5.2۔رُکن اور ستُون

یہ تحریر 30 سالہ مطالعہ اور تحقیق کا خُلاصہ ہے جسے سال 2007ء میں شائع کیا گیا ۔ تحقیق ۔ افتخار اجمل بھوپال

ہمارے ملک میں دینی تعلیم تو کیا دنیاوی تعلیم کا بھی مناسب نظام وضع نہیں کیا گیا اسلئے عام طالبِ عِلم کو نصابی علم کی بھی گہرائی میں جانے کا موقع نہیں ملتا کُجا نصاب سے باہر کی باتیں ۔ کہنے کو ہم مسلمان ہیں ۔ مسلمان ہوتا کیا ہے یہ جاننے کا سب کا دعوٰی تو ہے مگر حقیقت ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اللہ ہمارے حال پر رحم فرمائے

کوئی ڈھائی دہائیاں پیچھے کی بات ہے کہ مجھے گریجوئیٹ سطح پر اسلامیات پڑھانا پڑھی ۔ ہر نصاب شروع کرتے ہوئے پہلے دن پچھلے نصاب کی مختصر سی دہرائی کی جاتی ہے ۔ میں نے جماعت سے سوال کیا “اسلامی سلطنت کے پانچ ستون کیا ہے ؟” چاروں طرف سنّاٹا تھا ۔ میرے سوال دہرانے پر ایک طالب عِلم نے ڈرتے ڈرتے کہا “کلمہ ۔ نماز ۔ روزہ ۔ زکوٰة۔ حج”

حال تو پورے نظامِ تعلیم کا ہی قابلِ تعریف نہیں ہے لیکن دینی تعلیم کے ساتھ جو لاپرواہی برتی گئی ہے اس کی مثال کہیں نہیں ملتی ۔ اسلام کے پانچ بنیادی ارکان اور پانچ ستونوں کو عام طور پر آپس میں خلط ملط کر دیا جاتا ہے

مُسلمان ہونے کی اوّل شرط ایمان ہے اور ایمان کے پانچ رُکن ہیں

1 ۔ کلمہ (لازم)
2 ۔ نماز (لازم)
3 ۔ روزہ (لازم)
4 ۔ زکٰوٰة (لازم بشرطیکہ شرائط پوری ہوں)
5 ۔ حج (لازم بشرطیکہ شرائط پوری ہوں)

بات صرف ایمان لے آنے پر ختم نہیں ہو جاتی ۔ یہ تو یوں ہوا کہ ایک مدرسہ (سکول) یا کُلیہ (کالج) یا جامعہ (یونیورسٹی) میں داخلہ لینے کیلئے کچھ صلاحیت ضروری ہوتی ہے ۔ ایمان لے آنے پر اُس صلاحیت کی شرط پوری ہو گئی تو اسلام میں داخلہ مل گیا ۔ پڑھے لکھے ہی نہیں بہت سے اَن پڑھ بھی جانتے ہیں کہ تدریس کا ایک نصاب ہوتا ہے جس میں کچھ لازمی اور کچھ اختیاری مضامین ہوتے ہیں جنہیں شعوری طور پر مکمل کرنے کے بعد ہی سند ملنے کی توقع کی جا سکتی ہے ۔ اسی طرح مسلمان ہونے کا نصاب ہے جس کے پانچ لازمی مضامین ہیں جن میں کامیابی ضروری ہے ۔ یہی اسلام کے ستون ہیں

1 ۔ ایمان جو بنیاد ہے اور اس کے بغیر باقی سب عمل بیکار ہیں
2 ۔ اخلاق یعنی سلوک یا برتاؤ
3 ۔ عدالت یا انصاف
4 ۔ معیشت
5 ۔ معاشرت

جب تک یہ باقی چاروں ستون مضبوط بنیادوں (ایمان) پر استوار نہیں ہوں گے مسلمانی کی عمارت لاغر رہے گی اور معمولی سے جھٹکے یا جھونکے سے نیچے آ رہے گی

