پاکستان بننے کے بعد ہم بے سروسامان پاکستان آئے تھے ۔ ميرے مُحترم والد صاحب نے ہم بہن بھائيوں کی اچھی تعليم و تربيّت کيلئے بہت محنت کی ۔ يہ اُنہی کی محنت کا نتيجہ ہے کہ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی کے فضل و کرم سے ہم سب بہن بھائيوں نے باعزّت زندگی گذاری ہے ۔ ہمارے مُحترم والد صاحب کہا کرتے تھے ”محنت کرو گے پڑھو گے تو سب تمہارے رشتہ دار اور دوست ہوں گے بصورتِ ديگر رشتہ دار کنارہ کشی اختيار کر ليں گے اور کوئی باعزّت آدمی دوست نہيں بنے گا“۔ بالکل سچ کہا تھا اُنہوں نے
ميری مُحترمہ والدہ صاحبہ نے چھياسٹھ برس کی عمر ميں اچانک برين ہَيمريج [Brain Hemorrhage] ہونے کی وجہ سے 29 جون 1980ء کو وفات پائی ۔ ميری اللہ القادر و الکريم والرحمٰن والرحيم کے حضور استدعا ہے کہ ميری مُحترمہ والدہ صاحبہ کو جنّت الفردوس ميں اعلٰی مقام عطا فرمائے ۔ آمين ثم آمين
میری امی میری جنت
تحریر ۔ 20 جولائی 1980ء
میں اک ننھا سا بچہ تھا میں کچھ بھی کر نہ سکتا تھا
مگر میں تجھ کو پیارا تھا تیری آنکھوں کا تارہ تھا
خود جاگتی مجھے سلاتی تھی میری امّی میری امّی
سوچا تھا ۔ ۔ ۔
نہ ہو گی تجھ میں جب طاقت رکھوں گا تجھ سے میں الفت
دوں گا تجھ کو بڑی راحت اٹھاؤں گا میں تیری خدمت
جو خدمت تو اٹھاتی تھی میری امّی میری امّی
مگر ۔ ۔ ۔
یک دم روٹھ کے تو چلی گئی اس فانی دنیا سے جاوداں دنیا
نہ خدمت تو نے مجھ سے لی نہ میں کندھا دے سکا تجھ کو
کہاں ڈھونڈوں تیری ممتا میری امّی میری امّی
مقام آخرت ہے تیرا جنت اس دنیا میں تھی تو میری جنت
جو نہ دے سکا میں تجھ کو وہ پھول تیری لحد پہ برساتا ہوں
آنسو بیچارگی پر اپنی بہاتا ہوں میری امّی میری امّی
تیری قبر کے سرہانے تھا بیٹھا تیری روح آ کے گذر گئی
پھیلی چار سو مہک گلاب کی میری روح معطّر ہو گئی
نہ تجھے دیکھ سکا نہ بول سکا میری امّی میری امّی
تیری دعاؤں سے جیتا تھا تیری دعاؤں سے پھلتا تھا
تیری دعاؤں کے بل بوتے میں کسی سے نہ ڈرتا تھا
اب بز دل بن گیا ہوں میں میری امّی میری امّی
اب تڑکے کون جگائے گا ۔ آیات قرآنی مجھے کون سنائے گا
تحمل و سادگی کون سکھائے گا تجھ بن کچھ بھی نہ بھائے گا
وللہ مجھے اپنے پاس لے جاؤ میری امّی میری امّی
مائيں تو سب کی بہت اچھی ہوتی ہيں ۔ خود جاگ کر بچوں کو سُلاتی ہيں ۔ خود بھُوکا رہ کر بچوں کا پيٹ بھرتی ہيں ۔ چاہے خود کتنی تکليف ميں ہوں اُن کی پوری کوشش ہوتی ہے کہ اُن کی اولاد کو کسی قسم کی تکليف نہ ہو ۔ بچوں کی خاطر محنت مزدوری تک کرتی ہيں لیکن مُحترمہ والدہ صاحبہ ميرے لئے ايک ناياب خزانہ تھيں ۔ اُن پر اللہ کی خاص رحمت تھی ۔ اُنہوں نے کبھی کسی کی بدخواہی نہ کی حتٰی کہ جنہوں نے اُنہيں زِک پہنچائی اُن کا بھی کبھی بُرا نہ سوچا بلکہ اُن کی بہتری کے لئے دُعا کی
