اُن دنوں ميں پرنسِپل ٹيکنيکل ٹريننگ انسٹيٹيوٹ تھا ۔ چند رحمدل حضرات ميرے پاس تشريف لائے اور فرمائش کی کہ معاشرہ کی صورتِ حال کے پيشِ نظر ميں تعليم يافتہ خواتين و حضرات کی مجلس ميں میاں اور بیوی کے رشتہ بارے تقرير کروں ۔ مجلس ميں نہ صرف جوان يا ميرے ہم عمر بلکہ مجھ سے کافی بڑی عمر کے خواتين و حضرات شامل تھے ۔ ميری 5 مارچ 1984 کی تقرير کا متن مندرجہ ذيل ہے
گراں قدر خواتين و حضرات ۔ السلام عليکم
خالقِ حقيقی نے اس کائنات کی تخليق کے بعد حضرتِ انسان کو پيدا کيا اور چرِند پرِند کو بھی ۔ اور سب کے جوڑے بنائے ۔ تا کہ انسان کو اس مُختصر زندگی ميں جس امتحان سے گذرنا ہے اس کی زندگی آسائش کے ساتھ بسر ہو ۔ رشتۂِ اِزدواج کو اگر موضوع بنايا جائے تو انسان ايک نہ ختم ہونے والی بحث ميں مُبتلا ہو سکتا ہے ۔ ليکن اس کو اگر صرف مياں بيوی کے تعلقات ميں محدود کر کے غور کيا جائے اور بيرونی اثرات يعنی عزيز و اقارب کے ساتھ تعلقات اور دوسری حاجات کو شامل نہ بھی کيا جائے تو ايک ايسا پہلو نکلتا ہے جس پر عام طور پر توجہ نہيں دی جاتی جس کے نتیجہ میں میاں بیوی کے مابین ناچاقی جنم لیتی ہے ۔ وہ ہے نفسياتی پہلو جو کہ مياں بيوی کے باہمی تعلقات کی جڑوں سے براہِ راست مُنسلِک ہے
عقدالنِّکاح ۔ جِسے عام طور پر شادی يا بياہ کہا جاتا ہے ۔ ايک پاکيزہ اور نہائت اہم رشتہ ہے جو غالباً نام کی تبديلی اور ہِندوانا رسم و رواج ميں گُم ہو کر رہ گيا ہے ۔ خاوند بيوی کا رشتہ دراصل باہمی اعتماد کا رشتہ ہے ۔ يہ ايک ايسا راستہ ہے جس پر دو جی مِل کر ايک نئی زندگی کا آغاز کرتے ہيں اور درحقيقت ساتھ ساتھ چلنے کا اقرار کرتے ہيں ۔ ايک گاڑی کے دو پہيّوں کی طرح ۔ ايک پہيّہ کمزور یا ناقص ہو جائے تو دوسرا گاڑی کو آگے نہيں بڑھا سکتا ۔ عقدالنّکاح خلوص اور پيار کا ايک وعدہ ہے جو مياں بيوی کو ساتھ ساتھ چلنے کيلئے ايک دِل ايک جان بنا ديتا ہے
نئی نويلی دُلہن جب اپنے خاوند کے گھر آتی ہے تازہ دودھ کی مانند ہے ۔ جس طرح خالص دودھ پر جراثيم حملہ کرتے ہيں نئی نويلی دُلہن پر وسوسے اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے ہيں ۔ دودھ کو آگ پر رکھا جائے تو دودھ کھولنے لگتا ہے اور حرارت زيادہ ملنے پر اُبل کر برتن سے باہر آگ پر گِر کر جلنے لگتا ہے ۔ خاوند کی عدم توجہی سے عورت بالخصوص نئی دُلہن عام طور پر شک و وہم ميں پڑ کر وسوسوں کا شکار ہو جاتی ہے ۔ وسوسے ايک ايسی خطرناک آگ ہے جو نظر نہيں آتی ليکن اس کی آنچ دل ميں اُبال پيدا کرتی ہے اور وہ اندر ہی اندر سے انسان کو جلا کر بھسم کر ديتی ہے ۔ خاوند کی عدم توجہی بعض اوقات غیر ارادی بھی ہوتی ہے ۔ کچھ عورتیں اردگرد کے ماحول کے سبب شک اور وہم سے گريز نہيں کر سکتی اور وہ وسوسوں کی آگ ميں جلتی رہتی ہیں ۔ ابتداء چاہے خاوند سے ہو یا بیوی سے يہ آگ پورے گھرانے کو اپنی لپيٹ ميں لے ليتی ہے
