حقیقت وحی (ایک سائنسی تجزیہ)
از ڈاکٹر وھاج الدین احمد
پیش لفظ
میرے ایک مہربان دوست ڈاکٹر وھاج الدین احمد صاحب نے میری حوصلہ افزائی کرتے ہوئے اپنی ایک تحقیقاتی تحریر مجھے نظرِ ثانی کیلئے بھیجی ۔ گویا ایک عالِم نے ایک طالبعلم کو بھیجی ۔ یہ تحقیق جس پر بہت محنت کی گئی ہے ہر تعلیم یافتہ مسلمان کیلئے اہم معلومات مہیاء کرتی ہے اسلئے میں ڈاکٹر وھاج الدین احمد صاحب کی اجازت سے اسے اپنے بلاگ نقل کر رہا ہوں ۔ طوالت کے پیشِ نظر اسے معدد اقساط میں شائع کیا جائے گا
تعارف مصنّف
ڈاکٹر وھاج الدین احمد صاحب نے گورنمنٹ کالج لاہور سے بی ایس سی پاس کرنے کے بعد 1957ء میں کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج (اب یونیورسٹی) سے ایم بی بی ایس پاس کیا ۔ 1961ء میں برطانیہ گئے جہاں سے پوسٹ گریجوئیٹ کورس کرنے کے بعد 1969ء میں امریکہ روانہ ہوئے جہاں 1973ء میں نیورولوجی کا کورس مکمل کرنے کے بعد امریکہ میں بطور نیورولوجسٹ عملی زندگی کا آغاز کیا اور 2003ء میں ریٹائر ہوئے اور رالی ( نارتھ کیرولائنا) امریکہ میں رہائش ہے
ابتدائیہ:
سب سے پہلے میں یہ عرض کردوں کہ میں نہ تو عالِمِ دین ہوں نہ عالِمِ قرآن مگر اس مسئلہ پر قلم اٹھانے کی جراءت کر رہا ہوں اس کی چند وجوہ ہیں جن کا پہلے بیان کر دینا ضروری ہے
سائنسی لحاظ سے میں ‘عالموں’ میں شمار کیا جا سکتا ہوں ۔ میرا تعلق طِبّی سائنس سے ہے اور میں نے اعصابی امراض (نیورولوجی) میں مہارت حاصل کی ہے ۔ میں نے اس دوران ”ایپی لیپسی“ یعنی ”مرگی یا صرع“ جیسے مرض کے متعلق بہت کچھ پڑھا اور لکھا ہے ۔ چند برس پہلے میری نظر سے ایک مضمون گزرا جو ایک غیرمسلم ماہرِ اعصابی امراض نے لکھا تھا ۔ اس میں اس نے مرگی کے دوروں اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم کی ‘وحی’ میں ایک قسم کی مماثلت بیان کی تھی ۔ اسے پڑھ کر میں اور میری طرح کے کئی مسلمان ڈاکٹر چونک اٹھے ۔ میں نے میرے جیسے دیگر اعصابی امراض کے ماہرین (نیورالوجسٹ) ڈاکٹروں کی طرح اس مضمون کا بغور مطالعہ کیا تھا اور دیئے گئے مآخذ کی چھان بین کی ۔ پھر اسلامی کتب اور قرآن مجید کا مطالعہ شروع کیا جو ابھی تک جاری ہے ۔ میں زیادہ تر وحی اور قرآن کے متعلق ہی دیکھتا رہا ہوں
اس غیرمسلم ماہر اعصابی امراض پروفیسر کی تحریر کے جواب میں ایک مقالہ میں نے اسلامک میڈیکل ایسوسی ایشن آف نارتھ امریکہ ( ِامانا) کی ایک مجلس میں پڑھا جو بعد میں ان کے مجلّہ میں شائع ہوا ۔ اس تحریر کو ”وحی اور ایپیلیپسی“ کا عنوان دیا تھا ۔ اس مقالہ کی بھِنک ڈاکٹر حمید اللہ مرحوم کے کانوں میں پڑی تو ان (اس وقت بقید حیات تھے) کے فلاڈلفیا آفس سے ایک تحریر موصول ہوئی کہ ڈاکٹر صاحب موصوف مجھے اس بارے میں مزید تحریر کرنے کے متعلّق فرماتے ہیں ۔ میرا نام لئے بغیر انہوں نے اپنے ”خطباتِ بہاولپور“ میں اس مقالہ کا ذکر بھی کیا تھا
وقت گزرتا گیا اور میں قلم نہ اٹھا سکا ۔ اصل وجہ میری قلمی بے بضاعتی اور علمی کم مائگی تھی پھر یوں خیال پیدا ہوا کہ آخر کسی میرے جیسے ڈاکٹر کو ہی اس کے متعلّق لکھنا پڑے گا ۔ میرے تعلیمی اور طِبّی تجربات کی حیثیت ایسی ہے کہ میری ناقص رائے میں ایسے موضوع کے متعلّق میری تحریر کو ایک گونہ تقویت ضرور حاصل ہو جاتی ہے اور اس طرح گویا میرے قلمطراز ہونے کا جواز نکل آتا ہے ورنہ من آنم کہ من دانم ۔ میرے رفقاءکار اور احباب کی حوصلہ افزائی بھی میرے محرّکات میں شامل ہے
جتنی اُردو اور انگریزی تفاسیر اور وحی کے متعلق تحاریر میری نظر سے گذری ہیں ان میں آں حضور صلعم سے جو اس مرض کا لیبل جوڑاگیا ہے اس کی خاطر خواہ نفی نہیں کی گئی ۔ سبب یہ ہے کہ تمام لکھنے والے عام علماء ہیں جن سے اس مرض کی تفصیل کی توقّع نہیں کی جا سکتی اگرچہ وہ درست لکھتے ہیں کہ اس میں ایسے لکھنے والوں کا تعصّب شامل ہے ۔ تاہم سائنسی نظریہ سے اس کی نفی کرنے کے لئے ایک تحریر کی کمی محسوس ہوتی ہے البتہ مجھے غلط فہمی نہیں کہ میری تحریر کے بعد ایسے لکھنے والوں کے قلم رُک جائیں گے یا زبان بند ہو جائیگی
وحی کا ذکر قرآن کے تناظر میں
قرآن مجید میں وحی کا ذکر کم و بیش ۷۹ مرتبہ آیا ہے ان میں مختلف مفہوم ہیں مگر زیادہ تر جس مفہوم کو لیا جاتا ہے وہ ہم آیات سے سمجھنے کی کوشش کریں گے
وَمَا كَانَ لِبَشَرٍ اَنۡ يُّكَلِّمَہُ اللّٰہُ اِلَّا وَحۡيًا اَوۡ مِنۡ وَّرَآیٴِ حِجَابٍ اَوۡ يُرۡسِلَ رَسُوۡلًا فَيُوۡحِیَ بِاِذۡنِہٖ مَا يَشَآءُؕ اِنَّہٗ عَلِیٌّ حَكِيۡمٌ ﴿۵۱﴾ ” آیۃ ۵۱ سورۃ الشورٰی
ترجمہ ۔ کسی بشر کا یہ مقام نہیں کہ اللہ اس سے روبرو بات کرے۔ اس کی بات یا تو وحی (اشارہ) کے طور پر ہوتی ہے یا پردے کے پیچھے سے یا پھر وہ کوئی پیغامبر (فرشتہ) بھیجتا ہے اور وہ اس کے حکم سے جو کچھ وہ چاہتا ہے وحی کرتا ہے وہ برتر اور حکیم ہے ( اردو ترجمہ ۔ مولانا مودودی رحمہ اللہ)
اس آیت میں’ وحی’ کے طریقے ، اس کی ضرورت اور اس کی تعریف بیان فرمائی گئی ہے خالق و مخلوق کے درمیان پردہ ظاہر کیا گیا ہے اگرچہ اس ‘پردہ’ کے باوجود ربّ کریم نے انسان کے لئے رشد و ہدایت کا سلسلہ جاری رکھا ہے اور اس کے لئے ‘وحی’ کا طریقہ اختیار فرمایا ۔ چنانچہ اس آیت میں اللہ تبارک و تعالٰی نے تین طریقے بتائے ہیں
اوّلاً ۔ وحی یا اشارہ
ثانیاً ۔ پردے کے پیچھے سے مثلا” آواز کے ذریعہ
ثالثاً ۔ پیغامبر (فرشتہ یعنی جبریل علیہ السلام) کے ذریعے
مزید ‘طریقے’ بعد میں رقم کرتے ہیں ابھی مفہوم کو ذہن نشین کرناہے اور قرآنی آیات سے ہی کرنا ہے
اِنَّاۤ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلَيۡكَ كَمَاۤ اَوۡحَيۡنَاۤ اِلٰى نُوۡحٍ وَّالنَّبِيّٖنَ مِنۡۢ بَعۡدِہٖۚ وَاَوۡحَيۡنَاۤ اِلٰٓى اِبۡرٰھِيۡمَ وَاِسۡمٰعِيۡلَ وَاِسۡحٰقَ وَيَعۡقُوۡبَ وَالۡاَسۡبَاطِ وَعِيۡسٰی وَاَيُّوۡبَ وَيُوۡنُسَ وَھٰرُوۡنَ وَسُلَيۡمٰنَۚ وَاٰتَيۡنَا دَاوٗدَ زَبُوۡرًاۚ ﴿۱۶۳﴾” النّساء آیۃ ۱۶۳
ترجمہ ۔ تحقیق، ہم نے (اےمحمد) تمہاری طرف اسی طرح وحی بھیجی ہے جس طرح نوح اور ان سے پچھلے پیغمبروں کی طرف بھیجی تھی اور ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور اولادِ یعقوب اور عیسٰی اور ایّوب اور ہارون اور سلیمان کی طرف بھی وحی بھیجی تھی اور داؤد کو ہم نے زبور عنائت کی
اس آیت سے ان انسانوں کےنام ظاہر ہیں جنہیں اللہ تعالٰی نے بطور نبی چنا اور انہیں احکامات و ہدایات بھیجیں اور مزید اس میں ایک الہامی کتاب کا ذکر بھی کردیا ہے کہ یہ سب ‘وحی’ کا نتیجہ ہے ایسی وحی کو مولانا معین الدین خٹک رحمۃ اللہ علیہ ”تشریعی وحی“ کا نام دیتے ہیں
‘وحی کا لفظی مطلب’ ہے اشارہ سے بات کرنا یا بات پہنچانا یا خفیہ طریقہ سے دل میں بات ڈالنا یا القاء کرنا ، بات کئے بغیر پیغام پہنچا دینا ۔ یاد رہے کہ ہماری ساری بحث اس’تشریعی وحی’ سے ہی ہے اور عموماً ‘وحی’ کے لفظ کا یہی مطلب سمجھا جاتا ہے ۔ نبیوں کی طرف بھیجے جانے والے احکام یا ہدایات وغیرہ سارا قرآن کریم اسی وحی کا نتیجہ ہے اور چونکہ اس ‘وحی’ کی تلاوت کی جاتی ہے اس لئے علماء اس کو ‘وحی متلو’ کا نام دیتے ہیں علماء سمجھاتے ہیں کہ کچھ احادیث میں بھی ایک قسم کی ‘وحی’ یعنی اللہ کی طرف سے ہدایت ہوتی ہے تو اسے ‘وحی غیر متلو’ کہتے ہیں ۔ علماء کرام کی اس موضوع پر بحث دیکھنے کے لئے ان کی تحاریر ضرور ملاحظہ کریں
”سیرۃ النّبی“ میں مولانا شبلی نعمانی رحمۃ ا للہ فرماتے ہیں کہ قرآن مجید میں وحی کا لفظ اپنے مفہوم کے اندر تین معنوں میں آیا ہے لیکن ان متفرّق مفاہیم میں ایک مفہوم مُشترک ہے اور وہ یہ کہ ‘منہ سے لفظ نکالے بغیر ایک شخص کا دوسرے شخص کو مفہوم سمجھا دینا” یا اگر الفاظ ہوں تو اس قدر پوشیدہ ہوں کہ دوسرے انہیں سُن نہ سکیں یا سمجھ نہ سکیں اس لئے اشارہ کرنا، لکھنا ، دل میں بات ڈال دینا فطری حکم ، خط و کتابت اور جانوروں کا اپنی حرکات سے اپنا مطلب ظاہر کرنا سب ان معنوں میں شامل ہے
۱ – فطری حکم – مثلا” – ” وَاَوۡحٰی رَبُّكَ اِلَی النَّحۡلِ اَنِ اتَّخِذِیۡ مِنَ الۡجِبَالِ بُيُوۡتًا وَّمِنَ الشَّجَرِ وَمِمَّا يَعۡرِشُوۡنَۙ ﴿۶۸﴾
ترجمہ ۔ اور حکم دیا تیرے رب نے شہد کی مکّھی کو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی طرح اللہ کا حکم غیر جاندار چیزوں کی طرف بھی ہے وہ بھی اس کے حکم (وحی) میں داخل ہیں چنانچہ سورۃ ”الزلزلۃ“ میں زمین کو حکم دیا
“) بِأَنَّ رَبَّكَ أَوۡحَیٰ لَہَا (۵ ۔ ترجمہ ۔ کیونکہ تمھارے ربّ نے اسے حکم دیا ہوگا (یعنی زمین کو)