مُجھے مُحترمہ والدہ صاحبہ کے پاؤں چُومنے کا اعزاز حاصل ہے ۔ وسط 1971ء ميں جب ميں ايک بچے کا باپ تھا مُحترمہ والدہ صاحبہ کی ٹانگ ميں شياٹِکا [Sciatica] کا شديد درد ہوا ۔ ميں اُن کی پنڈلياں سہلاتا رہا ۔ اللہ سے اُن کی شفاء کيلئے گڑگڑا کر دُعا کرتا رہا اور مُحترمہ والدہ صاحبہ کے پاؤں کے تَلوے چومتا رہا ۔ نمعلوم کتنے بيٹے ہوں گے جنہيں يہ اعزاز حاصل ہوا ہو
اگر کوئی مُحترمہ والدہ صاحبہ کی موجودگی ميں بھی اُن کی بُرائی کرتا تو وہ اُس کی ترديد نہ کرتيں ۔ ايک دفعہ ايک رشتہ دار عورت نے ميری خالہ سے جو کہ ميری ساس بھی تھيں مُحترمہ والدہ صاحبہ کے متعلق مَن گھڑت بات کہی ۔ ميں اور مُحترمہ والدہ صاحبہ نے بات سُن لی تو ميں نے مُحترمہ والدہ صاحبہ سے اُس بات کی ترديد کرنے کو کہا ۔ وہ کہنے لگيں ”ميرے ترديد کرنے کی کوئی ضرورت نہيں۔ سب جانتے ہيں کہ سچ کيا ہے“۔ يہ بات مجھے معقول نہ لگی مگر ميں خاموش ہو گيا ۔ کئی سال بعد مُجھے يہ فلسفيانہ حِکمت سمجھ آئی جب ميں نے مندرجہ ذيل مقولہ پڑھ کر اِسے سمجھنے کی کوشش کی
”Test of fairness is that how fair you are to those who are not.“
ميری مُحترمہ والدہ صاحبہ اس مقولہ کا ايک مُجسّم نمونہ تھيں ۔ اُنہوں نے اپنی زندگی ميں اپنے سسرال والوں ۔ اپنے بہن بھائيوں بشمول سوتيلے بہن بھائی ۔ اپنے بچوں ۔ اپنے بچوں کے بچوں اور ہر انسان جو اُن کے پاس آيا اُس کی خدمت کی ۔ محُترمہ والدہ صاحبہ نے بہت سادہ زندگی گذاری ۔ شرم و حياء اِس قدر کہ کبھی کسی مرد سے آنکھ ملا کر بات نہ کی
مُحترمہ والدہ صاحبہ کو عربی زبان پر عبور حاصل تھا ۔ جب وہ قرآن شريف کی تلاوت کرتيں تو مُجھے ترجمہ کر کے سُنايا کرتی تھيں ۔ اُنہوں نے کبھی کسی پر حتٰی کہ ہم پر بھی کبھی اپنی قابليت کا اظہار نہ کيا تھا ۔ اُن کے اچھی خاصی انگريزی جاننے کا مُجھے اُس وقت پتہ چلا جب میں نے 1979ء میں اُنہيں ٹيليفون پر کسی سے انگريزی ميں بات کرتے ہوئے سُنا ۔ اُنہوں نے مصر ميں قاہرہ کے ايک اعلٰی معيار کے سکول ميں تعليم حاصل کی تھی اور اطالوی زبان بھی جانتی تھيں
ميں بچپن ميں ديکھا کرتا تھا کہ مُحترمہ والدہ صاحبہ کبھی کبھی ہميں کھانا دينے سے پہلے کُچھ سالن يا ترکاری پليٹ ميں نکال کر رکھ ديتيں ۔ ايک دن يہ عُقدہ کھُلا جب اُنہوں نے مُجھے ايک پليٹ ميں نکالا ہوا سالن ايک بھکاری کو دينے کا کہا ۔ دراصل جس دن ہمارے کھانا کھانے سے پہلے کوئی بھکاری نہ آئے اُس دن وہ سالن يا ترکاری نکال کے رکھ ديتی تھيں ۔ وہ اِنتہا کی صابرہ تھيں ۔مگر کسی کو تکليف ميں نہيں ديکھ سکتی تھيں اور دوسروں کی تکليف کيلئے پريشان ہو جاتی تھيں