يہ صورتِ حال صرف عورت ہی پيدا نہيں کرتی بلکہ بہت سے مرد بھی اس کا شکار ہوتے ہيں ۔ محبت بھرے افسانے تو بہت سُننے اور پڑھنے ميں آتے ہيں مگر گرہستی چلانے کيلئے عقل ۔ تحمل اور بُردباری کی ضرورت ہوتی ہے ۔ حقيقی دنيا ميں افسانوی کرداروں کيلئے کوئی جگہ نہيں ۔ اللہ نے عورت کو جذبات کا پتلا بنایا ہے لیکن مرد کو اس پر حَکم اسلئے دیا ہے کہ مرد کا کام جذبات میں بہنے کی بجائے تحمل اور بُردباری سے چلنا ہے
عورت بيوی بننے سے پہلے کسی کی بيٹی ہوتی ہے ۔ اُس کا خاوند کا گھر بسانا ايک فطری عمل ہے ۔ يہ سلسلہ ازل سے چلتا آ رہا ہے ۔ شوہر کا گھر ہی عورت کا گھر کہلاتا ہے ۔ ليکن پھر بھی عورت جب ماں باپ کا گھر چھوڑ کر شوہر کے گھر پہنچتی ہے تو اُس کے دل ميں نفسياتی اور جذباتی خلاء پيدا ہوتا ہے ۔ يہ خلاء صرف اُس سے خاوند کی محبت اور مناسب توجہ سے پُر ہو سکتا ہے ۔ چنانچہ خاوند کيلئے يہ موزوں نہيں کہ بيوی کو غلام سمجھے بلکہ خاوند کو چاہيئے کہ بيوی کی عزت کو اپنی عزت سمجھے اور اسکی ضروريات اور خواہشات کا حتی المقدُور خيال رکھے ۔ بالکل اسی طرح بيوی کو بھی چاہيئے کہ اپنی خواہشات کو خاوند کے وسائل تک محدود رکھے اور خاوند کی عزت کو اپنی عزت سمجھے ۔ خاوند کے والدین اور بہن بھائیوں کا اسی طرح احترام کرے جیسے خاوند کرتا ہو اور دونوں میں سے کوئی حد سے تجاوز نہ کرے
ديکھا گيا ہے کہ کچھ مرد سارا سارا دن دوستوں کے ساتھ گھومتے اور قہقہے لگاتے رہتے ہيں ۔ کسی نے چوکڑی جما کر تاش کھيلتے آدھی رات گذار دی تو کوئی کلب ميں بيٹھ کر نان کباب تکّے اُڑاتا رہا ۔ اُن کو ذرّہ برابر خيال نہيں آتا کہ اپنے لاڈ اور پيار کرنے والے والدين کو چھوڑ کر آئی ہوئی کوئی خاتون اپنی محبتيں نچھاور کرنے کيلئے اُس کی انتظار ميں دروازے پہ نظريں لگائے بيٹھی ہے اور اُس نے کچھ کھايا پيا بھی ہے يا نہيں ۔ گھر پہنچے بيوی جلدی سے کھانا گرم کر کے لائی تو مياں صاحب ۔ ميں تھک گيا ہوں ۔ کہہ کر بستر پر دراز ہو گئے ۔ بيوی نے کہا کھانا تو کھا ليجئے ۔ جواب ملا ميں نے کھاليا تھا اور وہ بيچاری اپنے سينے پر بوجھ لئے بھوکی سو گئی ۔ اور کچھ ایسے بھی ہیں جو گھر میں ہوتے ہوئے بھی بھول جاتے ہیں کہ ان کی بیوی بھی ہے ۔ بے شک والدین اور بہن بھائیوں کی ضروریات کا خیال رکھنا بھی فرض ہے لیکن ایک بات جو عام طور پر بھلا دی جاتی ہے یہ ہے کہ والدین اور بہن بھائیوں کا رشتہ ٹوٹ نہیں سکتا لیکن بیوی کا رشتہ کانچ سے زیادہ نازک ہوتا ہے