پہلا ستون ۔ ایمان

کلمہ پڑھنے سے آدمی مسلمان تو ہو جاتا ہے ۔ مگر ۔ ۔ ۔
میں کوئی عالم فاضل نہیں اس لئے میں ہر چیز کو اپنے روزمرّہ کے اصولوں پر پرکھتا ہوں ۔ میں سکول میں داخل ہوا پڑھائی کی ۔ کئی مضامین یاد کئے ۔ اَن گنت امتحان دیئے اور سب محنت کر کے پاس کئے اور دس سال کا عرصہ اس طرح گذارنے کے بعد مجھے میٹرک پاس کی سند دی گئی ۔ میٹرک کی بنیاد پر کوئی خاطر خواہ ملازمت نہ مل سکتی تھی چنانچہ پھر اسی رَٹ میں جُت گیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ پڑھائی اور امتحان مشکل ہوتے گئے اور اتنے مشکل ہوۓ کہ رات کی نیند اور دن کا چین حرام ہو گیا ۔ محنت کرتے اور اللہ سے دعائیں کرتے رہے آخر بی ایس سی انجنئرنگ کی سند ملی ۔ نوکری کے لئے امتحان دیئے انٹرویو دیئے تو نوکری ملی اور اپنا پیٹ پالنے کے قابل ہوۓ ۔ یہ سب کچھ اس لئے ممکن ہوا کہ اکیس بائیس سال کے لئے کھانے پینے پہننے اور پڑھائی کا خرچ والدین نے دیا ۔ ملازمت میں سارا سارا دن محنت کی پھر بھی بڑے عہدیدار (باس) کم ہی خوش ہوئے
جو سکول یا کالج سے غیرحاضر رہتے رہے یا جنہوں نے امتحان نہ دیا یا ملازمت کے دوران محنت نہ کی وہ پیچھے رہتے گئے اور نالائق اور ناکام کہلائے

یہ سب کچھ جانتے ہوئے صرف والدین کے مسلمان ہونے کی وجہ سے کوئی اپنے آپ کو مسلمان سمجھے تو کیا یہ دانشمندی ہو گی ؟ کلمہ طیّبہ جسے پڑھ کر مسلمان ہوتے ہیں اس یقین کا اظہار ہے کہ میں سوائے اللہ کے کسی کو معبود نہیں مانتا اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم اس کے پیامبر ہیں ۔ چنانچہ مسلمان تب بنتا ہے جب اللہ اور اس کے رسول کے احکامات پر عمل کرے ۔ علامہ اقبال نے کہا ہے

عمل سے زندگی بنتی ہے جنت بھی جہنم بھی
یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نوری ہے نہ ناری ہے

پہلے ستون ایمان کے نماز ۔ روزہ ۔ زکٰوۃ اور حج کے علاوہ قرآن شریف سے حوالاجات

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیات 135 تا 137 ۔ اور (یہودی اور عیسائی) کہتے ہیں کہ یہودی یا عیسائی ہو جاؤ تو سیدھے رستے پر لگ جاؤ۔ (اے پیغمبر ان سے) کہہ دو، (نہیں) بلکہ (ہم) دین ابراہیم (اختیار کئے ہوئے ہیں) جو ایک اللہ کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے ۔ (مسلمانو) کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو (کتاب) ہم پر اتری، اس پر اور جو (صحیفے) ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر نازل ہوئے ان پر اور جو (کتابیں) موسیٰ اور عیسی کو عطا ہوئیں، ان پر، اور جو اور پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے ملیں، ان پر (سب پر ایمان لائے) ہم ان پیغمروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اسی (اللہ واحد) کے فرمانبردار ہیں ۔ تو اگر یہ لوگ بھی اسی طرح ایمان لے آئیں جس طرح تم ایمان لے آئے ہو تو ہدایت یاب ہو جائیں اور اگر منہ پھیر لیں (اور نہ مانیں) تو وہ (تمھارے) مخالف ہیں اور ان کے مقابلے میں تمھیں اللہ کافی ہے۔ اور وہ سننے والا (اور) جاننے والا ہے
سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 177 ۔ نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق یا مغرب کو (قبلہ سمجھ کر ان) کی طرف منہ کرلو بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اللہ پر اور روز آخرت پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتاب پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں۔ اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتہ داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں (کے چھڑانے) میں (خرچ کریں) اور نماز پڑھیں اور زکوٰۃ دیں۔ اور جب عہد کرلیں تو اس کو پورا کریں۔ اور سختی اور تکلیف میں اور (معرکہ) کارزار کے وقت ثابت قدم رہیں۔ یہی لوگ ہیں جو (ایمان میں) سچے ہیں اور یہی ہیں جو (اللہ سے) ڈرنے والے ہیں
سورت ۔ 3 ۔ آل عمران ۔ آیات 31 ، 32 ۔ (اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔ کہہ دو کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اگر نہ مانیں تو اللہ بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا
سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 60 ۔ کیا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں) تم سے پہلے نازل ہوئیں ان سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش کے پاس لے جا کر فیصلہ کرائیں حالانکہ ان کو حکم دیا گیا تھا کہ اس سے اعتقاد نہ رکھیں اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ ان کو بہکا کر رستے سے دور ڈال دے
سورت ۔ 9 ۔ التوبہ ۔ آیت 23 ۔ اے اہل ایمان! اگر تمہارے (ماں) باپ اور (بہن) بھائی ایمان کے مقابل کفر کو پسند کریں تو ان سے دوستی نہ رکھو۔ اور جو ان سے دوستی رکھیں گے وہ ظالم ہیں
سورت ۔ 9 ۔ التوبہ ۔ آیت 71 ۔ اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں کہ اچھے کام کرنے کو کہتے ہیں اور بُری باتوں سے منع کرتے اور نماز پڑھتے اور زکوٰۃ دیتے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں۔ یہی لوگ ہیں جن پر اللہ رحم کرے گا۔ بےشک اللہ غالب حکمت والا ہے
سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 63 ۔ اور اللہ کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں
سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 67 ۔ اور وہ جب خرچ کرتے ہیں تو نہ بےجا اُڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں بلکہ اعتدال کے ساتھ۔ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم
سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 72 ۔ اور وہ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب ان کو بیہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو بزرگانہ انداز سے گزرتے ہیں
سورت ۔ 29 ۔ العنکبوت ۔ آیت 2 ۔ کیا لوگ یہ خیال کئے ہوئے ہیں کہ صرف یہ کہنے سے کہ ہم ایمان لے آئے چھوڑ دیئے جائیں گے اور اُن کی آزمائش نہیں کی جائے گی
سورت ۔ 33 ۔ الاحزاب ۔ آیت 36 ۔ اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی امر مقرر کردیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں۔ اور جو کوئی اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے وہ صریح گمراہ ہوگیا
سورت ۔ 63 ۔ المنافقون ۔ آیت 9 ۔ مومنو! تمہارا مال اور اولاد تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کردے۔ اور جو ایسا کرے گا تو وہ لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں

دوسرا ستون ۔ اخلاق یعنی سلوک برتاؤ

عصرِ حاضر میں ہمیں یہ سمجھانے کی کوشش کی جار رہی ہے کہ اسلام انتہاء پسندی اور دہشتگردی سکھاتا ہے اور عِلم سے محروم اسناد کے حامل مسلمان ہموطن اُن کی آواز میں آواز ملانے لگتے ہیں مگر اتنی زحمت گوارہ نہیں کرتے کہ جس دین کے وہ خود بھی نام لیوا ہیں اسے کم از کم پڑھ تو لیں کہ وہ ہے کیا ؟

سورت ۔ 2 ۔ البقرۃ ۔ آیت 263 ۔ ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اس خیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو ۔ اللہ بے نیاز ہے اور بردباری اس کی صفت ہے
سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 19 تا 21 ۔ مومنو! تم کو جائز نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ۔ اور (دیکھنا) اس نیت سے کہ جو کچھ تم نے ان کو دیا ہے اس میں سے کچھ لے لو انہیں (گھروں میں) میں مت روک رکھنا ہاں اگر وہ کھلے طور پر بدکاری کی مرتکب ہوں (تو روکنا مناسب نہیں) اور ان کے ساتھ اچھی طرح رہو سہو اگر وہ تم کو ناپسند ہوں تو عجب نہیں کہ تم کسی چیز کو ناپسند کرو اور اللہ اس میں بہت سی بھلائی پیدا کردے ۔ اور اگر تم ایک عورت کو چھوڑ کر دوسری عورت کرنی چاہو ۔ اور پہلی عورت کو بہت سا مال دے چکے ہو تو اس میں سے کچھ مت لینا۔ بھلا تم ناجائز طور پر اور صریح ظلم سے اپنا مال اس سے واپس لے لوگے؟ اور تم دیا ہوا مال کیونکر واپس لے سکتے ہو جب کہ تم ایک دوسرے کے ساتھ صحبت کرچکے ہو۔ اور وہ تم سے عہد واثق بھی لے چکی ہے
سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 34 ۔ مرد عورتوں پر ایک درجہ مقدم ہیں اس لئے کہ اللہ نے بعض کو بعض سے افضل بنایا ہے اور اس لئے بھی کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں تو جو نیک بیبیاں ہیں وہ مردوں کے حُکم پر چلتی ہیں اور ان کے پیٹھ پیچھے اللہ کی حفاظت میں (مال وآبرو کی) خبرداری کرتی ہیں اور جن عورتوں کی نسبت تمہیں معلوم ہو کہ سرکشی (اور بدخوئی) کرنے لگی ہیں تو (پہلے) ان کو (زبانی) سمجھاؤ (اگر نہ سمجھیں تو) پھر ان کے ساتھ سونا ترک کردو اگر اس پر بھی باز نہ آئیں تو زدوکوب کرو اور اگر فرمانبردار ہوجائیں تو پھر ان کو ایذا دینے کا کوئی بہانہ مت ڈھونڈو بےشک اللہ سب سے اعلیٰ (اور) جلیل القدر ہے
سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 36 ۔ اور تم سب اللہ کی بندگی کرو ۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ ۔ ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ۔ قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ۔ اور پڑوسی رشتہ دار سے ۔اجنبی ہمسایہ سے ۔ پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں احسان کا معاملہ رکھو ۔ یقین جانو اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے
سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 86 ۔ اور جب تم کو کوئی سلام کرے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے) سے (اسے) سلام کرو یا انہیں لفظوں سے سلام کرو بےشک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے
سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 148 ۔ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو اعلانیہ برا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔ اور اللہ (سب کچھ) سنتا (اور) جانتا ہے
سورت ۔ 5 ۔ المآئدہ ۔ آیت 8 ۔ اے ایمان والوں! اللہ کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے
سورت ۔ 6 ۔ الانعام ۔ آیت 152 ۔ اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا مگر ایسے طریق سے کہ بہت ہی پسندیدہ ہو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے اور ناپ تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو ہم کسی کو تکلیف نہیں دیتے مگر اس کی طاقت کے مطابق اور جب (کسی کی نسبت) کوئی بات کہو تو انصاف سے کہو گو وہ (تمہارا) رشتہ دار ہی ہو اور اللہ کے عہد کو پورا کرو ان باتوں کا اللہ تمہیں حکم دیتا ہے تاکہ تم نصحیت پکڑو