ميں سکول کے زمانہ ميں گھڑی کو الارم لگا کر سوتا تھا تا کہ سورج نکلنے سے کافی پہلے اُٹھوں اور نماز پڑھوں ۔ جب ميں آٹھويں جماعت ميں پڑھتا تھا تو ايک شام ميں گھڑی کو چابی دينا بھُول گيا اور گھڑی کھڑی ہو جانے کی وجہ سے الارم نہ بجا ۔ مُحترمہ والدہ صاحبہ نے آ کر جگايا اور غُصہ ميں کہا ”مُسلمان کا بچہ سورج نکلنے کے بعد نہيں اُٹھتا “۔ اُس دن کے بعد مجھے الارم کی ضرورت نہ رہی اور ميں بغير الارم کے سورج نکلنے سے ايک گھينٹہ پہلے اُٹھتا رہا ۔ اب کہ ميری عمر پينسٹھ سال سے اُوپر ہو چکی ہے کبھی ميری فجر کی نماز قضا ہو جائے تو مُجھے يوں محسوس ہوتا ہے کہ مُحترمہ والدہ صاحبہ کہہ رہی ہيں“ مُسلمان کا بچہ سورج نکلنے کے بعد نہيں اُٹھتا “
امّی کی ياد میں
تحریر ۔ اگست 1980ء
کتنے نازوں ميں تو نے کی ميری پرورش
تجھے ہر گھڑی رہتا تھا بہت خيال ميرا
تيری دعاؤں ميں رہا سدا ميں شامل
تيری موت نے مگر کيا نہ انتظار ميرا
يہ زندگی کس طرح گذرے گی اب
نہ دل ہے ساتھ ميرے نہ دماغ ميرا
ميں جو کچھ بھی ہوں فقط تيری محنت ہے
نہ یہ ميری کوئی خوبی ہے اور نہ کمال ميرا
ميری اچھی امّی پھر کريں ميرے لئے دعا
کسی طرح آ جائے واپس دل و دماغ ميرا
تيرے سِکھلائے ہوئے حوصلہ کو واپس لاؤں
پھر کبھی چہرہ نہ ہو اس طرح اشک بار ميرا
تيرے سمجھائے ہوئے فرائض نبھاؤں ميں
کٹھن راہوں پہ بھی متزلزل نہ ہو گام ميرا
روز و شب ميں پڑھ پڑھ کر کرتا رہوں دعا
جنّت الفردوس ميں اعلٰی ہو مقام تيرا
والدہ صاحبہ کو جنّت الفردوس ميں اعلٰی مقام عطا فرمائے ۔ آمين ثم آمين
سماھت صاحب یا صاحبہ
جزاک اللہ خیرً ۔ اللہ آپ کو اور آپ کے اہلِ خانہ کو خوش رکھے ۔ آمین ثم آمین
مجھے یقین ہے کہ اللہ نے آپ کی والدہ کو جنت الفردوس میں اعلٰی مقام میں رکھا ہوگا ۔
آپ نے اپنے والد صاحب کے بارے میں کچھ نہیں لکھا؟
قدیر احمد صاحب ۔ السلام علیکم
ابتدائی بند محترم والد صاحب کے متعلق تو ہے ۔ اس کے علاوہ اور کیا لکھتا ۔ میرے انجنیئر بن کر ملازمت شروع کرنے تک وہ ہمارے اخراجات پورے کرنے میں سرگرداں رہے ۔
Pingback: What Am I میں کیا ہوں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ » Blog Archive » ماں
سلام علیکم
اللہ آپ کی والدہ محترمہ مرحومہ کو اولیاء الہی کے ساتھ محشور کرے۔ آمین
السلام عليکم اللہ تعالٰی آپپ کی ماں کو جنت عطا کرے
وسيم صاحب ۔ و عليکم السلام و رحمة اللہ