۲۔ دل میں بات ڈالنا ۔ وَاَوۡحَيۡنَاۤ اِلٰٓی اُمِّ مُوۡسٰٓی اَنۡ اَرۡضِعِيۡہِۚ فَاِذَا خِفۡتِ عَلَيۡہِ فَاَ لۡقِيۡہِ فِی الۡيَمِّ وَلَا تَخَافِیۡ وَلَا تَحۡزَنِیۡۚ اِنَّا رَآدُّوۡہُ اِلَيۡكِ وَجٰعِلُوۡہُ مِنَ الۡمُرۡسَلِيۡنَ ﴿۷﴾ سورہ قصص آیہ ۷ ۔ ۔ ۔ ترجمہ ۔ اور ہم نے موسےا کی ماں کو وحی بھیجی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اللہ تعالٰی دل میں بات ڈالنے کا اہتمام فرماتے ہیں ۔ یہاں حضرت موسٰی کی والدہ کی رہنمائی مقصود ہے اور ایسی ‘رہنمائی’ نبیوں کو بھی
دی گئی ہے جو ‘شرعی حکم’ کا درجہ نہیں رکھتی
” وَاَوۡحَيۡنَاۤ اِلٰی مُوۡسٰٓی اَنۡ اَلۡقِ عَصَاكَ ۚ فَاِذَا ہیَ تَلۡقَفُ مَا يَاۡفِكُوۡن (سورۃ الاعراف آیۃ ۱۱۷ )
ترجمہ ۔ اور ہم نے موسٰی کو حکم بھیجا(وحی کی) کہ دال دے اپنا عصا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ظاہر یہ یہ حکت’ تشریعی’ نہیں بلکہ حضرت موسٰی کی رہنمائی کے لئے ہے ۔ اس کے علاوہ چونکہ اللہ تعالٰی نے شیطان کو بھی یہ طاقت
عطا فرمائی ہے کہ وہ انسان کو گمراہ کرنے کے لئے استعمال کر سکتا ہے اسے بھی قرآن ‘وحی’ کہہ رہا ہے
۳۔ چپکے بات کرنا – ” ؕ وَ اِنَّ الشَّیٰطِیۡنَ لَیُوۡحُوۡنَ اِلیٓ اَوۡلِیٰٓئِہِمۡ لِیُجَادِلُوۡکُمۡ ۚ وَ اِنۡ اَطَعۡتُمُوۡہُمۡ اِنَّکُمۡ لَمُشۡرِکُوۡنَ ” الانعام آیۃ ۱۲۱
ترجمہ ۔ اور شیطان لوگ اپنے رفیقوں کے دل میں بات ڈالتے ہیں ۔ ۔ ۔
“ان تمام آیات کے مطالعہ سے وحی کا وسیع تر مفہوم ہمارے ذہن میں صاف ہو جاتا ہے ۔ اب ہم ‘وحی متلو’ یا تشریعی وحی کی طرف لوٹتے ہیں کہ یہ ہماری بحث کا نکتہ ارتکاز ہے
وحی کا طریقہ نزول اور اس کی ‘اقسام’
میں یہاں امام ابن القیّم الجوزیہ کی دی ہوئی اقسام بیان کر رہا ہوں ان کا میرے موضوع سے زیادہ تعلق ہے ۔ وہ چھ یا سات قسمیں لکھتے ہیں (سیرۃالنّبی- مولانا شبلی نعمانی رحمہ اللہ)
۱۔ رویائے صادقہ یا صالحہ – یعنی سچّے خواب
۲۔ نفث فی الرّوع یا القاء فی القلب یعنی دل میں بات ڈالنا یا پھُونکنا
۳۔ صلصلۃ الجرس یعنی گھنٹیوں جیسی آواز آنا
۴۔ تمثّل فرشتہ یعنی جبریل علیہ السلام کا کسی انسان کی صورت میں ظاہر ہونا
۵۔ فرشتہ کا اپنی اصلی فطری صورت میں ظاہر ہونا
۶- وہ طریقہ مکالمہ جو نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کو معراج کی شب پیش آیا
۷- بلا واسطہ مکالمہ
در اصل یہ “قسمیں” نہیں بلکہ وحی کی مختلف کیفیات ہیں اور ان کیفیات کے متعلق مجھے آگے چل کربہت کچھ کہنا ہے ۔ ان میں اکثر
قرآن مجید میں مذکور ہیں مگر کچھ احادیث صحیحہ سے لی گئ ہیں ۔ ان میں سے چند کا ذکر کچھ تفصیل طلب ہے:
رویائے صادقہ
صحیح بخاری میں باب بد ء الوحی حدیث نمبر ۳ امّ الموءمنین عائشہ رضی اللہ عنھا کی روایت ہے کہ :
ابتداء میں رسول اکرم صل اللہ علیہ وسلم پر وحی کا سلسلہ اچھّے خوابوں سے شروع ہوا ۔ آپ جو کچھ خواب میں دیکھتے تھے وہ اسی
طرح سپیدہء سحر کی طرح نمودار ہو جاتا تھا-۔ پھر آپ کو خلوّت نشینی محبوب ہو گئ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ”
قرآن مجید میں سورۃ صافّات میں حضرت ابراہیم و اسماعیل علیھم السلام کا مکالمہ ہے آیات ۱۰۲ تا ۱۰۴
فَلَمَّا بَلَغَ مَعَہُ ٱلسَّعۡیَ قَالَ يَـٰبُنَیَّ إِنِّیٓ أَرَیٰ فِى ٱلۡمَنَامِ أَنِّیٓ أَذۡبَحُكَ فَٱنظُرۡ مَاذَا تَرَیٰۚ قَالَ يَـٰٓأَبَتِ ٱفۡعَلۡ مَا تُؤۡمَرُو سَتَجِدُنِیٓ إِن شَآءَ ٱللَّہُ مِنَ ٱلصَّـٰبِرِينَ (١٠٢) فَلَمَّآ أَسۡلَمَا وَتَلَّہُ ۥ لِلۡجَبِينِ (١٠٣) وَنَـٰدَيۡنَٰہُ أَن يَـٰٓإِبۡرَٲھِیمُ (١٠٤) قَدۡ صَدَّقۡتَ ٱلرُّءۡيَآۚ إِنَّا كَذَٲلِكَ نَجۡزِى ٱلۡمُحۡسِنِينَ ”
ترجمہ ۔ جب وہ ان کے ساتھ دوڑنے (کی عمر) کو پہنچا تو (ابراہیم نے) کہا بیٹا میں خواب میں دیکھتا ہوں کہ (گویا) تم کو ذبح کر رہا ہوں تو تم سوچو کہ تمہارا کیا خیال ہے؟ انہوں نے کہا کہ ابا جو آپ کو حکم ہوا ہے وہی کیجئے، خدا نے چاہا تو آپ مجھے صابروں میں پائیے گا ۔ جب دونوں نے حکم مان لیا اور باپ نے بیٹے کو ماتھے کے بل لٹا دیا ۔ تو ہم نے ان کو پکارا کہ اے ابراہیم!
یہاں صاف ظاہر ہے کہ باپ بیٹا دونوں نبی تھے اور دونوں کو بخوبی معلوم تھا کہ نبی کا خواب سچّا ہوتا ہے اس “مکالمہ” میں ظاہر ہے
کہ یہ اللہ کا ‘حکم’ ہے اوراس پر دونوں کو بدرجہ اتّم یقین حاصل تھا چنانچہ اس حکم کو بجا لانے میں دونوں کسی ہچکچاہٹ کا اظہار
نہیں کرتے تو اللہ تعالے اس کے اجر کا ذکر کرتے ہیں۔
القاء فی القلب
سورۃالبقرۃ ۔ آیۃ نمبر ۹۷ قُلْ مَنۡ کَانَ عَدُوًّا لِّجِبۡرِیۡلَ فَاِنَّہٗ نَزَّلَہٗ عَلٰی قَلۡبِکَ بِاِذۡنِ اللّٰہِ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیۡنَ یَدَیۡہِ وَ ہُدًی وَّ بُشۡرٰی لِلۡمُؤۡمِنِیۡنَ
ترجمہ ۔ کہہ دو کہ جو شخص جبرئیل کا دشمن ہو (اس کو غصے میں مرجانا چاہئے) اس نے تو (یہ کتاب) خدا کے حکم سے تمہارے دل پر نازل کی ہے جو پہلی کتابوں کی تصدیق کرتی ہے اور ایمان والوں کے لیے ہدایت اور بشارت ہے
اسی طرح سورہ شعراء میں ہے کہ: ۰ وَإِنَّہُ ۥ لَتَنزِيلُ رَبِّ ٱلۡعَـٰلَمِينَ (١٩٢) نَزَلَ بِہِ ٱلرُّوحُ ٱلۡأَمِينُ (١٩٣) عَلَیٰ قَلۡبِكَ لِتَكُونَ مِنَ ٱلۡمُنذِرِينَ (١٩٤)
“اور یہ (قرآن) ہے اتارا ہوا پروردگار عالم کا ۔ لے کے اُترا ہے اس کو امانتدار فرشتہ تیرے دل پر کہ تو ہو ڈر سنانے والا
یہاں قرآن مجید جبریل علیہ السلام کا لقب استعمال کر رہا ہے ”روح امین“ جیسا کہ پہلے”الشوریٰ“ والی آیت میں بتایا گیا ہے کہ یہ جبریل امین کی ذمّہ داری ہے جس کے لئے مختلف طریقوں سے پیغام رسانی کا فریضہ انجام دیتے ہیں ۔ دل میں بات ڈالنا اللہ کی طرف سے ہے ۔ روبرو گفتگو بھی ہے انسانی شکل میں اور اپنی اصلی شکل میں بھی
فرشتہ (جبریل علیہ السلام) کا ا پنی اصلی ملکی صورت میں ظاہر ہونا
سورۃ نجم اور سورۃ تکویر کی جن آیات میں اس کا ذکر ہے وہ بعد میں انشاء اللہ زیر تحریر لائوں گا کہ ان کی تفصیل سائنسی معلومات سے تعلق رکھتی ہے
قرآن کریم کا اپنا اسلوب ہے کہ واقعات میں سے صرف بقدر ضرورت ہی بیان کرےگا اسلئے نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کی کیفیات وغیرہ نہیں بیان کرتا ۔ ان کیفیات کا بیان میرے موضوع مخصوص کے لئے ضروری ہے
قارئین کرام ایک بات ذہن میں رکھیئے کہ وحی کی کیفیات کے متعلق ہمیں صرف آخری نبی صل اللہ علیہ وسلم کے بیان سے ہی معلوم ہو
سکتا ہے ۔ پرانی الہامی کُتب میں اس کا ذکر نہیں ہے اسلئے لا محالہ ہمیں احادیث نبوی کی طرف ہی رجوع کرنا ہوگا ۔ وہی ہماری تمام تر
معلومات کا منبع ہیں یہاں صرف صحیح احادیث پیش کروں گا
صلصلۃ الجرس (گھنٹیوں جیسی آواز کا آنا)
امّ المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے بیان کیا ہے (صحیح بخاری باب بدءالوحی= حدیث نمبر ۲) کہ: حارث بن ھشام رضی اللہ
عنہ نے رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ“یا رسول اللہ آپ پر وحی کیسے آتی ہے؟ “
آپ نے فرمایا ”کبھی تو میرے پاس گھنٹی کی آواز کی طرح آتی ہے اور یہ انداز وحی مجھ پر سب سے زیادہ شاق گذرتا ہے اور جب یہ
کیفیت ختم ہو جاتی ہے تو میں اسے (وحی کو) محفوظ کر چکا ہوتا ہوں اور کبھی ایسا ہوتا ہے کہ فرشتہ انسان کی شکل میں مجھ سے
گفتگو کرتا ہے تو میں اس کے کلمات محفوظ کر لیتا ہوں“۔
ام المومنین عائشہ بیان کرتی ہیں کہ ”میں نے سخت سردی کے دن آپ کو نزول وحی کے دوران دیکھا کہ وحی کی کیفیت ختم ہونے پر آپ
کی پیشانی پسینے سے شرابور ہوتی“۔
اس حدیث میں دو طریقے بیان ہوئے ہیں ”گھنٹیوں جیسی آواز“ صرف وہی سمجھ سکتا ہے جسے ایسا تجربہ ہوا ہو تو ہم اس کو نہیں سمجھ
سکتے کہ اس آواز میں پوشیدہ آیات کا نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کیسے احاطہ کر کیتے تھے
دوسرا طریقہ: تمثّل (یعنی فرشتہ کا انسان کی شکل میں آنا)
ایک صحیح حدیث جو “حدیثِ جبریل” کے نام سے مشہور ہے اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی بیان کی ہے (صحیح مسلم)
اور حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے بھی (صحیح بخاری- تجرید کتابخانہ اشاعت الاسلام-دہلی) اس کا ضروری حصہ یوں ہے:
حدیث نمبر ۴۷ صفہ ۲۷ ۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا بیان ہے ایک روز رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلّم صحابہ کے جھرمٹ میں تشریف فرما تھے اتنے میں ایک شخص حضور انور صل اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آپ سے عرض کیا یا رسول اللہ ایمان کسے کہتے ہیں حضور نے فرمایا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ یہ سن کر چلا گیا ۔ حضور انور نے فرمایا ”اس کو واپس بلاؤ“۔ جب اس کی تلاش کی گئ تو وہاں کوئی بھی نہ تھا
آپ صل اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”یہ جبریل علیہ السلام تھے جو لوگوں کو ان کا دین بتانے آئے تھے“۔