سورت ۔ 16 ۔ النّحل۔ آیت 126 ۔ اور اگر تم بدلہ لو تو اُسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو لیکن اگر صبر کرو تو یقیناً یہ صبر کرنے والوں کے حق ہی میں بہتر ہے
سورت ۔ 17 ۔ الاسرآء یا بنی اسرآءیل ۔ آیت 23 ۔ اور تمہارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو۔ اگر ان میں سے ایک یا دونوں تمہارے سامنے بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ انہیں جھڑکنا اور اُن سے بات ادب کے ساتھ کرنا
سورت ۔ 57 ۔ الحدید ۔ آیت 23 ۔ ” ۔ ۔ ۔ اور جو تم کو اس نے دیا ہو اس پر اترایا نہ کرو۔ اور اللہ کسی اترانے اور شیخی بگھارنے والے کو دوست نہیں رکھتا”
سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 68 ۔ جو اللہ کے سوا کسی اور کو معبود نہیں پکارتے ۔ اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ یہ کام جو کوئی کرے وہ اپنے گناہ کا بدلہ پائے گا
سورت ۔ 31 ۔ لقمان ۔ آیت 14 ۔ اور ہم نے انسان کو جسے اُس کی ماں تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں اُٹھائے رکھتی ہے (پھر اس کو دودھ پلاتی ہے) اور( آخرکار) دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہوتا ہے اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے کہ میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی (کہ تم کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے
سورت ۔ 31 ۔ لقمان ۔ آیات 18 ، 19 ۔ اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر۔ نہ زمین میں اکڑ کر چل ۔ اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا ۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پست رکھ ۔ سب آوازوں سے زیادہ بری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے
سورت ۔ 33 ۔ الاحزاب ۔ آیت 58 ۔ اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت سے) جو انہوں نے نہ کیا ہو ایذا دیں تو انہوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا
سورت ۔ 41 ۔ فُصلت یا حم السجدہ ۔ آیت 34 ۔ اور بھلائی اور برائی برابر نہیں ہوسکتی۔ تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی گویا وہ تمہارا گرم جوش دوست ہے
سورت ۔ 42 ۔ الشورٰی ۔ آیات 40 ، 41 ۔ اور برائی کا بدلہ تو اسی طرح کی برائی ہے۔ مگر جو درگزر کرے اور (معاملے کو) درست کردے تو اس کا بدلہ اللہ کے ذمے ہے۔ اس میں شک نہیں کہ وہ ظلم کرنے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ اور جس پر ظلم ہوا ہو اگر وہ اس کے بعد انتقام لے تو ایسے لوگوں پر کچھ الزام نہیں
سورت ۔ 49 ۔ الحجرات ۔ آیات 11 ، 12 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ آپس میں ایک دوسرے پہ طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو برے القاب سے یاد کرو ۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بری بات ہے ۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں ۔ اے اہل ایمان! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں۔ اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے۔ کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے۔ (تو غیبت نہ کرو) اور اللہ کا ڈر رکھو بےشک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے
سورت ۔ 61 ۔ الصّف ۔ آیات 2 ، 3 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ؟ اللہ کے نزدیک یہ سَخت نا پسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں ۔