کئی گھرانوں ميں ديکھا گيا ہے کہ مرد دن بھر کا تھکا ہارا گھر لوٹا اور ابھی سانس بھی نہ لينے پايا کہ سوالات کی بوچھاڑ شروع ہو گئی ۔ اتنی دير کيوں لگا دی ؟ کہاں چلے گئے تھے ؟ کس کے پاس چلے گئے تھے ؟ يہ تو ہوئے بڑے گھرانوں کے سوال ليکن يہ مُصيبت چھوٹے گھرانوں ميں بھی موجود ہے صرف سوال بدل جاتے ہيں ۔ گھر ميں آٹا نہيں ہے ۔ دال نہيں ہے ۔ بچے کو بُخار ہے ۔ وغيرہ وغيرہ
ذرا سوچئے تو اگر بيوی اسی طرح روزانہ بندوق کی گوليوں کی طرح برستی رہے تو اس کا نتيجہ کيا ہو گا ؟ گھر گھر نہيں رہے گا ۔ جہنم بن جائے گا ۔ اس روزانہ کی يلغار سے مرد تنگ آ کر سکون کی تلاش ميں گھر سے باہر رہنے لگے گا جہاں وہ کئی قباحتوں کا شکار ہو سکتا ہے ۔ ليکن اس حقيقت کو جھٹلايا نہيں جا سکتا کہ مرد اپنا گھر اپنی بيوی کو چھوڑ کر کبھی سُکھی نہيں رہ سکتا ۔ دس جگہ دھکے کھا کر پھر وفادار جانور کی طرح گھر آ جائے گا ۔ اگر پھر بھی بيوی بلاجواز وسوسوں ميں پڑی رہے اور معاملہ فہمی نہ کرے تو ايک دن خاوند ايسا جائے گا کہ لوٹ کے واپس نہيں آئے گا ۔ اُس وقت اپنا سر پيٹنا اور بال نوچنا بيکار ہو گا
مياں بيوی ميں اگر کھچاؤ ہو تو اس کا اثر نہ صرف ان کے باہمی تعلقات پر پڑتا ہے بلکہ ان کی جسمانی اور دماغی صحت بھی متاءثر ہوتی ہے ۔ والدين ميں تناؤ بچوں کے ذہنوں پر بھی بُرا اثر ڈالتا ہے ۔ بسا اوقات والدين کی چپقلش اولاد کے اذہان کو اتنا مجروح کر ديتی ہے کہ وہ اطمينان کھو بيٹھتے ہيں اور اپنی قدرتی صلاحيّتوں سے پورا فائدہ اُٹھانے سے قاصر رہتے ہيں ۔ والدين کی پند و نصائح اُنہيں کھوکھلی محسوس ہونے لگتی ہيں ۔ چنانچہ مياں بيوی کو نہ صرف اپنی خاطر بلکہ اولاد کی خاطر بھی رواداری اور سوجھ بوجھ کی زندگی اختيار کرنا چاہيئے
کيوں نہ اپنے آپ کا استحصاب شروع ہی سے کيا جائے اور مياں بيوی ايک دوسرے کو مُوردِ الزام ٹھہرانے کی بجائے اپنی اپنی اصلاح کريں ۔ اپنے اندر برداشت اور رواداری پيدا کريں ۔ صبر اور بُردباری سے کام ليں ۔ ايک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش کريں ۔ ايک دوسرے کے احساسات و جذبات کی قدر کريں ۔ مياں بيوی اگر ايک دوسرے کی بات کو خلوصِ نيّت سے سُنيں تو اُن کی زندگی بہت خوشگوار بن سکتی ہے ۔ ہم الحمدللہ مُسلمان ہيں اس لئے ہمارا فرض ہے کہ ہميشہ قرآن الحکيم سے رہنمائی حاصل کريں
سورت البقرہ کی آيت 263 ۔ ايک ميٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اُس خيرات سے بہتر ہے جس کے پيچھے دُکھ ہو ۔ اللہ بے نياز ہے اور برد باری اُس کی صفت ہے ۔
سُورت فُصِّلَت يا حٰم السَّجْدَہ ۔ آيات 34 تا 36 ۔ اور نيکی اور بدی يکساں نہيں ہيں ۔ تم بدی کو اُس نيکی سے دور کرو جو بہترين ہو ۔ تم ديکھو گے کہ تمہارے ساتھ جس کی عداوت پڑی ہوئی تھی وہ جگری دوست بن گيا ہے ۔ يہ صفت نصيب نہيں ہوتی مگر اُن لوگوں کو جو صبر کرتے ہيں ۔ اور يہ مقام حاصل نہيں ہوتا مگر اُن لوگوں کو جو بڑے نصيب والے ہوتے ہيں