اسی طرح ایک روایت امّ المومنین امّ سلمہ رضی اللہ عنھا کے متعلق ہے ( صحیح مسلم-کتاب فضائل صحابہ حدیث نمبر ۶۰۰۶)
سلمان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں ”مجھے بتایا گیا ہے کہ جبریل علیہ السلام رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے ان کے قریب امّ سلمہ
تھیں اور وہ گفتگو کرنے لگے پھر وہ چلے گئے تو رسول اللہ نے امّ سلمہ سے پوچھا کیا تم جانتی ہو یہ کون تھے؟ انھوں نے جواب دیا یہ دحیہ کلبی(رضی اللہ عنہ) تھے اور ام سلمہ فرماتی ہیں کہ قسم اللہ کی میں نے انہیں دحیہ کلبی کے سوا اور کوئی نہیں سمجھا تھا جب تک کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے بتایا کہ ‘جبریل ابھی مجھے بتا کر گئے ہیں۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ “۔ یہ بات عام علم میں ہے کہ جبریل اکثر دحیہ کلبی (صحابی) کی شکل میں ہی آپ صل اللہ علیہ وسلم کے پاس وحی لایا کرتے تھے
دوران وحی رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی کیفیات
قارئین کرام۔ میری حتّی الوسع کوشش یہ تھی کہ صرف قرآن مجید کی آیات سے ہی یہ ثابت کروں کہ آں حضور صل اللہ علیہ وسلم کو مرض صرع
یعنی ایپی لیپسی نہیں تھی اور انشا اللہ یہی مندرجہ ذیل تحریر میں آپ موجود پائیں گے لیکن ”کیفیات“ کے لئے احادیث ضروری ہیں کہ ان
بیانات سے کیا کوئی مرض ظاہر ہوتا ہے؟ صرف صحیح احادیث ہی لی ہیں غریب یا ضعیف احادیث کا ذکر بعد میں کروں گا۔ مذکورہ بالا
تحریر میں کچھ کیفیات لکھ چکا ہوں مثلا گھنٹی جیسی آواز یا چہرے پہ پسینہ ۔ مزید کیفیات صحیح احادیث میں یوں مذکور ہیں:
۱۔” چہرے کا رنگ بدل جاتا یا سرخ ہو جاتا” {(یعلٰی بن امیّہ رضی اللہ کا بیان)
۲۔ “جسم مبارک بہت بوجھل ہو جاتا” ( زید بن ثابت رضی اللہ کا بیان جب نزول وحی کے وقت رسول اللہ کا سرزید کی ٹانگ پر تھا)
۳۔ صحابہ کرام کے ساتھ بیٹھے ہوئے وحی کا نزول ہوا تو “آپ صل اللہ علیہ وسلم خاموش ہو گئے اور سر جھکا لیا اور صحابہ کرام بھی سر جھکائے خاموش بیٹھے رہے جب تک کہ وحی کا نزول ختم ہوا اور آپ نے سر اٹھایا (صحیح مسلم میں روایت بیان کی گئی ہے)
ان میں کہیں یہ ذکر نہیں آیا کہ آپ صل اللہ علیہ وسلم کبھی بےہوش ہوئے ۔ وحی کا مزید تجزیہ بعد میں آئے گا پہلے اس ”مرگی“ کے سوال سے نپٹ لیا جائے
وحی اور صرع یا مرگی یا ایپی لیپسی (Epilepsy)
غیر مسلم طبقہ میں صدیوں سے یہ افواہ مشہور ہے کہ محمد صل اللہ علیہ وسلم کو مرگی کا مرض لاحق تھا گو اس کے متعلق کوئی ٹھوس ثبوت یا ایسی کوئی بات کہیں موجود نہیں آپ صل اللہ علیہ وسلم کے وقت میں مرگی کے مرض کے متعلق معلومات موجود تھیں مگر تمام سیرۃ اور مغازی لکھنے والوں نے کہیں اس کا ذکر نہیں کیا گو مشرکین ان پر مختلف لیبل لگاتے جیسے ”دیوانگی“ ”باؤلا پن“ یا ”آسیب زدگی“ وغیرہ اور ان لیبلوں کی تردید بھی کی گئی ہے ۔ ”مرگی“ کی یہ بے بنیاد افواہ کب اور کیسے شروع ہوئی اس کی تفصیل یا وجوہات کو نظر انداز کر رہا ہوں کہ وہ ایک علیحدہ سُرخی بن جاتی ہے مگر اس میں کوئی شک نہیں کہ لکھنے والے مستشرقین یا دیگر غیر مسلم مصنّفین تعصب کا شکار تھے ۔ مسلم علماء اور سیرت نگاروں نے اس بات کی ٹھیک نشاندہی کی ہے اورمعاملہ اسی تعصب کے بیان تک رہا ہے جو میرے ناقص خیال میں ناکافی ہے اپنے تعلیمی پس منظر کو مدّ نظر رکھتے ہوئے میں یہاں ”طِبّی علوم“ یعنی میڈیکل سائنس کی روشنی میں چند حقائق بیان کروں تو بیجا نہ ہوگا گو مجھے خوب معلوم ہے کہ میرےدلائل سے متعصّبین اور مخالفین کے قلم یا زبان کو لگام نہیں دی جا سکتی لیکن آپ کے ہاتھ میں وہ دلائل آجائیں گے کہ آپ کہیں بھی اطمینان سے عقلی طور پر بات کر سکیں گے
دورہ اور اس کی علامات
مرگی کے کچھ دورے ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں مریض ہوش و حواس مکمل طور پر نہیں کھوتا چہرہ کا تاثّر بدل جاتا ہے مگر مریض بات سن سکتا ہے اور بول بھی سکتا ہے اگرچہ وہ بے مطلب یا بے مقصد سی بات ہوتی ہے ۔ ایسے دوروں کو انگریزی میں ٹمپورل لوب اٹیک (Temporal Lobe attack or Epilepsy or TLE) کہتے ہیں اگر شدّت ہو یا تشنّج ہو تو پسینہ بھی آجاتا ہے (سارے جسم پر) ۔ دورہ کسی قسم کا ہو اس میں اکثر بول پر قابو نہیں رہتا۔ ان تمام باتوں کے باوجود مریض کو ہوش میں آنے پر کچھ یاد نہیں رہتا کہ اس دوران اس نے کیا سنا کیا دیکھا یا کیا کہا
اب دیکھئے کہ ‘وحی’ کی کیفیات میں کیسی سطحی سی مماثلت ہے وہ بھی ذرا سا پسینہ ہے جو سب وحیوں میں نہیں پایا جاتا۔ باقی رہا
فرشتہ کا نظر آنا اور اس کی باتیں سننا اور پھر اس کو حرف بحرف سنانا یہ تمام باتیں ”مرگی“ کے دوروں کے عین مخالف ہیں ۔ مزید یہ کہ
مرگی کے دورے کی سب سے قوی علامت ہے کہ مریض دورہ کے سب واقعات اور باتیں بھول جاتا ہے یہ ایسی علامت ہے کہ اگر
مریض بیان کرے کہ اس نے یہ سنا ہے تو مرگی کے دورے کی تشخیص ہی سخت مشکوک ہو جاتی ہے
وحی کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے نہ صرف یہ کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم لمبی بھی اور مختصر سورتیں بھی حیران کن طور پر حرف بحرف سناتے تھے بلکہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو املا بھی کراتے
مزید یہ کہ قرآن کریم کی آیات تو حسبِ ضرورت یا موقع محل کے مطابق اُترتی رہیں ۔ ان کی ترتیب وہ نہیں تھی جو آج ہم قرآن کریم کی صورت میں دیکھتے ہیں ۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم یہ بھی یہ بھی ھدائت فرماتے کہ اسے فلاں سورۃ کے تحت فلاں آیۃ کے بعد اور فلاں آیۃ سے قبل لکھا جائے
ایسا جامع اور متسلسل کلام جو ۲۳ برس تک مختلف اوقات میں نازل ہوتا رہا جس میں انسان کی ہدایت کے لئے احکامات، اوامر و نواہی کا ایک جامع دین مکمل ہوا ۔ اور یہ حقیقت ایسی ظاہر اور روشن ہے کہ جس میں کوئی کلام نہیں اور یہ حقیقت کسی قسم کے مرض یا دورہ یا بیماری سے قطعی طور پر ممیّز کرتی ہے ۔ ایسی سطحی مماثلت کو دیکھ کر کوئی ذی فہم شخص مرگی کا ذکرکرنا بھی درست نہیں سمجھ سکتا
ایک غریب حدیث
اب اس سوال کاجواب کہ آں حضور صل اللہ علیہ وسلم کو مرگی تھی یا نہیں کا جواب صرف ایک ہی پُختہ اور قطعی نفی میں ہوگا ۔ میں اس کے لئے احادیث کے بیان کی ضرورت محسوس نہیں کرتا ۔ ایک غریب حدیث کے متعلق ذرا تنقیدی کلام کرنا چاہتا ہوں ۔ اگرچہ دوران وحی بےہوش ہو کر گرنے کی کوئی حدیث نہیں ہے مگر اس حدیث پہ مجھے سخت اعتراض ہے کہ ابھی تک کیوں یہ اسلامی کتب میں موجود ہے ؟
سورۃ نجم کی تفسیر کے بیان میں ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ متعدّد احادیث کے حوالے دیتے ہیں ۔ آیۃ نمبر ۷ کی تفسیر میں ایک حدیث کا ذکر کرتے ہیں”۔ ۔ ۔ جبریل کو ان کی اصلی صورت میں دیکھا (حضور انور نے) تو ہیبت سے بے ہوش کر گر پڑے ۔ پھر وہ (جبریل امین) نیچے آئے اورآں حضرت صل اللہ علیہ وسلم کو ہوش میں لائے اور منہ سے جھاگ پونچھی۔ ۔ ۔”
ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ علم حدیث کے بادشاہ سمجھے جاتے ہیں وہ اس حدیث کو ”غریب“ کہتے ہیں اور مجھے ان سے پورا اتّفاق ہے ۔ مزید غور کریں تو ظاہر ہوتا ہے کہ یہ کہنے والے صحابی ایسے دوروں سے لا علمی کی وجہ سے معصومیت میں انسانی اندازے کے مطابق کہہ گئے ہیں انہون نے منہ سے جھاگ والا دورہ دیکھا ہوگا یا اس کے بارے میں سُنا ہوگا لیکن در اصل ایسا کچھ بھی نہیں ہوا ۔ اتنا ضرور ہے کہ آں حضور صل اللہ علیہ وسلم جبریل امین کی اصلی صورت دیکھ کر ہیبت زدہ ہو گئے تھے اور گھر جاکر کہا ”مجھے اڑھاؤ مجھے اڑھاؤ“۔ (دوسری حدیث ہے ۔ ذرا آگے چل کر اس کے متعلق تحریر کروں گا) فی الحال یہ کہنا چاہتا ہوں کہ ایسی بات اسلامی کتب میں جب ایک مستشرق یا متعصّب غیر مسلم پڑھتا ہے تو اس کو وہ مواد میسّر آجاتا ہے جس کی بنا پر وہ مزید اس میں اپنی رائے شامل کر کے بات کہیں سے کہیں لے جاتا ہے ۔ آج کے زمانے میں جب ایک بے ہوش مریض کے منہ سے جھاگ دیکھی جاتی ہے تو اس کا مطلب ”مرگی“ کی بے ہوشی ہوتا ہے جب تک کہ کوئی اور علامت ”مرگی“ کی تشخیص کے خلاف نہ مل جائے ۔ مستشرقین اور متعصّبین تو ایسے مواقع کی تلاش میں رہتے ہیں جو انہیں ”غریب“ یا ”ضعیف“ احادیث مہیّا کرتی ہیں ۔ ہمارے لئے مشکل یہ ہے کہ ایسی حدیث کو ضعیف یا غریب کہہ دینے سے بات ختم نہیں ہوتی
مندرجہ بالا کے مقابلہ میں ”صحیح حدیث“ یوں ہے:
حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے فترۃ الوحی (وحی کا وقفہ) کا حال یوں بیان فرمایا تھا کہ ”ایک بار میں کہیں جارہا تھا ۔ اچانک میں نے آسمان سے ایک آواز سنی ۔ نظر اٹھا کر دیکھا تو وہی فرشتہ جو غار میں میرے پاس آیا تھا زمین اور آسمان کے درمیان ایک کرسی پر بیٹھا ہے ۔ میں اس منظر سے پھر دھشت زدہ ہوگیا ۔ واپس ہو کے گھر والوں سے کہا ‘مجھے کپڑا (یا کمبل) اڑھاؤ مجھے کپڑا اڑھاؤ’۔ اس وقت اللہ تعالےا نے یہ آیات نازل فرمائیں
:
یٰۤاَیُّہَا الۡمُدَّثِّرُ ۙ﴿۱﴾ قُمۡ فَاَنۡذِرۡ ۪ۙ﴿۲﴾ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وَ لِرَبِّکَ فَاصۡبِرۡ ؕ﴿۷﴾
ترجمہ ۔ اے اوڑھ لپیٹ کر لیٹنے والے اُٹھو اور خبردار کرو ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اپنے رب کی خاطر صبر کرو (اس کے بعد وحی تیزی سے آنے لگی)
دونوں احادیث واقعہ فترۃ الوحی اور رویت جبریل علیہ السلام کے متعلق ہیں ۔ سورہ نجم کی متعلقہ آیات کی بحث میں مزید ذکر کروں گا
سورہ نجم اور ‘وحی’ کا مزید بیان
قارئین کرام ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ‘وحی’ سے متعلّقہ آیات کئی صورتوں میں بلحاظ موقعہ وارد ہوئی ہیں لیکن ایک سورۃ ”النّجم“ میں وحی کی تمام خصوصیات جمع کر دی گئی ہیں ۔ اس وجہ سے اسکی آیات کو بنیاد بنا کر پھر دوسری آیات کا حوالہ دوں گا ۔ اس کی تفصیل سے از خود ظاہر ہو جائےگا کہ میں ایسا کیوں کر رہا ہوں
اب آپ سے ذرا تحمّل کی درخواست کر رہا ہوں ۔ میں اپنے موضوع کو چھوڑ نہیں رہا ہوں بلکہ اس کی تفصیل اور پس منظر پر روشنی ڈال رہا ہوں کہ یہ ضروری ہے:
سورہ نجم کا زمانہء نزول:
سورۃ نجم کی مختلف خصوصیات میں سے چند کا ذکر ہمارے موضوع مخصوص سے گہرا تعلق رکھتا ہے ۔ اوّل ترین ”زمانہء نزول“ ہے مختصراً میں تین اقوال پیش کررہا ہوں:
۱۔ تفہیم القرآن (مولانا مودودی رحمۃاللہ علیہ) جلد پنجم ۔ صفحہ ۔ ۱۸۹ ۔ اس طرح یہ بات قریب قریب یقینی طور پر معلوم ہو جاتی ہے کہ یہ سورت رمضان سنہ ۵ نبوی میں نازل ہوئی ہے
۲۔ ضیاء القرآن (پیر کرم شاہ رحمۃاللہ علیہ ۔ ایم اے) ۔ جلد پنجم ۔ صفحہ ۲۸۰۰ ۔ اس لئے وہ روایت اس قابل نہیں کہ اس پر اعتماد کرتے ہوئےسورۃ نجم کے نزول کے لئے نبوّت کا پانچواں سال معیّن کیا جائے
۳ ۔ علّا مہ اسد رحمۃ اللہ علیہ انگریزی میں فرماتے ہیں
It is generally assumed that this is comparatively early Maccan Surah, revealed shortly after S. 112. However, some parts of it undoubtedly belong to a later period – especially verses 13-18, which include the prophet’s experience of ascension to Heaven (mi’raj) about one year before his exodus to Medina.
ترجمہ ۔ عموما یہ تسلیم کیا جاتا ہے کہ یہ مکّہ کی شروع شروع کی سورتوں میں سے ہے سورہ نمبر ۱۱۲ کے جلد ہی بعد نازل کی گئ تاہم اس کا کچھ حصہ بعد کے وقت میں نازل ہئوا خصوصل” آیات نمبر ۱۳ سے ۱۸ تک ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔”
محترمی جس روایت کا ذکر کر رہے ہیں وہ تفہیم القران میں مختصرا” یوں ہے:
ابن سعد کا بیان ہے کہ اس سے پہلے رجب سنہ ۵ نبوی میں صحابہءکرام کی ایک مختصر سی جماعت حبش کی طرف ہجرت کر چکی تھی پھر جب اسی سال رمضان میں یہ واقعہ پیش آیا کہ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم نے قریش کے مجمع عام میں سورہ نجم کی تلاوت فرمائی اور کافر و مومن سب آپ کے ساتھ سجدہ میں گر گئے تو حبش کے مہاجرین تک یہ قصّہ اس شکل میں پہنچا کہ کفّار مسلمان ہوگئے ہیں ۔ اس خبر کو سن کر ان میں سے کچھ لوگ شوّال سنہ ۵ نبوی میں مکّہ واپس آگئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ‘
ضیاالقران میں پیر کرم شاہ ان صحابہ کے واپس آنے کی دوسری وجہ بتاتے ہیں کہ حضرت حمزہ اور حضرت عمر ابن الخطّاب رضی اللہ تعالٰی عنہما کے اسلام لانے سے اسلام کو ایک گونہ تقویت حاصل ہو گئی تھی اس لئے انہوں نے واپس آ نے کا فیصلہ کیا اور پھر یقین کے ساتھ لکھتے ہیں کہ یہ سورۃ معراج نبوی کے بعد نازل ہوئی اور اس کی دلیل وہی آیات ۱۳-۱۸ بتاتے ہیں
اس کے باوجود مندرجہ ذیل باتوں میں سب (مع محترم پیر کرم شاہ) بلا اختلاف متّفق ہیں کہ:
۱۔ یہ پہلی سجدہ والی سورت ہے (روایت ابن مسعود صحیحین میں)
۲۔ رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم ۔ یہ سورۃ آپ صل اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں اور مشرکوں کے مجمع میں تلاوت فرمائی اور مشرکین نے بھی آپ کے ساتھ سجدہ کیا
مجھےعلّامہ اسدرح کا مؤقف قابل ترجیح معلوم ہوتا ہے ۔ مولانا مودودیرح نے غالبا سہوا معراج والی آیات کے متعلق نہیں لکھا کہ یہ آیات اس سورۃ میں بعد میں ملائی گئی ہیں( واللہ اعلم)
دوسرے نامور مفسّرین اس بحث میں نہیں پڑتے جیسے ابن کثیر، یا مولانا محمد شفیع (معارف القران) اور نہ علّامہ شبّیر احمد عثمانی (تفسیر عثمانی)
سورۃ کی دیگر خصوصیات کے لئے دوسری تفاسیر
سورہ نجم (اردو ترجمہ مولانا مودودی رحمۃ اللہ علیہ
بسم اللہ الرحمن الرحیم
۱۔ وَالنَّجْمِ إِذَا ہَوَیٰ ۔ ﴿قسم ہے تارے کی جب وہ غروب ہوا)
۲۔ مَا ضَلَّ صَاحِبُكُمْ وَمَا غَوَیٰ ۔ (تمھارا رفیق نہ بھٹکا ہے نہ بہکا ہے)
۳۔ وَمَا يَنطِقُ عَنِ الْہَوَیٰ ۔ (وہ اپنی خواہش سے نہیں بولتا)
۴ ۔ إِنْ ہُوَ إِلَّا وَحْيٌ يُوحَیٰ ۔ ﴿یہ تو ایک وحی ہے جو اس پر نازل کی جاتی ہے)
والنّجم کا مطلب: عموما اس کا مطلب ستارہ ہی لیا جاتا ہے اس کے علاوہ عربی ڈکشنری میں اور بھی مطالب لکھے ہیں مثلا ظاہر ہونا یا نظر میں آنا یا شروع ہونا یا ابتداء یا طلوع ہونا اور غروب ہونا بھی ۔ نتیجہ میں ظاہر ہونا
قسطوں میں ادائیگی (علّامہ اسد قسط والا مطلب استعمال کرتے ہیں) ۔ قارئین کو ان کی انگریزی تفسیر دیکھنے کیلئے مجبور تو نہیں کر سکتا مگر مجھے ان کی تفسیر اس سلسہ میں بہت پسند ہے
اسی طرح ھوٰی کے معنی جھکا یا اتر آیا یا نیچے آیا یا نازل ہوا
جو بھی مطلب لگائیں عبارت ظاہر کرتی ہے کہ وحی اُوپر سے آتی ہے اللہ کی طرف سے ہے
ضلّ اور غوٰی کے مطالب-: اور مکّی سورتوں کی طرح یہاں بھی آیات توحید کے پرچار اور رسالت کے معانی اور ثبوت پیش کرنے کے لئے نازل ہو رہی تھیں ۔ سورہ نجم کی ابتدائی آیات کا اصل مضمون رسول اللہ صل اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور آپ کی وحی میں شبہات نکالنےوالوں کا جواب ہے (معارف القران)
مشرکین جو رسالت کے انکاری تھے محمد صل اللہ علیہ وسلم پر طرح طرح کے لیبل لگا رہے تھے جیسے ‘گمراہ ہوگیا ہے’ یا ‘ آسیب زدہ ہے’ یا ‘دیوانگی کا اثر ہے’ وغیرہ ۔ ان کے ردّ میں یہ دونوں الفاظ ضلّ اور غوٰی استعمال ہو رہے ہیں لیکن ان کے عام فہم معانی کے ساتھ ساتھ بہت
مزید (سائنسی) معنویت کے حامل بھی ہیں ۔ اس لئے ان کی تفصیل میں جانا ضروری ہے
سیدھا سادھا سامطلب ”ضلّ“ کا یہ ہے کہ راستہ کی کماحقّہ واقفیت نہ ہونے کی وجہ سے سیدھے راستے سے ہٹنا(تفہیم)
غوٰی کا مطلب بھی یہی ہے مگر کسی اور وجہ سے نہ پہچان سکنا یعنی سیدھا راستہ جانتے ہوئے دھوکہ کھا جانا بھی ہے
اکثر مفسّرین ”ستارہ کی قسم“ کی وجہ یہی لکھتے ہیں اور پھر اگلی آیات کے ساتھ اس کا تعلّق بیان کرتے ہیں مگر میں صرف تفہیم القرآن سے اقتباس درج کر رہا ہوں کیوں کہ مولانا مودودیرح کی تشریح میرے موضوع کے لئے موزوں ہے (اور یہی وجہ سورۃ نجم کی آیات کی تفصیل میں جانے کی ہے)
“یہ ہے وہ اصل بات جس پر غروب ہونے والے تارے یا تاروں کی قسم کھائی گئ ہے۔ بھٹکنے (ضلّ) سے مراد ہے کسی شخص کا راستہ نہ جاننے کی وجہ سے کسی غلط راستے پر چل پڑنا اور بہکنے (غوٰی) سے ہے کسی شخص کا جان بوجھ کر غلط راستہ اختیار کر لینا ۔ ارشاد الٰہی کا مطلب یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم جو تمہارے جانے پہچانے آدمی ہیں ان پر تم لوگوں کا یہ الزام بالکل غلط ہے کہ وہ گمراہ یا بدراہ ہوگئے ہیں در حقیقت وہ نہ بھٹکے ہیں نہ بہکے ہیں ۔ اس بات پر تاروں کے غروب ہونے کی قسم جس مناسبت سے کھائی گئی ہے وہ یہ ہے کہ رات کی تاریکی میں جب تارے نکلے ہوئے ہوں ایک شخص اپنے گردو پیش کی اشیاء کو صاف نہیں دیکھ سکتا اور دھندلی شکلیں دیکھ کر غلط اندازے کر سکتا ہے مثلاً اندھیرے میں دور سے کسی درخت کو دیکھ کر بھوت سمجھ سکتا ہے ۔ کوئی رسّی پڑی دیکھ کر اسے سانپ سمجھ سکتا ہے ۔ وغیرہ
اس قسم کے “دھوکہ” کو انگریزی میں Delusion کہتے ہیں چنانچہ انگریزی ترجمہ لکھنے والے غوٰی کا ترجمہ Deluded ہی کرتے ہیں جو اردو میں بہکا ہوا یا دھوکہ کھایا ہوا ہوگا اور اس کی بہترین مثال اوپر ”سانپ اور رسّی“ والی نہایت موزوں ہے ڈاکٹروں کے لئے اور خصوصاً نیورالوجسٹ یا سائیکیٹرسٹ کے لئے اس میں بہت گہرے معنی ہیں اور یہ قرآن کریم کی نہایت موزوں ‘تمہید’ ہے کیونکہ آگے جاکر فرشتہ کی اصلی صورت دیکھنے پر اس کا اطلاق ہو رہا ہے