تشريف آوی کا شکريہ ۔ آپ نے ميری والدھ محترمہ کے حق ميں دعا کی ۔ جزاک اللہ خيراٌ
السلام علیکم
یوں تو ماں ہر ایک کو پیاری ہے مگر آپ کے احساسات اور جذبات اس تربیت کی عکاسی کرتے ہیں جو آپ کی ماں نے کی ہے۔
اللہ تعالی سب مسلمانوں کی ماوں کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔
یوں اس جنت کا اس جنت میں ٹھکانہ ہو جائے
آمین یا رب العالمین
و علیکم السلام
اظہار خیال کا شکریہ
یہ ماں کی تربیت ہی ہے جو آدمی کو انسان بناتی ہے
میں آپکی اس دعا پر آمین کہتا ہوں “اللہ تعالی سب مسلمانوں کی ماؤں کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے”
محترم سلام مسنون
ميرے خيال ميں جس طرح آپ نے اپنی والدہ محترمہ جيسی نيک صفت خاتون کا تذکرہ کيا ہے ۔ يہ آپ کے اعلٰی خيالات خود اس بات کا ثبوت ہے کہ آپ کی پرورش ايسی عظيم خاتون کے ہاتھوں پائی ۔ اللہ مرحومہ کو جنت الفردوس ميں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمين
طارق صاحب
و عليکم السلام و رحمة اللہ ۔ جزاک اللہ خيراٌ
اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے اور ان پر خاص نظر کرم کرے۔ آمین
عطاء رفيع صاحب
جزاک اللہ خيراٌ
اللہ پاک آپ کی والدہ محترمہ کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے آمین اور جن کی والدہ حیات ہیں اللہ پاک ان کو صحت و تندرستی عطا فرمائے اور ان کا سائہ ہمیشہ ہمارے سروں پہ قائم رکھے
آمین
اللہ آپ کی والدہ کو جنر الفردوس میں جگہ دے
آمین
عمر صاحب
جزاک اللہ خیراْ
روندیاں نے اکھاں میریاں تے دل اے ہو ای پکار دا
ماواں مر جاوئن تے فئیر نہیں کوئی سنبھال دا
اک تو ہی سی نی مائیں دل دا سہارا
تیرے باجوں ہن کوئی سینے نہیں او لندا
روس گیاں خوشیاں میتھوں تے روس گے نے یار وی
اے میرا دل بس ماں ماں ہی پکار دا
عمران حسن صاحب
ماں کا اس دنیا میں نعم البدل نہیں نظر آتا
بےحد اچھی یادیں اور پیاری امی کی پیاری باتیں ہیں ۔اللہ ہمیں بھی ان نیک بیبیوں جیسا بنادے جو اتنی غیر معمولی ہوتی ہیں کہ ان کی چند باتیں سنکر ہی عقیدت و جذبات سے دل بھر جاتا ہے ۔
اللہ پاک آپ کی امی کو اعلٰی سے اعلٰی مقام عطا کرے۔بہت شکریہ اس تحریر کے ذکر کرنے کے لئے نہیں تو میں ایک عمدہ تحریر سے محروم رہتی ۔۔۔۔۔۔۔۔
بہن کوثر بیگ صاحبہ
اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔ آپ بھی اللہ کے فضل سے بہت اچھی ہیں ۔ غیب کا عِلم تو صرف اللہ تعالٰی کے پاس ہے لیکن اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے مجھے جو سمجھ عطا کر رکھی ہے میں نے اسی سے آپ کو پہچانا ہے ۔ راز کی بات ہے کہ بلاگی دنیا میں آپ پہلی خاتون ہیں جنہیں میں نے بہن کہہ کر مخاطب کیا ہے اور وہ بھی بہت کم عرصہ کی واقفیت کے بعد ۔ اللہ آپ کو خوش رکھے ۔ مجھے آپ جیسی نیک خواتین کی دعاؤں کی بہت ضرورت رہتی ہے