سورت البقرہ ۔ آيت 228 آخری حصہ ۔ عورتوں کيلئے بھی معروف طريقے پر ويسے ہی حقوق ہيں جيسے مردوں کے حقوق اُن پر ہيں البتہ مردوں کو اُن پر ايک درجہ حاصل ہے
سُورت النِّسَآء ۔ آيت 34 ۔ مرد عورتوں پر قوّام ہيں ۔ اس بناء پر کہ اللہ نے ايک کو دوسرے پر فضيلت دی ہے اور اس بناء پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہيں ۔ پس جو عورتيں صالح ہيں وہ اطاعت شعار ہوتی ہيں اور مردوں کے پيچھے اللہ کی حفاظت اور نگرانی ميں اُن کے حقوق کی حفاظت کرتی ہيں
سُبحان اللہ ۔ کتنا بلند درجہ ہے درگذر کرنے والوں کا ۔ کتنے خوش نصيب ہيں وہ لوگ جو اللہ تعالٰی کے اس فرمان پر عمل کرنے کا شرف حاصل کرتے ہيں ۔ یہ بھی واضح ہوا کہ بیوی کے تمام اخراجات خاوند کے ذمہ ہیں ۔ انسان سے غَلَطی سر زد ہو سکتی ہے ۔ اس کا ازالہ يہی ہے کہ اگر ايک سے غَلَطی ہو جائے تو دوسرا درگذر کرے اور جس سے غَلَطی ہو اُس کا فرض ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرے ۔ اگر صبر و تحمل کا دامن نہ چھوڑا جائے اور رواداری اور درگذر سے کام ليا جائے تو اوّل جھگڑے پيدا ہی نہيں ہوتے اور اگر کسی وقتی غَلَطی يا غَلَط فہمی کے باعث جھگڑا ہو بھی جائے تو احسن طريقہ سے مسئلہ حل کيا جا سکتا ہے ۔ اس طرح باہمی تعلقات خوشگوار ماحول ميں پرورش پاتے ہيں
وما علينا الالبلاغ
ہوسکے تو میرے لئے دعائے خیر کیجئے
السلام علیکم اجمل انکل
واقعی اگر ہم لوگ ان بنیادی رویوں اور باتوں کو سمجھ لیں تو زندگی کتنی آسان ہو جائے۔۔ اور کتنا ہی اچھا ہو کہ تحمل اور برداشت کی تربیت ہر گھرانے کی روایت ہو اور شادی کے موقع پر بھی دونوں فریقین کو ایکدوسرے کے احساسات کے احترام اور خود پر عائد ہونے والی نئی ذمہ داریوں کا احساس دلایا جائے۔۔۔
فرحت صاحبہ
وعلیکم السلام و رحمة اللہ ۔ تبصرہ کا شکریہ
Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » گھرانہ
واقعی صرف تحمل کا فی ہے
گھر بربادی سے بچنے کے لئے
مدرس صاحب
تشريف آوری اور حوصلہ افزائی کا شکريہ
بہت عمدہ مضمون ہے . اگر مرد شرم و حیا اور تحمل و بردباری کو اور عورت عفت و عصمت اور معاملہ فہمی کو اپنا شعار بنا لے تو دنیا جنّت بن سکتی ہے. اپنی نوجوانی کے دنوں میں محبت کو خوشگوار ازدواجی زندگی کے لیے بنیادی شرط سمجھتا تھا لیکن شادی کے بعد اندازہ ہوا کہ باہمی تکریم اور ایک دوسرے کی کمزوریوں کو برداشت کرنے کی صلاحیت ہی اصل کنجی ہے . الله سبحانه تعالہ آپکو دنیا اور آخرت میں بہترین مقام عطا فرماے
ڈاکٹر جواد احمد خان صاحب
آپ کی نيک دعاؤں کيلئے ممنون ہوں ۔ جزاک اللہ خيراٌ