اسکے بعد ”صاحبکم“ یعنی ”تمھارا رفیق“ بھی وسیع معنوں میں استعمال ہوا ہے مثلاً معارف القران میں ہے:
”۔ ۔ ۔ کوئی اجنبی شخص نہیں جن کے صدق و کذب میں تمھیں اشتباہ رہے بلکہ وہ تمھارے ہر وقت کے ساتھی ہیں تمھارے وطن میں پیدا ہوئے یہیں بچپن گزرا یہیں جوان ہوئے ۔ ۔ ۔ ۔ انہوں نے کبھی جھوٹ نہیں بولا ۔ ۔ ۔ ان کے اخلاق و عادات ان کی امانت و دیانت سے اور ان کی ذہانت سے بھی خوب واقف ہو“
“وما ینطق عن الھوٰی“ اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا یعنی یہ اس کے اپنے الفاظ یا اس (نبی صلی اللہ علیہ وسلم) کے اپنے خیالات نہیں
ہیں یہ ”وحی“ کی بنیادی اور حقیقی تعریف ہے اس کی بہترین مثال میں نے انجیل میں پائی ہے ملاحظہ ہو:
استثناء کی آیات نمبر ۱۸ و ۱۹
میں ان کے بھائیوں میں سے تجھ سا (موسٰی جیسا) نبی برپا کروں گا اور اپنا کلام اس کے منہ میں ڈالوں گا اور جو کچھ میں اس سے کہوں گا وہ ان سے کہے گا۔ ۔ ۔ ۔ “
” تشریعی وحی“ میں خود نبی کا کلام بھی شامل نہیں ہو سکتا کیونکہ اسے ”حدیث قدسی“ کہہ کر الگ کردیا جاتا ہے نیز سورۃ یونس میں آیۃ نمبر ۱۵ کہتی ہے
وَإِذَا تُتْلَیٰ عَلَيْہِمْ آيَاتُنَا بَيِّنَاتٍ ۙ قَالَ الَّذِينَ لَا يَرْجُونَ لِقَاءَنَا ائْتِ بِقُرْآنٍ غَيْرِ ھَـٰذَا أَوْ بَدِّلْہُ ۚ قُلْ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أُبَدِّلَہُ مِن تِلْقَاءِ نَفْسِي ۖ إِنْ أَتَّبِعُ إِلَّا مَا يُوحَیٰ إِلَيَّ ۖ إِنِّي أَخَافُ إِنْ عَصَيْتُ رَبِّي عَذَابَ يَوْمٍ عَظِيمٍ ﴿١٥﴾
ترجمہ ۔ جب ان کے سامنے ہماری واضح آیات پڑھی جاتی ہیں تو وہ لوگ جنہیں ہم سے ملاقات کی امید نہیں کہتے ہیں لے آ اس کے سوا کوئی اور قرآن یا اس کو بدل ڈال ۔ تو کہ دے میرا کام نہیں کہ اس (قرآن) کو بدل ڈالوں اپنی طرف سے۔ میں تو تابعداری کرتا ہوں اسی کی جوحکم (وحی) آئے میری طرف ۔ میں ڈرتا ہوں بڑے دن کے عذاب سے اگر اپنے ربّ کی نافرمانی کروں
”وحی“ کی خصوصیات ان آیات سے ظاہر ہورہی ہیں ۔ مزید اس کے بعد والی آیات تو ہر قسم کی ذہنی بیماری اور نظر کے دھوکے وغیرہ کو ردّ کر رہی ہیں ۔ اسی لئے میں سمجھتا ہوں سورۃ نجم میں سارے ثبوت موجود ہیں جو ‘وحی’ کے صحیح مطلب کی تشریح کرتے ہیں۔ ترجمہ کی زبان قرآن کے الفاظ کے پورے مفہوم کو ظاہر نہیں کر سکتی ۔ میں یہاں صرف اردو ترجمہ نقل کر رہا ہوں (مولانا محمد جونا گڑھی رحمۃ اللہ علیہ) مگر تشریح طلب الفاظ کے لئے مختلف تفسیروں سے مدد لوں گا – پہلے عربی متن
عَلَّمَہُ شَدِيدُ الْقُوَیٰ ﴿٥﴾ ذُو مِرَّۃٍ فَاسْتَوَیٰ ﴿٦﴾ وَھُوَ بِالْأُفُقِ الْأَعْلَیٰ ﴿٧﴾ ثُمَّ دَنَا فَتَدَلَّیٰ ﴿٨﴾ فَكَانَ قَابَ قَوْسَيْنِ أَوْ أَدْنَیٰ ﴿٩﴾ فَأَوْحَیٰ إِلَیٰ عَبْدِہِ مَا أَوْحَیٰ ﴿١٠﴾ مَا كَذَبَ الْفُؤَادُ مَا رَأَیٰ ﴿١١﴾ أَفَتُمَارُونَہُ عَلَیٰ مَا يَرَیٰ ﴿١٢﴾ وَلَقَدْ رَآہُ نَزْلَۃً أُخْرَىٰ ﴿١٣﴾ عِندَ سِدْرَۃِ الْمُنتَہیٰ ﴿١٤﴾ عِندَھَا جَنَّۃُ الْمَأْوَیٰ ﴿١٥﴾ إِذْ يَغْشَى السِّدْرَۃَ مَا يَغْشَیٰ ﴿١٦﴾ مَا زَاغَ الْبَصَرُ وَمَا طَغَیٰ ﴿١٧﴾ لَقَدْ رَأَیٰ مِنْ آيَاتِ رَبِّہِ الْكُبْرَیٰ ﴿١٨﴾ ۔ آیۃ نمبر ۵ سے ۱۸ تک :
ترجمہ ۔ اسے زبر دست قوّت والے نے تعلیم دی ہے جو زور آور ہے ۔ وہ سیدھا کھڑا ہو گیا ۔ وہ بلند آسمان کے کناروں پرتھا ۔ پھر نزدیک ہوا اور اُتر آیا ۔ پس دو کمانوں کے برابر فاصلہ رہ گیا یا اس سے کم ۔ پس اس نے اللہ کے بندے کو پیغام پہنچایا (وحی کی) جو بھی پیغام پہنچانا تھا دل نے جھوٹ نہیں جانا جسے دیکھا ۔ کیا تم جھگڑتے ہو اس پر جو (پیغمبر) دیکھتے ہیں ۔ اسے تو ایک اور مرتبہ بھی دیکھا ۔ سدرۃ المنتہٰی کے پاس اسی کے پاس جنّۃ الماوٰی ہے جبکہ سدرۃ المنتہٰی کو چھپائے لیتی تھی وہ چیز جو چھا رہی تھی ۔ نہ تو نگاہ بہکی نہ حد سے بڑھی یقیناً اس نے ربّ کی بڑی بڑی نشانیوں میں سے بعض نشانیاں دیکھیں
ان آیات مبارکہ میں قرآن نے ایسے بیّن دلائل کے ساتھ ”وحی“ کے تمام ٹھوس اور بنیادی اجزاء یا پہلوئوں کو بیان کر دیا ہے کہ وہ جو مستشرقین و مخالفین یا مشرکین قسم قسم کےالزامات اور بیماریوں کے نام دھرتے ہیں ۔ سب کی مکمل نفی بغیر کسی حدیث کے حوالے سے ہو جاتی ہے ۔ یہ قرآن مجید کا خاص اعجاز ہے
وحی کا مزید تجزیہ مع سائنسی حوالہ جات
یہاں تک یہ تو ظاہر ہے کہ ‘وحی’ اللہ تعالٰی کی طرف سے انسان کے لئے ایک خاص پیغام ہے اس کے تحفّظ کا ذمّہ خود اس ذات بے ہمتا نے اُٹھا یا ہے چنانچہ فرمایا:
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَہُ لَحَافِظُونَ ۔ (سورہ الحجر آیۃ ۹)
یعنی ہم نے اس “ذکر (قرآن)کو نازل کیا ہے اور ہم ہی اس کے محافظ ہیں
‘ وحی’ کے تین پہلوؤں کی طرف آپ کی توجّہ مبذول کرانا چاہتا ہوں
۱۔ پیغام لانے والا (فرشتہ یعنی جبریل امین)
۲۔ پیغام وصول کرنے والا (انسان یعنی محمد مصطفٰےصی اللہ علیہ وسلّم)
۳۔ پیغام فی نفسہ یعنی آیات (اللہ تعالٰی کا کلام ۔ صرف یا محض کلام اللہ)
میں انہیں اجزاء یا پہلو لکھ رہا ہوں یہ تشریح کے لئے ہے ورنہ یہ تمام ایک دوسرے سے وابستہ ہیں مربوط ہیں ۔ یہاں میں تمام تفاسیر سے لئے ہوئے مطالب اور مفاہیم بیان کر رہا ہوں ۔ میری اپنی ”تفسیر” نہیں ۔ میرے صرف الفاظ ہیں اور کچھ میرے سائنسی تبصرے ہیں ۔ پہلی چار آیتوں میں ”وحی“ کی گویا ‘تعریف’ ہوگئی اب دوسرےپہلوؤں کا بیان آیا ہے ۔ آپ نوٹ کیجئے کہ ”یہ تو وحی ہے جو اسے بھیجی جا رہی ہے“ کے فورا بعد وحی لانے والے یعنی حضرت جبریل علیہ السلام کی خصوصیات شروع ہو جاتی ہیں شدید القوٰی ”زبردست قوّت والا“ اور ذومرّہ ”زورآور“ یا ”جو بڑا صاحب حکمت ہے” (تفہیم القرآن) اس ترجمہ کی تفصیل میں مولانا مودودیرح فرماتے ہیں ”یہ لفظ نہایت صائب الرّائے اور عاقل و دانا کے معنی میں بھی استعمال ہوتا ہے- اللہ تعالٰی نے یہاں جبریل علیہ السلام کے لئے یہ جامع لفظ اسی لئے منتخب فرمایا ہے کہ ان میں عقلی اور جسمانی دونوں قوتوں کا کمال پایا جاتا ہے“۔ اب اس بات کو آپ ذہن میں رکھیئےکہ ایسی علمی اور جسمانی قوتیں اللہ نے جبریل امین کو مرحمت فرمائی ہیں کہ کوئی فرشتہ یا شیطان یا انسان اس پیغام کے پہنچنے میں حائل نہ ہوسکے اس کی مضبوط تحفیظ فرمادی ہے
”سیدھا کھڑا ہوگیا”“ در اصل ”فاستويی“کا صحیح مفہوم ظاہر نہیں کرتا ۔ میرے خیال میں اردو میں کوئی ایک لفظ اس کے لئے استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔ علّامہ اسد نے انگریزی میں لکھا ہے وہ موقع کے لحاظ سے زیادہ مفہوم رکھتا ہے-
“who, in time, manifested himself in his true shape and nature”
ترجمہ ۔ جس نےا پنے آپ کو اپنی صحیح قدرتی صورت میں ظاہر کیا ۔ آپ جانتے ہیں کہ ”استوٰی“ کا لفظ اللہ تعالٰی کے لئے بھی ”کرسی پر بیٹھنے“ کے معنی میں استعمال ہوا ہے
جبریل امین کی خصوصیات قرآن مجید میں اور آیات میں بھی بتائی گئی ہیں مثلا:
﴿١٧﴾ إِنَّہُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ﴿١٩﴾ ذِي قُوَّۃٍ عِندَ ذِي الْعَرْشِ مَكِينٍ ﴿٢٠﴾ مُّطَاعٍ ثَمَّ أَمِينٍ ۔ سورۃ تکویر
ترجمہ ۔ بے شک یہ (قران) بھیجے ہوئے (فرشتہ) عالی مقام کی زبان کا پیغام ہے جو صاحبِ قوّت، مالک عرش کے ہاں اونچے درجہ والا ہے
سردار (اور) امانتدار ہے
ایک پیغام لے جانے والے کی سب سے بڑی خوبی یہی ہونی چاہئے کہ وہ پیغام حرف بحرف اپنی جگہ تک پہنچادے ۔ اللہ عزّ و جلّ اس فرشتہ (جبریل) کو امین کے خطاب سے نوازتے ہیں اور انہیں یہ صفت اسی لئے عطا کی جا رہی ہے ۔ پھر ان کی بزرگی کی اور صفات ہیں ۔ ”صاحبِ قوت“ ہیں ربّ العزّت کے ہاں اُونچا درجہ ہے ۔ ان کا حکم مانا جاتا ہے یعنی دوسرے فرشتوں کو حکم دے سکتے ہیں (مطاع) قرآن مجید مزید ‘وحی’ کا نقشہ کھینچ رہا ہے کیونکہ جبریل امین اور محمد صلی اللہ علیہ و سلّم کے آمنے سامنے”کھڑے” ہونا بتایا جارہا ہے ” وہ بلند آسمان کے کناروں پرتھا اور نیچے اتر آیا پس دو کمانوں کے برابر یا اس کے کم فاصلہ رہ گیا” آمنے سامنے ہوکر گفتگو کی شکل بتائی گئی ہے پھر “اللہ کے بندے کو پیغام پہنچایا۔۔۔”
اور اس کے بعد ”پیغام وصول کرنے والے” کی خصوصیات کا ذکر شروع ہو رہا ہے ” جس کو دیکھا دل نے جھٹلایا نہیں“ ۔ اس کے سمجھنے میں دشواری نہیں لیکن دیکھنا اور دل نے جھوٹ نہ جاننے کا مطلب انسانی خصوصیت کے اظہار کے لئے ہے