تیسرا ستون ۔ عدالت یا اِنصاف

اِسلام کے نظامِ اِنصاف اور مغربی قانونِ اِنصاف (جو کہ پاکستان میں بھی رائج ہے) میں ایک اہم فرق ہے وہ یہ کہ اِسلامی نظام ِ اِنصاف میں اِنصاف مہیا کرنا قاضی یعنی جج کا فرض ہوتا ہے اور اِسلامی شریعی قانون کے ماہرین اِنصاف کرنے میں جج کی مدد کرتے ہیں ۔ جبکہ مغربی قانونِ اِنصاف میں سچ ہو یا جھوٹ صرف مُدعی اور مُدعا علَیہ کے بیانات پر انحصار کیا جاتا ہے ۔ جن معاملات میں پولیس کا عمل دخل ہو ان میں پولیس بھی کرتب دکھاتی ہے

تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جب حاکمِ وقت کسی عالِمِ دین کو مُلک کے مُنصفِ اعلٰی کا عُہدہ پیش کرتے اور عالِم کے خیال میں حاکم صرِیح مُنصف نہ ہو تا تو عالِم عہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیتا خواہ انکار پر سزا بھگتنا پڑتی ۔ [نعمان بن ثابت المعروف امام ابو حنیفہ کو مُنصفِ اعلٰی بننے سے انکار پر عبّاسی خلیفہ منصور نے قیدِ سخت کی سزا دی ۔ چار پانچ سال بعد امام صاحب قید ہی میں وفات پا گئے]

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 42 ۔ باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو
سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 188 ۔ اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اورنہ اس کو (رشوت کے طور) حاکموں کے پاس پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر کھا جاؤ اور (اسے) تم جانتے بھی ہو
سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 283 ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اگر کوئی کسی کو امین سمجھے (یعنی رہن کے بغیر قرض دیدے) تو امانتدار کو چاہیئے کہ صاحب امانت کی امانت ادا کردے اور اللہ سے جو اس کا پروردگار ہے ڈرے۔اور (دیکھنا) شہادت کو مت چھپانا۔ جو اس کو چھپائے گا وہ دل کا گنہگار ہوگا۔ اور اللہ تمہارے سب کاموں سے واقف ہے
سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 29 ۔ مومنو! ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ ۔ ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کا لین دین ہو (اور اس سے مالی فائدہ حاصل ہو جائے تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو کچھ شک نہیں کہ اللہ تم پر مہربان ہے
سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 32 ۔ اور جس چیز میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اس کی ہوس مت کرو مردوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے اور عورتوں کو ان کاموں کا ثواب ہے جو انہوں نے کئے اور اللہ سے اس کا فضل (وکرم) مانگتے رہو کچھ شک نہیں کہ اللہ ہر چیز سے واقف ہے
سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 58 ۔ اللہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ امانتیں اہل امانت کے سپرد کرو ۔ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو ۔ اللہ تم کو نہائت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقینا اللہ سب کچھ دیکھتا اور سنتا ہے ۔
سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 135 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ انصاف کے علمبردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے انصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو ۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب ۔ اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے ۔ لہذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو ۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے ۔
سورت ۔ 5 ۔ المآئدہ ۔ آیت 8 ۔ اے ایمان والوں! اللہ کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو۔ اور لوگوں کی دشمنی تم کو اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو۔ انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ کچھ شک نہیں کہ اللہ تمہارے سب اعمال سے خبردار ہے
سورت ۔ 16 ۔ النحل ۔ آیت 126 ۔ اور اگر تم بدلہ لو تو اسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو لیکن اگر صبر کرو تو یہ صبر کرنے والوں کے حق میں بہتر ہے
سورت ۔ 17 ۔ الاسراء یا بنی اسرآئیل ۔ آیت 35 ۔ اور جب (کوئی چیز) ناپ کر دینے لگو تو پیمانہ پورا بھرا کرو اور (جب تول کر دو تو) ترازو سیدھی رکھ کر تولا کرو۔ یہ بہت اچھی بات اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت بہتر ہے
سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 72 ۔ (رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے
سورت ۔ 83 ۔ المطففین ۔ آیت 1 تا 9 ۔ ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لیے تباہی ہے ۔ جو لوگوں سے ناپ کر لیں تو پورا لیں ۔ اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیں تو کم کر دیں ۔ کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ اٹھائے بھی جائیں گے ۔ (یعنی) ایک بڑے (سخت) دن میں ۔ جس دن (تمام) لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے ۔ سن رکھو کہ بدکارروں کے اعمال سجّین میں ہیں ۔ اور تم کیا جانتے ہوں کہ سجّین کیا چیز ہے؟ ایک دفتر ہے لکھا ہوا