ميں محبت سے زيادہ احترام کا قائل ہوں ۔ ميں نے بہت سے ايسے جوڑے ديکھے ہيں جن کی محبت شادی کے بعد رفو چکر ہو گئی ۔ ميں اور ميری بيوی جو کہ ميری خالہ کی بيٹی ہے شادی سے پہلے ايک دوسرے کا احترام کرتے تھے ۔ شادی کا کبھی نہ سوچا تھا ۔ شادی سے دو سال پہلے منگنی کر کے ہمارے ايک دوسرے کو ديکھنے پر بھی پابندی لگا دی گئی تھی ۔ اسی دوران ہمارے دلوں ميں بہن بھائی کا رشتہ ختم ہو کر ساتھی بننے کی اُمنگ پيدا ہوئی اور شادی کے دن سے ہماری محبت نے جنم ليا جو اللہ کے فضل سے آج تک بغير کسی تنزل کے زندہ ہے
افتخار صاحب۔۔۔ آپ کے اس پوسٹ سے بہت سیکھنے کو ملا۔۔۔۔ واقعی ہم بہت غلط کرتے ہیں اپنے رشتوں میں لیکن امید یہ کرتے ہیں کہ دوسرے ہم سے وہ سلوک نا کریں جو ہم ان سے کرتے ہیں۔۔۔ میاں بیوی کا رشتہ واقعی بہت نازک ہوتا ہے۔۔۔ لیکن ہم نے اسے گڈا گڈی کا کھیل سمجھ لیا ہے۔۔۔ ہم یہ بھول گئے ہیں کہ ہمارے اسی رشتے سے ہماری اگلی نسل کی تربیت ہوگی اور ان کا مستقبل لکھا جائے گا۔۔۔
آپ سے بات کرنے کا بہت جی چاہتا ہے۔۔۔ اور آپ سے سیکھنے کا بہت شوق ہے۔۔۔ امید ہے کہ کبہی آواز بھی سنوں گا آپکی۔۔۔
آپکا ایک فین۔۔۔ عمران اقبال
Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » مياں بيوی ۔ لمحہ فکریہ
ماشاء اللہ کافی سمجھداری کا ثبوت دیا آپ نے
کہ آنے والے جوڑوں کو نئی زندگی کی ابتداء میں ہی درپیش ہونے والے مسائل سے اجاگر کیا
اللہ تمام احباب کے گھروں کو آباد رکھے
آمین
ام تحریم صاحبہ
شکر کرتا ہوں پیدا کرنے والے کا کہ آپ نے کسی وجہ سے مجھے سمجھدار تو گردانا
میں نے ہمیشہ آُ پ کو سمجھدار مانا ہے
لکھا نہیں اس کا شکوہ ہے کیا آپ کو؟
ام تحریم صاحبہ
بہت مشکور ہوں سمجھدار سمجھنے کا ۔ شکوہ مجھے صرف ایک شخص سے ہوتا ہے جس کا نام ہے “افتخار اجمل بھوپال”۔
ایک بات ہے اجتنماعی خاندان کے سسٹم نے سارا سکون برباد کر دیا ہے بعض اوقات گھر کے سارے لوگ میاں کو بیوی کے خلاف ایسے ایسے مشورے دیتے ہیں کہ اچھے اچھے عقل مند مرد بھی ان گھریلو مسائل میں الجھ کر رہ جاتے ہیں
اہلِ دعا صاحب
یہ لازم نہیں ہے ۔ میرا خاندان مثال ہے ۔ میری بہنیں میری بیوی سے پیار کرتی ہیں اور بھائی اس کا احترام کرتے ہیں ۔ اصل مسئلہ دین پر عمل نہ کرنا ہے
دعا صاحب نہیں صاحبہ،مشترکہ خاندان کا نظام اسلامی معاشرت کا حصہ نہیں ہے بلکہ یہ ہندو معاشرے کا نظام ہے، ہاں اگر بیوی اپنی خوشی سے سب کے ساتھ رہنا چاہے تو کوئی حرج نہیں۔لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ بیٹا ماں باپ سے ایک سائڈ پر ہی ہو جائےکیونکہ والدین کا حق بہت ذیادہ ہے جواءنٹ فیملی سسٹم اس وقت وبال بنتا ہے جب میاں بیوی کے درمیان دوریاں پیدا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے کوئی بیوی کو الٹے سیدھے مشورے دیتا ہے تو کوئی شوہر کو اس طرح گھر کا سکون تباہ ہو جاتا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ آج بھی ایسے صبر و تحمل والے برد باد ساس سسر نندیں ہیں جن کے لئے اولیت گھر کا سکون ہے لیکن تصویر کے دونوں رخ دیکھنے چاہیئں۔