آپ کی ذرہ نوزی کا بے حد شکریہ ان شاءاللہ میں ایک اچھی بہن بنکر رہنے کی کوشش کرونگی۔ اللہ پاک آپ کو دین و دنیا میں کامیاب کرے ۔صحت و عافیت کے ساتھ اپنے پیاروں کا پیار اور توجہ ہمیشہ ملتے رہے ۔۔۔
Very difficult for me to find words to express …..may Allah rest her soul in peace with eternal blessings. Ameen
ثروت ع ج صاحبہ
اللہ آپ کو جزائے خیر دے
ثروت ع ج
ثروت ع ج صاحبہ
عین شروع میں ہو تو انگریزی میں ای لکھتے ہیں ۔ ہمارے ہاں الف اور عین کو ایک جیسا بولتے ہیں جو غلط ہے
Its Sarwat Abdul Jabbar …….then how to put “E” ?
ثروت ع ج صاحبہ
آپ جیت گئیں ۔ خوش ؟
May Allah keep us all safe and happy. Aameen
I found this website during a search. I learned from it. May Allah bless you all. May Allah grant high grades of Jannat to your parents and all Muslims who have passed away. May Allah reward you for all efforts.
Muhammad Akhtar
محمد اختر صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے خوش اور خوشحال رکھے
میرے بلاگ کے حاشیئے میں مندرجہ ذیل پر کلک کر کے انسٹال کر لیجئے تو آپ انگریزی کا کی بورڈ استعمال کرتے ہوئے بآسانی اردو لکھ سکیں گے
Install Urdu
ماں جیسی پیاری ہستی دنیا میں واقعی کوی نہیں اور آپ نے جس عقیدت مندی سے ماں کو یاد کیا ہے یہ واقعی میں ایک تربیت کا اثر ہے۔مجھے بھی اپنی ماں بہت یاد آتی ہے وہ وقت زمانہ ماں کا قدردان تھا اور ہے جو کبھی اپنی چڑیوں کے جھنجھنٹ میں گاتی تھی ” ٹالی میرے باچڑے’۔ لیکن اب وہ زمانہ کہاں گیا اب وہ تربیت کون اچک کر لے گیا جو دیدولحاظ پہلے تھا اب کیوں نظر نہیں آتا ۔یہ زمانہ کے تغیر وتبدل ہمیں کہاں پنچایں گے؟ مجھے تو خوف آتا کہ ہمارے مستقبل کے رکھوالے کیسے ہوں گےاللہ سب کی ماؤں کو جو دار فانی سے کوچ کرگئں ہیں انہیں جنتالفردوس میں جگہ عطافرماے آمین آپ جیسے تابعدارفرزند کو آجر عظیم دے اور آپکی مان کو جنت میں اعلی مقام عطا فرمانے آمین ۔۔ایک بہن
بہن شمیم صاحبہ
