر اپنے تجربات دوسروں تک پہنچانے کیلئے ہیں تاکہ جو بات میں نے عمر کا بیشتر حصہ لگا کر سمجھی قارئین اُس وقت کی بچت کر کے بچا ہوا وقت کسی دوسری بہتری میں لگا سکیں ۔ میں نے کہیں نہیں لکھا کہ میری تحاریر پڑھنا کارِ ثواب ہے یا آخرت کیلئے توشہ ہے ۔ ھدایت صرف قرآن شریف اور حدیث سے لی جا سکتی ہے ۔ کوئی آدمی زندگی میں صرف تسبیح نہیں کرتا ۔ اس دنیا میں اللہ کے فرمان کے مطابق درست طریقہ سے رہنا اور درست طریقہ سے رہنے کا طریقہ سیکھنا کارِ ثواب ہے ۔ ہر آدمی کا اپنا انتخاب ہے کہ وہ کہاں سے اور کیسے سیکھتا ہے ۔ اگر کسی بھی کام کو اللہ کی مقرر کردہ حدود میں رہتے ہوئے کیا جائے تو وہ کارِ ثواب ہے ۔ اگر کوئی نماز اسلئے پڑھتا ہے کہ لوگ اسے نیک سمجھے تو نماز کارِ ثواب نہیں رہتی
جو تحریر تبادلہ خیال کا سبب بنی ہے. اس میں اللہ کے تین فرمان میں نے اپنے الفاظ میں لکھے ہیں. میری یہی کوشش ہوتی ہے کہ جہاں تک ہو سکے اللہ یا رسول اللہ کا فرمان لکھوں اور محسوس بھی نہ کراؤں
محترمی
سلام مسنون
جی مجھے آپ کی تحریر سے جواب مل گیا کہ…
اس دنیا میں اللہ کے فرمان کے مطابق درست طریقہ سے رہنے کا طریقہ سیکھنا کارِ ثواب ہے. اور کسی بھی کام کو مقرر کردہ حدود میں رہ کر کیا جائے تو کار ثواب ہے.
آپ نے “توشہ” والی بات کو ایک دوسری بات سے گُڈ مُڈ کردیا. یہ بات تو مینے بھی نہیں لکھی کہ آپ کی تحاریر پڑھنا کار ثواب ہے.
بلکہ ہونا یہی چاہیئے کہ اپنے کسی بھی بھلائی کے کام کو کسی نہ کسی حیثیت میں ہی صحیح اُسے کارِ ثواب سمجھا و جانا جائے. کیونکہ..
اس دنیا میں انسانی زندگی دو حیثیتوں سے خالی نہ ہوگی. یا تو وہ اللہ اور اس کے نبی کی اطاعت و فرمابرداری پر مبنی ہوگی یا انکار اور بغاوت پر مبنی ہوگی. اور قیامت کے دن انسان کی پوری زندگی کا حساب کتاب انہی دو بنیادوں پر ہوگا. کہ اس کی زندگی اطاعت و فرمابرداری کی بنیاد پر کتنی گزری اور انکار و بغاوت کی بنیاد پر کہاں کہاں گزری.
جب آپ یہ کہتے ہیں “میرا مقصد انسانی فرائض کے بارے میں اپنے علم اور تجربے کو نئی نسل تک پہنچانا ہے تو ظاہر بات ہے وہ اپنی جگہ نیک کام ہی ہوا کوئی useless تو ہوگا نہیں. پھر قارئین سے آپ نے درخواست بھی کی ہوئی ہے “کہ میری سانس کا کیا بھروسہ مجھے معاف کرکے اور نیک کلمات ادا کرکے سونا ہی اس بات کی دلیل ہے کہ آپ کی تحاریر آپ کے لیئے توشہ آخرت ثابت ہوئی چاہے توشہ والی بات آپ نے کہیں لکھی ہو یا نہ لکھی ہو.
جزاک اللہ
ذکریٰ خان
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبر کاتہ
جی میں نے تحریر ہی کی بات کی تھی ۔۔۔ عادات اپنی سنبھال لوں وہی کافی ہے میرے لیے
سیما آفتاب صاحبہ. السلام علیکم و رحمۃ اللہ و برکاتہ
الله کی بڑی مہربانی ہے مجھ پر کہ آپ کی شکل میں ایک ایسی خاتون ملی ہیں جو میری الٹی سیدھی سب باتیں سمجھتیں ہیں. اللَّهِ خوش رکھے
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
جزاک اللہ : )