دعا صاحبہ
میرے بلاگ کو رونق بخشنے کا شکریہ ۔ غلطی کیلئے معذرت خواہ ہوں ۔ کسی زمانہ میں میرے بلاگ پر “دعا خان” کے نام سے تبصرے ہوئے جو میرے خیال کے مطابق صاحب تھے اور میں نے اُنہیں “صاحب” ہی مخاطب کیا تھا
گو میں نے ایسا لکھا نہیں ہے لیکن جو آیات میں نے نقل کی ہیں اس سے خاندان باہمی سلوک واضھ ہوتا ہے خواہ وہ اک مکان میں رہیں یا الگ الگ مکانوں میں ۔ میں نے جو کچھ لکھا ہے ہو سکتا ہے اس میں کچھ ایسے عمل ہوں جو ہندوؤں میں بھی پائے جاتے ہوں لیکن یہ سب باتیں مسلم معاشرے کی ہیں
اک جدید لکھاری کا سلام قبول کرین۔
نوید صاحب ۔ و علیکم السلام
نوازش کا شکریہ ۔ میں لکھاری تو نہیں ہوں ۔ اپنے علم اور تجربے کو رقم کر رہا ہوں اس اُمید پر کہ شاید اس سے کسی کا بھلا ہو جائے اور وہ میرے حق میں دعا کردے جو میرے اللہ کو پسند آ جائے
افتخار بھائی صاحب اسلام وعلیکم مجھے نہیں معلوم کہ آپ کو میرا افتخار بھائ لکھنا اچھا لگتا ہے کہ نہیں لیکن مجھے احترام کے طور پر اور ویسے بھی اپنے وقت کی دید و لحاظ کے کو مد نظر رکھ کراس طرح لکھنا اچھا لگتا ہے میں وقتا// فوقتا// آپ کی مدلل اور معلومات سے بھری تحریریں پڑھتی ہوں ۔آپ نے ازدواجی زندگی پر بہت اچھی طرح سےلکھا ہے ۔ اس میں کوی شک نہیں میاں بیوی کا رشتہ ایک دوسرے پر اعتماد اور بھروسہ پیار ومحبت سے بھرپور رشتہ ہے اور رشتہ کوی بھی ہو چھوڑا نہیں جاتا۔ لیکن مجھے کئ دفع یہ خیال آتا ہے کہ عورت کی زندگی کتنی پیدہ ہے ۔ عورت کا گھر کونسا ہے ماں باپ شادی کرکے دوسرے گھر بھیج دیتے ہیں پہلا گھر والدین کا پھر خاوند کا گھر عورت کسی کی بیٹی ماں بہن اور اور بیوی ماں باپ کے گھر سے دوسری جگہ آنا اور وہاں پزیرائی مل جاے تو ٹھیک ورنہ تمام عمردوسروں کا مہنہ دیکھتی رہتی ہے ؟ہمارے مذہب میں تو عورت کا بہت مقام ہے پھر اسے وہ مقام کیوں نہیں ملتا اگر سمجھیں تو عورت بھی والدین کے گھر سے ہجرت کر کے کسی کے گھر آتی ہے پھر اس کا مقام اور درجہ برابر کیوں نہیں دیا جاتا ؟ خیر اندیش بہن شمیم
محترمہ شمیم صاحبہ ۔ و علیکم السلام و رحمۃ اللہ
عورت کی دُشمن دراصل عورت ہی ہوتی ہے ۔ ہر عورت ہر دوسری عورت کے حقوق کا احترام کرنے لگے تو عورت خود بخود بلند مقام پر پہنچ جائے گی ۔ اس راہ میں اگر مرد حائل ہو گا تو عورتوں کا اتحاد اُسے کچھ کرنے نہیں دے گا