چوتھا ستون ۔ معیشت

میرے ہموطن مسلمان بھی کہتے پھرتے ہیں کہ مسلمان ترقی نہیں کر سکتے ۔ کیا مسلمانوں کو اللہ کے بتائے ہوئے مندرجہ ذیل معاشی اصولوں نے ترقی سے روک رکھا ہے یا ان اصولوں کے انحراف نے ؟

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 188 ۔ اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اورنہ اس کو (رشوتً) حاکموں کے پاس پہنچاؤ تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر کھا جاؤ اور (اسے) تم جانتے بھی ہو
سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔ آیت 2 ۔ اور یتیموں کا مال (جو تمہاری تحویل میں ہو) ان کے حوالے کردو اور ان کے پاکیزہ (اور عمدہ) مال کو (اپنے ناقص اور) برے مال سے نہ بدلو۔ اور نہ ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھاؤ۔ کہ یہ بڑا سخت گناہ ہے
سورت ۔ 4 ۔ النّسآء ۔آیت 58 ۔ اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں ان کے حوالے کردیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو اللہ تمہیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے بےشک اللہ سنتا اور دیکھتا ہے
سورت ۔ 17 ۔ الاسرآء یا بنی اسرآءیل ۔ آیت 35 ۔ پیمانے سے دو تو پورا بھر کے دو اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو ۔ یہ اچھا طریقہ ہے اور بلحاظ انجام بھی بہتر ہے
سورت ۔ 25 ۔ الفرقان ۔ آیت 67 ۔ جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بُخل ۔ بلکہ ان کا خرچ دونوں انتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے
سورت ۔ 55 ۔ الرحمٰن ۔ آیت 8 اور 9 ۔ کہ ترازو (سے تولنے) میں حد سے تجاوز نہ کرو ۔ اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تولو۔ اور تول کم مت کرو
سورت ۔ 61 ۔ الصف ۔ آیت 2 اور 3 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت نا پسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں
سورت ۔ 83 ۔ المُطففّین ۔ آیت 1 تا 3 ۔ تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لئے جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو انہیں گھاٹا دیتے ہیں ۔

پانچواں ستون ۔ معاشرت

عام طور پر معاشرہ ویسا ہی ہو گا جیسا اس کی اکثریت چاہے گی ۔ معاشرہ میں بہتری لانے کیلئے دو عوامل ضروری ہیں ایک تحریک اور دوسرا رہنما ۔ اگر تحریک کو غلط رہنما مل جائے تو ساری محنت ضائع ہو جاتی ہے ۔ اگر تحریک مفقود ہو تو عام طور پر اچھے سے اچھا سربراہ بھی ناکام رہتا ہے ۔ بعض اوقات کوئی واقعہ یا حادثہ تحریک کا سبب بن جاتا ہے لیکن کبھی کبھی قوموں کو ایسے باکردار رہنما بغیر تحریک کے مل جاتے ہیں جو انہیں اندھیروں سے نکال کر اُجالوں میں لیجاتے ہیں لیکن پھر بھی قوم میں تحریک پیدا نہ ہو یا پیدا ہو کر پانی کے بُلبلے کی طرح جلد ختم ہو جائے تو قوم پھر سے اندھیروں میں بھٹکنے لگتی ہے