یہاں مجھے سائنس کی روشنی میں کچھ تفصیل دینی پڑے گی لیکن مختصرا: جب ہم کسی چیز کو دیکھتے ہیں تو اس کا عکس آنکھوں پر پڑتا ہے جہاں سے وہ محرّک بذریعہ بصری نس [optic nerve] دماغ کے اس خاص حصہ میں پہنچتا ہے جہاں اسے ”پہچاننے” کا عمل ہوتا ہے (یہ کام ”مجازی دل“ یعنی دماغ کا ہے) ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے جبریل علیہ السلام کو انسانی روپ میں غار میں دیکھا تھا اور ان کی آواز سے واقف تھے ۔ اب ان کو ‘ملکی صورت’ میں دیکھ کے اس لئے پہچانے کہ آواز جانتے تھے ۔ یہ انسانی خصوصیات بتائی جا رہی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم انسان ہی تھے لیکن دھشت پھر بھی آئی کہ وہ ایک عظیم جثّہ تھا ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ”دل نے جھوٹ نہ جانا“ کہہ کر انسانی خصوصیت کا برملا اظہار کیا گیا ہے
اس کے بعد شک کرنے والوں اور منکروں کے لئے تعدّی دی گئی ”کیا اس پر انکار کی بحث کرتے ہو؟“ یعنی جو کچھ اس پیغمبر نے اپنی آنکھوں سے دیکھ کر پہچانا ہے وہ یقینا درست ہے ۔ اس پر بحث یا انکار کی گنجائش نہیں ہے ۔ قرآن مجید یہاں ”دھشت“ کا ذکر کرنا ضروری نہیں سمجھتا مگر حدیث میں ذکر ہے ( جابر بن عبد اللہ) جس کا ذکر میں نے اوپر کیا ہے مگر اس کے فورا” بعد سدرۃ المنتہٰی کے پاس دیکھنے کا ذکر آیا ہے ۔ یہاں قرآن مجید اس بات کو واشگاف طور پر ظاہر کرنا چاہتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم نے جبریل امین کو ان کی اصلی صورت میں دو بار دیکھا ہے اور سدرۃ المنتہٰی پر جو چھا رہا تھا وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلّم نے اسی انسانی آنکھ سے دیکھا ۔ اس لئے اس پر مزید ”نہ نگاہ بہکی نہ حد سے بڑھی“ کہا گیا ان چیزوں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلّم کو واقفیت نہیں تھی ۔ قرآن کریم یہاں اپنے مخصوص انداز میں بتا بھی گیا ہے مگر غیب کی باتوں کی پردہ کشائی بھی نہیں کی ۔ احادیث میں مفسّرین اس ”بیری کے درخت“ اور ”جو کچھ چھا رہا تھا“ بہت سی باتیں لکھتے ہیں ۔ میں ان کا ذکر ضروری نہیں سمجھتا ۔ انسانی ””نگاہ“ کا پھر یہاں قرآن بتا رہا ہے کہ جو کچھ دیکھا وہی کچھ تھا اور کوئی ہیولا نہیں تھا ”زاغ البصر“ کا مطلب میڈیکل زبان میں ہوگا ”کوئی llusion or delusion نہیں تھی“ ۔ رویت کے عمل [Eyeballing]کی صحت کی طرف اشا رہ ہے
محمّد صلی اللہ علیہ وسلّم کے انسان ہونے اور دیگر خصوصیات کا ذکر قران مجید میں متعدّد آیات سے ظاہر ہوتا ہے ۔ سورۃ ”کہف“ میں ہے ۔
قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَیٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَـٰہُكُمْ إِلَـٰہٌ وَاحِدٌ ۖ ۔ ۔ ۔ ۔ ( آخری آیت نمبر ۱۱۰)
ترجمہ ۔ تم (اے محمد) کہہ دو کہ میں تمھاری طرح کا ہی ایک بشر(آدمی) ہوں (البتّہ) میری طرف وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہے ۔
یہاں نہایت فیصلہ کن اور واضح انداز میں بتایا گیا ہے کہ محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وسلم باقی انسانوں کی طرح کے ایک انسان ہی ہیں فرق یہ ہے کہ ان پر وحی آتی ہے اور صرف یہی خصوصیت انہیں دوسرے انسانوں سے ممیّز کرتی ہے اور یہ کہ وہ خدا کے نبی اور رسول ہیں جیسا کہ سورۃ ‘احزاب’ میں ہے
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَـٰكِن رَّسُولَ اللَّہِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّہُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا
ترجمہ ۔ محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں بلکہ خدا کے رسول اور نبیوں پر (نبوّت کی) مہر (نبوت ختم کرنے والے
)
ان صفات کو ذہن میں رکھنا ضروری ہے اس کے بعد مزید ‘انسانی’ صفات کی طرف آپ کی توجّہ دلانا چاہتا ہوں ۔ مندرجہ بالا عبارت میں ”اپنی خواہش نفس سے نہیں بولتا“ کا ذکر ہوچکا ہے یہ کلام اللہ تعالٰی کا ہے اس میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلّم کی اپنی سوچ یا گفتار کا ہرگز دخل نہیں ہے چنانچہ آپ اس وحی کو سن کر یاد رکھنا چاہتے اور بطور انسان گھبراتے بھی کہ کہیں کچھ لفظ رہ نہ جائے وہ بھول نہ جائیں تو آپ کی اس گھبراہٹ سے اللہ تبارک و تعالٰی کمال ‘پدرانہ’ سی شفقت سے وحی کے نزول کے درمیان فرماتے ہیں
” ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وَلَا تَعْجَلْ بِالْقُرْآنِ مِن قَبْلِ أَن يُقْضَیٰ إِلَيْكَ وَحْيُہُ ۖ وَقُل رَّبِّ زِدْنِي عِلْمًا (سورۃ ۲۰ آیۃ ۱۱۴ )
ترجمہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور وحی قرآن جو تمھاری طرف بھیجی جاتی ہے اس کے پورا ہونے سے پہلے(قران) پڑھنے کے لئے جلدی نہ کیا کرو اور دعا کرو کہ اے پروردگار مجھے اور زیادہ علم دے
یا پھر سورۃ “القیامۃ” میں یوں ہے
” لَا تُحَرِّكْ بِہِ لِسَانَكَ لِتَعْجَلَ بِہِ ﴿١٦﴾ إِنَّ عَلَيْنَا جَمْعَہُ وَقُرْآنَہُ (آیات ۱۶ و ۱۷ ) وحی پڑھنے کے لئے( اپنی زبان جلدی جلدی نہ چلایا کرو) کہ ا سکو یاد کر لو]
اس تمام تذکرہ سے جو تصویر ہمارے ذہن میں آتی ہے وہ ایک عام آدمی کی سی ہے جسے پہلے کوئی تعلیم میسّر نہیں تھی اور اس کے ساتھ ہی ایک نبی کی جو اپنا مشن اور اپنی ذمہ داری کو بخوبی سمجھتا ہے اور بطریقہ کمال اس سے عہدہ برا ہونا چاہتا ہے ۔ یہ ہیں خاتم الانبیاء محمّد مصطفٰے صلی اللہ علیہ وسلّم نبیوں اور رسولوں کے سردار یعنی وہ تھے تو ایک آدمی ہی لیکن ان پر وحی آتی تھی اور اس خصوصیت کو گویا ذہن نشین کرانے کے لئے سورۃ نجم کی یہ آیات نازل کی گئی ہیں
ان تمام دلائل کے بعد ”پیغام فی نفسہ“ یعنی وحی کے خاطر خواہ محفوظ ہو جانے کا خود بخود ثبوت بن جاتا ہے ۔ مندرجہ بالا عبارت سے ظاہر ہے کہ میں ان آیات (۵ تا ۱۰) کو” رویت جبریل“ کے متعلق ہی شمار کرتا ہوں ۔ دوسرے مفسّرین ان آیات کو رویت الٰہی قرار دیتے ہیں ۔ میں نے اس بحث سے قطعاً اعراض کیا ہے ۔ قارئین کرام ۔ اگر اس بحث یا اس کے دلائل کو دیکھنا چاہیں تو دوسری تفاسیر ملاحظہ فرمائیں ۔ میں نے ایک حدیث بیان کی ہے جس پر میری تنقید آپ پڑھ چکے ہیں ۔ در اصل اس کے علاوہ اور بہت سی باتیں، بیانات موضوع یا ضعیف یا غریب احادیث ایسی ہیں جنہیں یہاں جمع کر رہا ہوں ۔ محدّثین اور دیگر علماء مجھ سے بہتر سمجھ بوجھ رکھتے ہیں ۔ صدیوں سے ایسی باتیں لکھتے چلے آئے ہیں اور غلط سمجھتے ہوئے بھی عبارت سے خارج نہیں کرتے ۔ اس میں انکی کوئی حکمتِ علمی ہوگی جسے میرے جیسا کم علم آدمی ذہن میں نہیں لا سکتا ۔ اس کے باوجود میں نے جو کچھ اسلامی کتب میں دیکھا ہے ان ‘سائنسی’ حقائق پر علماء کے تبصرے نہ صرف یہ کہ ناکافی ہیں بلکہ کئی مقامات پر ذہنی الجھن میں ڈالنے کا موجب ہوتے ہیں ۔ چنانچہ میرے ”سائنسی“ تبصروں میں علمائے کرام کے تبصروں سے قدرے اختلاف نظر آئےگا ۔ اس سے میرا مقصد ان علماء کی تنقید نہیں اور نہ ہی میری نظر میں ان کی علمی برتری یا قدرو منزلت میں کمی ہو رہی ہے ۔ اس لئے اب جواپنی تنقید اور اعتراض تحریر میں لا رہا ہوں ۔ اسے میری گستاخی پر محمول کر لیں مگر میں بے ادب نہیں اور علماء سے معافی کا خواہاں ہوں ۔ یہ تمام چیزیں الگ اس لئے لکھ رہا ہوں کہ صحیح قرآنی تناظر میں وحی کا جو تصوّر قائم ہو رہا ہے اس میں کسی قسم کا انتشار یا تذبذب شامل نہ ہو نیز یہ کہ آپ کو میرے تبصروں سے اختلاف رکھنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں ہونی چا ہیئے
وحی کے متعلّق کج فہمیاں اوراسلامی کتب میں قرآن کے منافی مندرجات
‘وحی’ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰے کا کلام ہے اور غیر مسلم مخالفین و مستشرقین اسے محمد صلی اللہ علیہ و سلّم کا کلام کہتے ہیں ۔ پھر اس کی وضاحت کے لئے مشکل میں پڑ جاتے ہیں کیونکہ کلام کی خوبیاں اس قدر حیران کُن ہیں کہ انہیں ایک امّی آدمی کی زبان سے نکلتے سن کر کوئی توجیہ نہیں بن پڑتی ۔ یہ آپ کی حیاتِ طیبہ کے دوران ہی ظاہر ہوگیا تھا اور قرآن مجید میں جگہ جگہ اس کا ذکرموجود ہے
راقم عربی زبان سے اتنی ہی واقفیت رکھتا ہے جتنی ایک عام سیدھے سادھے مسلمان کو ہوسکتی ہے اور پھر قرآنی عربی کی بھلامیں کیا تعریف کر سکتا ہوں ۔ عربی اور قرآن مجید کے علماء کیا مسلم اور کیا غیر مسلم سب اس سے بخوبی واقف ہیں ۔ اس کے علاوہ قارئین کرام آپ خود بھی مجھ سے زیادہ اس علم سے واقفیت رکھتے ہیں
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلّم کو شاعر کہا گیا (مشرکین مکّہ) ۔ یہ ‘کلام’ اشعار سے بھی دل پر زیادہ اثر کرتا تھا اور پھر کچھ باتیں ‘پیشین گوئی’ قسم کی بھی موجود تھیں تو ”کاہن“ بھی کہا گیا ۔ غیر مسلم توابھی تک قران کو ”اگلی کتابوں کی نقل“ کہتے آ رہے ہیں باوجود اس کے کہ وہ’ قصّے’ ان سے اختلاف رکھتے ہیں ۔ تو قرآن کریم صریح الفاظ میں ان ‘الزامات’ کو ردّ کرتا ہے ۔ سورۃ الحاقّہ میں ہے