اللہ آپ جزائے خیر دے ۔ یہ آپ کی والدہ محترمہ کی عظمت ہے کہ آپ ایسے احساسات رکھتی ہیں ۔ مجھے آپ کی والدہ محترمہ اپنی والدہ محترمہ جیسی ہی محسوس ہوئیں ۔ میری عمر 75 برس ہو چکی ہے لیکن مجھے اب بھی ماں کی یاد تڑپاتی ہے ۔ آج اس طرح کا احساس رکھنے والے کم رہ گئے ہیں تو اس ماحول کا قصور گو زیادہ ہے لیکن شاید کچھ اُن کی ماؤں کا بھی ہے جنہوں اپنے بچوں کو وہ لوریا نہیں سنائین جو میری اور آپ کی ماؤں نے سنائیں ۔ وہ شاید زمانے کی جھوٹی چکاچوند سے متاءثر ہو گئی ہوں گی ۔ آجکل کے جوان جن کی ماؤں نے درست تربیت دی ہے وہ آج بھی اپنے والدین کے خدمت گذار ہیں ۔ ماشاء اللہ میرے دونوں بیٹے اور بیٹی ہمارا بہت خیال رکھتے ہیں ۔ دونوں بہو بیٹیاں بھی ہمارا بہت خیال رکھتی ہیں ۔ اللہ انہیں سیدھی راہ پر قائم رکھے ۔ آمین
افتخار صاحب اسلام وعلیکم شکریہ آپ نے جواب دیا اور بہت خوش ہوں آپ جیسے لوگ ابھی بھی ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جو بہت طریقہ سے جواب دیتے ہیں ۔ میں توزمیندار گھرانے سے تعلق رکھتی ہوں میرے سسر صاحب کے علامہ اقبال کے ساتھ بہت گہرے مراسم تھے بہت ممکن آپ جانتے ہوں گے کیونکہ اپ کو علامہ اقبال سے عقیدت ہے میں نے زندگی کے بہت اتار چڑھاؤ دیکھے ہیں ۔اللہ کی مدد سے ہمت نہی ہاری اپنی بیٹیوں کو اعلی تعلیم دلوائ ہے وہ سب اپنے گھروں میں خوش ہیں ۔ زندگی کے جھنجھالوں نے مجھے ابھی تک جھکڑ رکھا ہے میری ماں اور آپ کی ماں حقیقتا’ ایک جیسی ہوں گی سیدھی سادی دنیا کے فریب سے نا آشنا مخلص اور ہمدرد صبح سویرے اٹھانے والی اور کہنے والی اٹھو روضہ رکھو اٹھو نماز کا وقت ہو گیا ! وہی وقت اچھے تھے جو ہمیں یاد ہیں اور بس ہم نے بھی حسب مقدور کوشش کی ہے کہ ان باتوں پر پودا اتریں ۔ ہر سال بچوں کے پاس گرمیوں میں آتی ہوں پھر واپس اپنے وطن میں چلی جاتی ہوں آجکل امریکہ میں ہوں انشااللہ زندگی رہی تو واپس چلی جاؤں گی اب تو ہمت نہیں رہی میرے لئے آپ لوگ دعا کرتے رہیں اللہ مجھے ہمت دے کہ میں زندگی میں پریشانیوں سے نکل سکوں آمین مخلص بڑی بہن شمیم
بہن شمیم صاحبہ ۔ السلام علیکم و رحمۃ اللہ
اللہ آپ پر اپنا کرم کرے اور آپ کی تمام مشکلات آسان کرے ۔ آپ کی مُستقل رہائش کس جگہ ہے ؟
افتخار بھائ صاحب بہت شکریہ۔ہمت افزائ کا ۔ رہاش لاہور میں ہے تفصیل سے دوسرے ای میل پر لکھوں گی انشااللہ آپ کی بہن شمیم
افتخار بھائ اسلام وعلیکم آپ کی دعا بہت دفعہ پڑھی ہے دل کی گہرائیوں سے نکلے الفاظ ہیں جو ہر دل کو چھو گئے ہیں آمین آپ ایک ایماندار اور علم کا خزانہ ہیں ہمارے ملک کا سرمایہ ہیں میں اب اتنے پر اکتفا کرتی ہوں! اللہ حافظ خیر اندیش بہن شمیم
بھائ صاحب سلام اور آداب مستقل رہائش لاہور ہے خیر خواہ بہن ش