اسلام نے معاشرہ کے کچھ بنیادی اصول وضع کئے ہیں جو پہلے چار ستونوں پر تعمیر ہوتے ہیں یعنی ایمان ۔ اخلاق ۔ انصاف اور معیشت ۔
معاشرت کے دو پہلو ہیں ایک عمومی اور دوسرا انتظامی ۔ عمومی کا تعلق ہر فرد سے ہے اور انتظامی کا تعلق صرف منتظمین سے ہے

عمومی

اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے اس سلسلہ میں واضح ہدایات اپنی کتاب میں دی ہیں جن میں سےچند یہ ہیں

سورت ۔ 4 ۔ النسآ ۔ آیت 36 ۔ اور اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتہ دار ہمسائیوں اور اجنبی ہمسائیوں اور رفقائے پہلو (یعنی پاس بیٹھنے والوں) اور مسافروں اور جو لوگ تمہارے قبضے میں ہوں سب کے ساتھ احسان کرو کہ اللہ (احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور) تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا
سورت ۔ 4 ۔ النسآ ۔ آیت 86 ۔ اور جب تم کو کوئی احترام کے ساتھ سلام کرے تو (جواب میں) تم اس سے بہتر (کلمے) سے (اسے) سلام کرو یا انہی لفظوں سے سلام کرو بےشک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے
سورت ۔ 4 ۔ النسآ ۔ آیت 148 ۔ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو اعلانیہ بُرا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو۔ اور اللہ (سب کچھ) سنتا (اور) جانتا ہے
سورت ۔ 49 ۔ الحجرات ۔ آیت 11 ۔ مومنو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں۔ اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا بُرا نام رکھو۔ ایمان لانے کے بعد برا نام (رکھنا) گناہ ہے۔ اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں
سورت ۔ 61 ۔ الصف ۔ آیت 3 ۔ قیامت کے دن نہ تمہارے رشتے ناتے کام آئیں گے اور نہ اولاد۔ اس روز وہی تم میں فیصلہ کرے گا۔ اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس کو دیکھتا ہے

انتظامی

معاشرہ کوئی بھی ہو اس کی حوصلہ افزائی یا مایوسی کا انحصار اس کی انتظامیہ کے گفتار اور عمل میں مماثلت پر ہوتا ہے ۔
اسلامی نظام کی بہت سی مثالیں تاریخ میں مرقوم ہیں جن میں سے دو بطورِ نمونہ پیش ہیں

عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کی خلافت کا زمانہ ہے ۔ ریاست 23 لاکھ مربع کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہے ۔ لشکرِ اسلام کی کمان خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کے ہاتھ میں ہے جو صحابی رسول بھی ہیں اور ايک سو سے زائد جنگوں میں حصہ لے چکے ہیں ۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ایک بڑے معرکہ سے واپس آ رہے ہیں ۔ لوگ ان سے بخشیش مانگتے ہیں ۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ دس ہزار درہم تقسیم کر تے ہیں ۔ اس کی اطلاع خلیفہ دوئم عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کو ملتی ہے ۔ خلیفہ ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ کو حُکم دیتے ہیں کہ جا کر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ سے کمان لے لیں اور ساتھ پیغام دیا کہ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو کہیں “اگر دس ہزار درہم موسم گرما کی خوراک سے دیا ہے تو خیانت کی ہے اور اگر اپنے پاس سے دیئے ہیں تو یہ اعتدال کی حد کو چھوڑنا ہے”۔ جب خالد بن ولید رضی اللہ عنہ مدینہ پہنچے تو عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کے پاس گئے ۔ عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ایک شاعر کا یہ قول پڑھا “تو نے ایک کام کیا ہے اور کسی کام کرنے والے نے تمہاری طرح کام نہیں کیا اور لوگ کچھ نہیں کرتے اللہ ہی کرتا ہے”۔ پھر فرمایا “اللہ کی قسم آپ مجھے بڑے ہی عزیز اور محبوب ہیں اور آج کے بعد کوئی ایسا کام نہ کرنا جس سے مجھ پر کچھ واجب ہو جائے”

جب عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ نے ابو موسٰی رضی اللہ عنہ کو بصرہ کا امیر بنا کر بھیجا تو ان کے ہاتھ اہلِ بصرہ کے نام یہ پیغام بھیجا ” میں نے ابو موسٰی کو آپ کا امیر مقرر کیا ہے جو تمہارے طاقتور سے تمہارے کمزور کیلئے لیں گے اور تمہارے ساتھ مل کر تمہارے دشمن سے جنگ کریں گے اور تمہارے فرض کو ادا کریں گے اور تمہاری غنیمت کو تمہارے لئے اکٹھا کریں گے پھر اُسے تمہارے درمیان تقسیم کریں گے”