إِنَّہُ لَقَوْلُ رَسُولٍ كَرِيمٍ ﴿٤٠﴾ وَمَا ھُوَ بِقَوْلِ شَاعِرٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تُؤْمِنُونَ ﴿٤١﴾ وَلَا بِقَوْلِ كَاھِنٍ ۚ قَلِيلًا مَّا تَذَكَّرُونَ ﴿٤٢﴾ تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٤٣
یہ ایک رسولِ کریم کا قول ہے ۔ کسی شاعر کا قول نہیں ہے ۔ تم لوگ کم ہی ایمان لاتے ہو ۔ اور نہ یہ کسی کاہن کا قول ہے ۔ تم لوگ کم ہی غور کرتے ہو ۔ یہ ربّ العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔
پھر یہ کہ انہیں کوئی سکھانے والا نہیں تھا (ما سوائے خود اللہ تعالے کے) اور نہ ہی وہ پرانی الہامی کُتب پڑھ سکتے تھے انہیں یہ کچھ میسّسر ہی نہیں تھا اور سورۃ نحل میں ارشاد ہوتا ہے
وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّہُمْ يَقُولُونَ إِنَّمَا يُعَلِّمُہُ بَشَرٌ ۗ لِّسَانُ الَّذِي يُلْحِدُونَ إِلَيْہِ أَعْجَمِيٌّ وَھَـٰذَا لِسَانٌ عَرَبِيٌّ مُّبِينٌ ﴿١٠٣﴾
ترجمہ ۔ ہمیں معلوم ہے یہ لوگ تمہارے متعلق کہتے ہیں اس شخص کو ایک آدمی سکھاتا پڑھاتا ہے حالانکہ ان کا اشارہ جس آدمی کی طرف ہے اسکی زبان عجمی ہے اور یہ صاف عربی زبان ہے
اس کے بعد دو واقعات کے متعلق تفصیل سے لکھنا چاہتا ہوں
۱۔ فترۃ الوحی اور
۲۔ شیطانی آیات
فترۃ الوحی
مندرجہ بالا تحریر میں مرگی اور وحی کی بحث میں ایک صحیح اور ایک غریب حدیث اور ان کے متعلق مختصر بحث کر چکا ہوں ۔ ”فترۃ الوحی“ کا مطلب ہے وحی کے سلسلے میں رکاوٹ آ گئی یا یہ کہ کچھ عرصہ بند رہی ۔ سب سے پہلی وحی آپ کو ”غار حرا“ میں نازل ہوئی تھی جس کا علم سب مسلمانوں کو ہے ( صحیح بخاری باب بدء الوحی روایت امّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنھا حدیث نمبر ۳ جس کا پہلا حصہ رویائے صادقہ میں درج کیا ہے) ۔ اس کے بعد کچھ عرصہ تک وحی نہیں آئی یہ مدّت دو یا تین ماہ سے دو یا تین سال تک بتائی گئی ہے (مختلف اقوال ہیں) ۔ اس کو ”فترۃ الوحی“ کہا جاتا ہے سورۃ نجم اور سورۃ مدثر کی تفسیر میں کئی غریب احادیث کا حوالہ دیا گیا ہے ۔ اکثر علماء اور مفسّرین ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر سے نقل کرتے ہیں کہ پرانی تفسیروں میں سے وہی سب سے معتبر شمار ہوتی ہے
حافظ عماد الدین ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ سلف کے علماء و مفسرین میں نہایت اُونچا مقام رکھتے ہیں اور ایک قابل امام مانے جاتے ہیں آپ کو احادیث پر جو عبور حاصل تھا وہ بہت کم علماء کو ملا ہے ۔ اس وجہ سے اگر بعد کے ازمنہ کے علماء ان کی تحاریر سے افادہ کریں اور ان سے نقل کریں تو اس میں وہ بالکل حق بجانب ہیں ۔ میں ان کے اور دوسرے علماء کے متعلق کچھ تعریفی کلمات لکھوں تو ان کا حق ادا نہیں کر سکتا ۔ میرے جیسے کم علم کے لئے مگر مشکل یوں آپڑتی ہے کہ وہ حدیث بیان کر جاتے ہیں اور ہم اس کا ‘اثر’ لے چکے ہوتے ہیں ۔ آخر میں وہ ظاہر کرتے ہیں کہ یہ غریب یا ضعیف ہے اور پھر اس کی صحیح نشاندہی کرتے ہیں۔ میرے پاس عربی اور اُردو ترجمہ والی ”تفسیر ابن کثیر“ ہے
یہاں میں اردو کے دو بڑے مانے ہوئے چوٹی کے علماء اور مفسرین سے مختصر اقتباس آپ کے سامنے پیش کرتا ہوں پھر اس پر بحث کروں گا ۔ ابن کثیر رحمۃ اللہ علیہ کی تفسیر یوں ہے
” پھر وحی بند ہو گئ جس کا حضور صلی اللہ علیہ و سلّم کو بڑا ملال تھا یہاں تک کہ کی دفعہ آپ صلی اللہ علیہ و سلّم کا ارادہ ہوا کہ پہاڑ پر سے گر پڑوں لیکن ہر وقت آسمان سے جبریل علیہ السلام کی یہ آواز سنائی دیتی کہ اے محمد صلی اللہ علیہ و سلّم آپ خدا کے سچّے رسول ہیں اور میں جبریل ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ و سلّم کا غم غلط ہو جاتا ۔ دل پر سکون اور طبعیت میں قرار آجاتا ۔ واپس چلے آتے لیکن پھر کچھ دنوں بعد شوق دامنگیر ہوتا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسی طرح جبریل علیہ السلام تسلّی و تسکین دیا کرتے یہاں تک کہ ایک مرتبہ ابطہ میں حضرت جبریل علیہ السلام اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہو گئے۔ ان کے چھ سو پر (یا بازو) تھے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔”
ابن کثیر رح اپنی تفسیر میں بیان فرماتے ہیں کہ یہ مضمون ابن جریر رح نے امام زہری رح (مشہور تابعی) کے بیان سے اخذ کیا ہے ۔ تفہیم القرآن میں بھی انہی الفاظ میں تحریر دی گئی ہے اور امام زہریرح کا حوالہ ہے مگر وہاں بھی کوئی اسناد بیان نہیں کی گئیں نہ کوئی ایسی حدیث کہیں موجود ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلّم نے کسی صحابی سے پہاڑ پر اپنے آپ کو گرا دینے کی بات کی ہو (معارف القرآن میں بھی یہی مضمون ہے) بعد کے علماء یا عصر حاضر کے علماء (مثلا” مودودی رح یا محمد شفیع رح) و مفسّرین انہی روایات سے اپنا نکتہ اخذ کرتے ہیں ۔ مثال کے طور پر تفہیم میں ایسا ظاہر ہو رہا ہے کہ جبریل امین علیہ السلام خود ظاہر ہوکر آپ صلی اللہ علیہ و سلّم کو تسلّی دیتے تھے اور معارف القرآن میں بتایا گیا ہے کہ وہ صرف اپنی آواز سے مطلع کرتے تھے ۔ اب میں ہر دو عالموں کو بہت معتبر سمجھتا ہوں اور دونوں سے اتفاق رکھتا ہوں مگر یہ غیر اہم سا تفاوت ان کے بیانوں میں دیکھتا ہوں اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں کہ دونوں نے ابن کثیر کی عبارت سے اخذ کیا ہے
رویت جبریل کے متعلق کئی احادیث نقل کی گئی ہیں جن میں ان کی عظیم الشّان صورت اور ملکی ہیئت کا ذکر ہے جیسے ”چھ سو پر تھے“ یا ”سارے افق کو گھیر رکھا تھا“ وغیرہ ان سب سے ظاہر ہوتا ہے کہ انسانی زبان میں انسان کو سمجھا نے کے لئے الفاظ استعمال ہو رہے ہیں مگر جبریل علیہ السلام کی پُرشکوہ اور پُرجلال ملکی عظمت کا نقشہ کھینچنے سے قاصر ہیں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلّم کو پہلی وحی کے بعد ہی اس بات کا احساس اور یقین ہو گیا تھا کہ وہ انسان ہونے کے ساتھ ساتھ نبی بھی ہیں ۔ اگر جبریل امین انہیں تسلی کی خاطر یاد دلاتے تھے تو یقین دھانی کے لئے نہیں بلکہ صرف اطمینان دلانے کی خاطر ۔ وحی کے دوبارہ آنے میں تاخیر پر بطور انسان انہیں تردّد اور پریشانی تھی تو ہونی ہی چاہئے ۔ بالکل سمجھ میں آنے والی بات ہے مگر ایک سچّے نبی کو اپنے آپ کو پہاڑ سے گِرا دینے (یعنی خود کشی) کا خیال کیسے آسکتا ہے ؟ حتّٰی کہ ‘فترۃالوحی’ کے بعد وحی آ گئی ” اے کپڑے میں لپٹ کر لیٹنے والے اُٹھ اور لوگوں کو ڈرا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔” (سورۃ مدثر کی پہلی آیات) ۔ میرے اندازے کے مطابق آپ بیچینی اور پریشانی میں پہاڑ پر جاتے تھے تو اس لئے کہ آخر پہلی وحی غار میں ہی تو آئی تھی ۔ میرا دل اس بات پر نہیں جمتا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلّم اس خیال سے جاتے تھے کہ وہاں سے اپنے آپ کو گرا دیں ۔ باقی اللہ ہی بہتر جانتا ہے ۔ اس غریب حدیث کا پہلے ذکر کر چکا ہوں جس میں آپ صلی اللہ علیہ و سلّم کے ‘بیہوش ہو کر گرنے’ کا بتایا گیا ہے اور یہ کہ مجھے اس پر یقین نہیں آتا
شیطانی آیات یا قصہ غرانیق
اس کو میں جان بوجھ کر ‘قصہ’ لکھ رہا ہوں کیونکہ اس کے لئے کوئی صحیح حدیث نہیں ہے اور لکھنے والے ‘مغازی’ یا ‘سیرۃ’ نگار تھے لیکن طبقات ابن سعد اور اس قسم کی پہلی کتابوں میں اس کا ذکر بتایا گیا ہے ۔ میں نے ان کا مطالعہ نہیں کیا کہ لکھنے والے اس کا بیان کس رنگ میں پیش کرتے ہیں ۔ مندرجہ بالا عبارت میں آپ سورۃ نجم کا زمانہءِ نزول دیکھ چکے ہیں ۔ اس سورۃ کی آخری آیت پر سجدہ ہے اور مفسّرین میں سے مولانا مودودی رح سورۃ حج آیت ۵۳ کی تفسیر میں اس کا تفصیل سے بیان کرتے ہیں ۔ جو میرے ناقص خیال میں باقی سب تفسیروں سے بہتر ہے ۔ اس لئے میں اس میں سے ہی اپنا تاثر بیان کروں گا ۔ بات صرف اتنی ہوئی کہ آں حضور صلی اللہ علیہ و سلّم کے سجدہ کرنے پر تمام مجمع سجدے میں گر گیا یعنی مشرکین بھی اور مسلمان بھی ۔ ایسا کیسے ہوگیا ؟ اس کی توجیہ میں یہ کہانی ”بنی“ ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلّم مسجد الحرام میں مومنین کے ساتھ بیٹھے تھے اور بہت سے مشرکین بھی تھے ۔ نبوّت کے پانچویں سال کا زمانہ تھا کہ یہ سورۃ نجم نازل ہوئی اور کھڑے ہو کر اس کی تلاوت کر رہے تھے (یعنی یہ پہلی دفعہ ایسا ہو رہا تھا کہ اس قسم کی بھری مجلس میں وحی کا نزول ہوا) وحی کا اثر اور تلاوت کرنے والی زبان محمد الرّسول اللہ کی ۔ مجمع خاموش اور دم بخود کیوں نہ ہو ۔ جب آپ آخری آیت پر سجدہ میں گرے تو مسلمانوں نے تو اتّباع کرنی ہی تھی ۔ مشرکین بھی نہ رہ سکے اور سجدے میں گرگئے