افتخار بھائ صاحب اسلام وعلیکم مجھے افسوس ہے کہ میں کچھ دیر آپ سے رابطہ میں نہیں رہی ۔ آپ بخیریت بمع اہل وعیال واپس اسلام آباد پہنچ گیے۔میں ابھی تک نہیں پہنچ پای جیسے ہی پہنچوں گی آپ سے رابطہ ضرور ہوگا ہو سکتا ہے کہ میں جلد آجاوں ۔اللہ سبحان وتعاللے اپ کو صحت اور زندگی کے ہر میدان میں کامران کرے اپ کی بہن ہمیشہ آپ کے لیے دعاگو رہے گی آپ بھی اپنی دعاؤں میں یاد رکھیں بہن شمیم
بہن شمیم صاحبہ السلام علیکم و رحمۃ اللہ
رابطہ کرنے پر مشکور ہوں ۔ میں ابھی دبئی ہی میں ہوں ۔ اِن شآء اللہ اگلے منگل کو اسلام آباد پہنچ جاؤں گا
افتخار بھائ صاحب اسلام و علیکم میں ابھی تک لاہور نہیں پہنچی وعدہ کے مطابق ای میل میں سب لکھ دیا تھا کیونکہ طبعیت ٹھیک نہیں ہوی ابھی ادھر ہوں ۔آپ نے میری میل کے بعد جواب نہیں دیا بہت عجیب خبریں سن کر پریشانی ہوتی ہے دعا میں یاد رکھیں اپ کی بہن شمیم
بہن شمیم صاحبہ ۔ و علیکم السلام
اللہ آپ کو جلد صحتِ کاملہ عطا فرمائے ۔ آمین ۔ معافی کا خواستگار ہوں ۔ میں بہت مصروف رہا ۔ اپنی ملازمہ کی بیٹی کی شادی کا بندوبست اللہ کے کرم سے ہمارے ذمہ ہوا تھا
بھائ صاحب اسلام وعلیکم مبارک ہو آپ نے نیک کام سر انجام دیا ۔ اللہ آپ کو جزا دے گا اپ کی بہن شمیم
افتخار اجمل بھائ صاحب آداب میں نے بہت کوشش کی ہے کہ آپ سے رابطہ ہو ۔آپکی ہمشیرہ کا پڑھ کر انتہائ دکھ ہوا اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ دے مجھے جواب میل میں دے دیں جو ای میل اپ استعمال کرتے ہیں دعاگو بہن
افتخار اجمل بھائ صاحب اسلام وعلیکم بہت دیر ہوی آپ سے رابطہ نہیں ہوا ۔ مجھ سے کوتاہی ہوئ کیونکہ بچے پاکستان گئے اور میں ادھر تھی ۔اب امید ہے جلد واپس آؤں گی پھر انشاللہ اپ کو ملوں گی ۔ خیر اندیش بہن شمیم
السلام و علیکم ورحمتہ اللہ
بہت اچھا لگا آپ کی والدہ کے بارے میں جان کر ۔۔۔ اللہ ان کے درجات بلند فرمائے آمین!!
جناب افتخار اجمل صاحب اللہ آپ کی والدہ محترمہ کے درجات بلند فرمائے اور کروٹ کروٹ جنت نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین
شاہد اے خان صاحب
آمیں ۔ اللہ آپ کو جزائے خیر دے
شکریہ جناب، آپ نے اپنے تجربات اور مشاہدات کو نئی نسل تک پہنچانے کا جو کام شروع کیا ہے اللہ آپ کو اس میں کامیاب و کامران فرمائے۔آپ کی تحریر سادہ و پرتاثیر ہے۔ اجازت دیں تو سانحہ سولہ دسمبر سقوط ڈھاکہ پر آپ کی تحریر سے استفادہ کرکے ہوئے اسے اپنے کالم میں شامل کرلوں۔۔ آپ کے نام اور اجازت کے ساتھ۔۔۔
شاہد اے خان صاحب
حوصلہ افزائی کا شکریہ ۔ میرا یہ بلاگ اپنے تجربات کو دوسروں بالخصوص جوان نسل تک پہنچانے کی ایک کوشش ہے ۔ آپ اس میں میری مدد کرنا چاہ رہے ہیں تو اس سے بہتر اور کیا ہو سکتا ہے