سورت ۔ 3 ۔ آل عمران ۔ آیت 31 ، 32 ۔ (اے پیغمبر لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ بھی تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے ۔کہہ دو کہ اللہ اور اس کے رسول کا حکم مانو اگر نہ مانیں تو اللہ بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا
سورت ۔ 4 ۔ النسآء ۔ آیت 59 ۔ مومنو! اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحبِ حکومت ہیں ان کی بھی ۔ اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر اللہ اور روز آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اس میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا مآل بھی اچھا ہے
سورت ۔ 6 ۔ الانعام ۔ 164 ، 165 ۔ کہو کیا میں اللہ کے سوا اور پروردگار تلاش کروں اور وہی تو ہر چیز کا مالک ہے اور جو کوئی (بُرا) کام کرتا ہے تو اس کا ضرر اسی کو ہوتا ہے اور کوئی شخص کسی (کے گناہ) کا بوجھ نہیں اٹھائے گا پھر تم سب کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے تو جن جن باتوں میں تم اختلاف کیا کرتے تھے وہ تم کو بتائے گا ۔ اور وہی تو ہے جس نے زمین میں تم کو اپنا نائب بنایا اور ایک کے دوسرے پر درجے بلند کئے تاکہ جو کچھ اس نے تمہیں بخشا ہے اس میں تمہاری آزمائش ہے بےشک تمہارا پروردگار جلد عذاب دینے والا ہے اور بےشک وہ بخشنے والا مہربان بھی ہے

3 thoughts on “5.2۔رُکن اور ستُون

  1. Beenai

    جناب افتخار اجمل صاحب ،
    السلام وعلیکم ،
    اس عمدہ اور چشم کشا تحریر وتحقیق کا بہت بہت شکر یہ۔
    بندی کا علم ناقص ہے اور علم کی تلاش چار سو جاری ہے۔
    اللہ آپ کو اس کار خیر کا اجر دے۔ آمین
    بچپن میں ایمان ِ مجمل اور ایمان ِ مفصل پڑ ھا تھا ۔
    لیکن اس طر ح اسلام میں داخل ہونے کی اور اسلامی معاشرت کے ستون الگ الگ
    نہیں سمجھائے گئے تھے۔
    خاص کر یونیورسٹی میں داخلے اور ڈگر ی پاس کر نے کی مثال بہت خوب ہے۔
    مومن اور مسلمان کا کیا فرق ہے ؟ براہ کرم اس کی بھی وضاحت فرمایئے۔
    کہ ایک جگہ قرآن کریم میں فرما ن باری تعالی ہے:
    تم یہ نہ کہو کہ تم ایمان لے آئے ، تم یہ کہو کہ تم نے اسلام قبول کر لیا کیونکہ ایمان
    تو ابھی تمہارے سینوں میں داخل ہی نہیں ہوا ہے۔
    قَالَتِ الْأَعْرَابُ آمَنَّا قُلْ لَمْ تُؤْمِنُوا وَلَٰكِنْ قُولُوا أَسْلَمْنَا وَلَمَّا يَدْخُلِ الْإِيمَانُ فِي قُلُوبِكُمْ وَإِنْ تُطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ لَا يَلِتْكُمْ مِنْ أَعْمَالِكُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَحِيمٌ إِنَّمَا الْمُؤْمِنُونَ الَّذِينَ آمَنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ ثُمَّ لَمْ يَرْتَابُوا وَجَاهَدُوا بِأَمْوَالِهِمْ وَأَنْفُسِهِمْ فِي سَبِيلِ اللَّهِ أُولَٰئِكَ هُمُ الصَّادِقُونَ۔
    برا ہ کر م اس کی تشر یح فرما دیں ۔ شکریہ

  2. افتخار اجمل بھوپال Post author

    بینائی صاحبہ. و علیکم السلام و رحمۃ اللہ
    آپ نے اپنے سوال کا جواب تو خود ہی لکھ دیا ہے آیت کی صورت میں. اسلام قبول کر لینے والا مسلمان ہو جاتا ہے مگر بات یہاں ختم نہیں ہوتی. یہی لکھا ہے نا میں نے جس کے ثبوت کے طور پر آپ نے آیت لکھ دی. جب باقی چیزوں پر عمل کرے گا تو مؤمن بن جائے گا

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.