اب یہ مان لیجئے کہ یہ ساری سورہ تھی صرف آیات ۱۳ سے ۱۸ تک بعد میں نازل ہوئیں ۔ اب یہ ۱۹ تا۲۳ آیات دیکھئے
أَفَرَأَيْتُمُ اللَّاتَ وَالْعُزَّیٰ ﴿١٩﴾ وَمَنَاۃَ الثَّالِثَۃَ الْأُخْرَیٰ ﴿٢٠﴾ أَلَكُمُ الذَّكَرُ وَلَہُ الْأُنثَیٰ ﴿٢١﴾ تِلْكَ إِذًا قِسْمَۃٌ ضِيزَیٰ ﴿٢٢﴾ إِنْ ھِيَ إِلَّا أَسْمَاءٌ سَمَّيْتُمُوھَا أَنتُمْ وَآبَاؤُكُم مَّا أَنزَلَ اللَّہُ بِہَا مِن سُلْطَانٍ ۚ إِن يَتَّبِعُونَ إِلَّا الظَّنَّ وَمَا تَہْوَى الْأَنفُسُ ۖ وَلَقَدْ جَاءَھُم مِّن رَّبِّھِمُ الْہُدَیٰ ﴿٢٣
ترجمہ ۔ پھر تم نے کچھ غور بھی کیا ان لات اور عزّیٰ پر اور تیسری ایک اور (دیوی) مناۃ پر ؟ کیا تمہارے لئے تو ہوں بیٹے اور اس کے (اللہ کے) لئے ہوں بیٹیاں؟ یہ تو بڑی بے انصافی کی تقسیم ہے ۔ در اصل یہ کچھ نہیں ہیں مگر چند نام جو تم نے اور تمہارے باپ دادا نے رکھ لئے ہیں ۔ اللہ نے ان کے لئے کوئ سند نازل نہیں کی ۔ لوگ محض گمان اور من مانے خیالات کی پیروی کر رہے ہیں حالانکہ ان کے ربّ کی طرف سے صحیح رہنمائی آ گئی ہے
کہا یہ جا رہا ہے کہ آخری آیت (بہت بعد میں آتی ہے) پر مشرکین نے اس لئے سجدہ کیا کہ ”ہم نے تو (آیت نمبر 20 کے بعد) تعریفی کلمات سنے جو اس قسم کے تھے:
“تلک الغرانقۃ العلےٰ ۔ و انّ شفاعتھنّ لترجےٰ (یہ بلند مرتبہ دیویاں ہیں اور ان کی شفاعت ضرور متوقّع ہے) اس وجہ سے ہم نے بھی سجدہ کیا کہ اب محمد ہمارے بتوں کی تعریف کر رہے ہیں تو کیا فر ق رہ گیاہے
تفہیم القران میں اس قسم کی 14 اور مختلف “آیات” بتائی گئی ہیں مثلا
۔۔۔۔۔ و انّ شفاعتھم لترجٰے“ یا ”و انّھنّ لھنّ الغرانیق العلٰی و انّ شفاعتھنّ لھی الّتی ترجٰی
نامعلوم کیوں لکھنے والوں نے ایسے فقروں کو ” آیات“ کا نام دیا ہے بہر حال یہ ہیں ”شیطانی آیات“ جن کے نام پر رشدی صاحب نے اپنی خوب خوب تشہیر بھی کروالی ”سر“ کا خطاب بھی مل گیا اور کتاب بھی ‘خوب’ بکی اور اس وجہ سے میرے خیال میں اب ضروری ہے کہ عام مسلمان کو اس قصّہ کے متعلق صحیح معلومات ہوں
غرانیق جمع ہے غرنوق کی جس کا مطلب ہے بڑا آبی پرندہ ۔ ان بتوں کو یہ نام کیسے دیا گیا ۔ مجھے علم نہیں مگر یہ ان بتوں کے نام ہی ہیں ان شیطانی آیات کا قصہ یوں ہے:
یہ آیات بتوں کے ناموں کے بعد (بمطابق غریب اور مرسل احادیث جو ابن کثیر لکھتے ہیں) محمد مصطفٰے صلی اللہ علیہ و سلّم نے تلاوت کیں ۔ یعنی سورۃ نجم کی آیات ۱۹ اور ۲۰ کے بعد پھر اس کے بعد والی آیات تلاوت کرتے چلے گئے حتٰی کہ آخری آیت پر جا کر سجدہ کیا ۔ انہیں اس غلطی کا احساس بعد میں ہوا جب اسی شام کو جبریل امین آپ کے پاس آئے اور کہا ”میں نے تو یہ آیات آپ کو نہیں بتائی تھیں”۔ کچھ علماء کہتے ہیں کہ آپ بہت غمگین ہو گئے پھر اللہ تعالٰے نے ”سورۃ الاسراء“
والی آیت نازل کی
وَإِن كَادُوا لَيَفْتِنُونَكَ عَنِ الَّذِي أَوْحَيْنَا إِلَيْكَ لِتَفْتَرِيَ عَلَيْنَا غَيْرَہُ ۖ وَإِذًا لَّاتَّخَذُوكَ خَلِيلًا ﴿٧٣﴾ وَلَوْلَا أَن ثَبَّتْنَاكَ لَقَدْ كِدتَّ تَرْكَنُ إِلَيْہِمْ شَيْئًا قَلِيلًا ﴿٧٤﴾ إِذًا لَّأَذَقْنَاكَ ضِعْفَ الْحَيَاۃِ وَضِعْفَ الْمَمَاتِ ثُمَّ لَا تَجِدُ لَكَ عَلَيْنَا نَصِيرًا ﴿٧٥﴾
ترجمہ ۔ اے محمد (ان لوگوں نے) اس کوشش میں کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی کہ تمہیں فتنہ میں ڈال کر اس وحی سے پھیر دیں جو ہم نے تمہاری طرف بھیجی ہے تاکہ تم ہمارے نام پر اپنی طرف سے کوئی بات گھڑو ۔ اگر تم ایسا کرتے تو وہ تمہیں ضرور اپنا دوست بنا لیتے اور بعید نہ تھا آضر ہم تمہیں مضبوط نہ رکھتے تو تم ان کی طرف کچھ نہ کچھ جھُک جاتے لیکن اگر تم ایسا کرتے تو ہم دنیا میں بھی دوہرے عذاب کا مزا چکھاتے اور آخرت میں بھی دوہرے عذاب کا ۔ پھر تم ہمارے مقابلے میں کوئی مددگار نہ پاتے
مگر آپ اس آیت سے غمگین ہی رہے تو اس کے بعد سورۃ حج کی یہ آیات نازل کی گئیں(گویا ان کی تسلّی کیلئے)
وَمَا أَرْسَلْنَا مِن قَبْلِكَ مِن رَّسُولٍ وَلَا نَبِيٍّ إِلَّا إِذَا تَمَنَّیٰ أَلْقَى الشَّيْطَانُ فِي أُمْنِيَّتِہِ فَيَنسَخُ اللَّہُ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ ثُمَّ يُحْكِمُ اللَّہُ آيَاتِہِ ۗ وَاللَّہُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿٥٢﴾ لِّيَجْعَلَ مَا يُلْقِي الشَّيْطَانُ فِتْنَۃً لِّلَّذِينَ فِي قُلُوبِۃِم مَّرَضٌ وَالْقَاسِيَۃِ قُلُوبُہُمْ ۗ وَإِنَّ الظَّالِمِينَ لَفِي شِقَاقٍ بَعِيدٍ ﴿٥٣﴾
ترجمہ ۔ اور (اے محمد) تم سے پہلے ہم نے نہ کوئی ایسا رسول بھیجا ہے نہ نبی (جس کے ساتھ ایسا معاملہ نہ پیش آیا ہو) جب اس نے تمنّا کی شیطان اس کی تمنا میں خلل انداز ہو گیا ۔ اس طرح شیطان جو بھی خلل اندازیاں کرتا ہے ۔ اللہ ان کو مٹا دیتا ہے اور اپنی آیات پختہ کر دیتا ہے ۔ اللہ علیم اور حکیم ہے ۔ (وہ اس لئے ایسا ہونے دیتا ہےکہ) شیطان کی ڈالی ہوئی خرابی کو ‘فتنہ’ بنا دے ان لوگوں کے لئے جن کے دلوں میں نفاق ہے اور جن کے دل کھوٹے ہیں ۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ ظالم لوگ عناد میں بہت دور نکل گئے ہیں
مولانا مودودی رح اس تمنّا کا مطلب بتاتے ہیں کہ نبی کی تمنّا یہ ہوتی ہے کہ لوگ اس کی بات مان لیں اور اللہ پر ایمان لے آئیں ۔ شیطان کی رخنہ اندازی یہ ہوتی ہے کہ وہ نبی کے کام میں رکاوٹیں ڈالتا ہے یا اس کی تعلیم میں شکوک اور شبہات پیدا کرتا ہے ۔ ”اللہ تعالٰے اپنی آیات کو (یعنی ان وعدوں کو جو اس نے نبی سے کئے تھے) پختہ اور اٹل وعدے سے ثابت کر دیتا ہےاور ۔۔۔۔۔۔۔ شیطان کے ڈالے ہوئے شبہات و اعتراضات کو رفع کر دیتا ہے اور ایک آیت کے بارے میں جو اُلجھنیں وہ لوگوں کے ذہنوں میں ڈالتا ہے انہیں بعد کی کسی واضح تر آیت سے صاف کر دیتا ہے
پھر اس کی تفصیل میں جاتے ہوئے فرماتے ہیں ”سلسہ کلام کو نظر میں رکھا جائے تو ان آیات کا مطلب صاف سمجھ میں آ جاتا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت جس مرحلہ میں تھی اس کو دیکھ کر تمام ظاہر بین یہ دھوکہ کھا رہے تھے کہ آپ اپنے مقصد میں ناکام ہو گئے ہیں ۔ دیکھنے والے جو کچھ دیکھ رہے تھے وہ تو یہی تھا کہ ایک شخص جس کی تمنا اور آرزو یہ تھی کہ اس کی قوم اس پر ایمان لے آئے وہ تیرہ برس معاذ اللہ سر مارنے کے بعد اپنے مٹھی بھر پیروؤں کو لے کر وطن سے نکل جانے پر مجبور ہو گیا ہے“۔
پچھلی اور اگلی آیات سے یہی بات سمجھ میں آتی ہے لیکن اگر اس آیت کے مطلب کو اس واقعہ سے جوڑا جائے تو معانی کہیں سےکہیں نکل جاتے ہیں یہ آیت سنہ گیارہ یا بارہ “نبوی” میں نازل ہو رہی ہے اور واقعہ سنہ پانچ نبوی میں پیش آرہا ہے ۔ مذکورہ بالا ”الاسراء“ کی آیات سنہ ایک ہجری میں نازل ہوئیں مگر اس کے علاوہ اور بہت سی ایسی باتیں ہیں جو اس واقعہ کے خلاف پڑتی ہیں اور ان آیات کا در حقیقت اس واقعہ سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ پھر بھی بڑے بڑے علماء نے اس کا ذکر کچھ نہ کچھ مثبت معنوں میں کیا ہے اس لئے ان کے نام جاننے چاہئیں (میں نے یوٹیوب پر رشدی صاحب کی زبانی یہ نام سنے ہیں) اور مولانا مودودیرحمۃ اللہ علیہ اپنی تفصیل میں لکھتے ہیں:
”یہ قصّہ ابن جریررح اور بہت سے مفسرین نے اپنی تفسیروں میں ، ابن سعد نے طبقات میں ، الواحدی نے اسباب النزول میں ، موسٰے بن عقبہ نے مغازی میں ، ابن اسحاق نے سیرت میں اور ابن ابی حاتم ، ابن المنذر ، بزّار ، ابن مردویہ اور طبرانی نے اپنے احادیث کے مجموعوں میں نقل کیا ہے ۔ جن سندوں سے یہ نقل ہوا ۔ ۔ ۔ قصے کی تفصیلات میں چھوٹے چھوٹے اختلافات چھوڑ کر دو بڑے اختلافات ہیں ایک یہ کہ بتوں کی تعریف میں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پندرہ عبارتیں الگ الگ الفاظ میں پائیں ۔ دوسرا بڑا اختلاف یہ ہے کہ” ۔ ۔ ۔ (میں ”شیطانی الفاظ“ اپنےطریقہ سے نمبر وار لکھتا ہوں]:
۱۔ دوران وحی شیطان نے آپ پر القا کئے
۲۔ آپ سمجھے کہ یہ کلمات جبریل لائے ہیں
۳ ۔ ‘سہواً’ ‘ آپ کی زبان سے نکل گئے
۴ ۔ آپ کو اونگھ آ گئ (اور اسطرح شیطان کو موقع مل گیا کہ وہ خود یہ الفاظ کہہ دے)
۵ ۔ ‘ قصداً’ الفاظ کہے مگر انداز استفہامیہ تھا ( انکاری تھا)
۶ ۔ شیطان نے آپ کی آواز میں اپنی آواز ملا کر یہ الفاظ کہے
۷ ۔ شائد کسی مشرک نے (اسی وقت یا بعد میں) ان الفاظ کو ادا کیا
قارئین کرام ذرا ان مضحکہ خیز توجیہا ت پہ ایک نظر ڈالئے تو خود بخود ان کا بے بنیاد ہونا ظاہر ہو جائے گا ۔ اس لئے میں اور کچھ نہیں لکھتا اس کے ساتھ آپ کو دعوت دیتا ہوں کہ آپ خود تفہیم القرآن اور معارف القران (محمد شفیع) میں اس آیت کی تفسیر کا مکمل مطالعہ کریں
مولانا محمد شفیعرحمہ اللہ علیہ نے بھی نہایت خوبی سے اس کے متعلق لکھا ہے گو وہ یہ قصہ بیان نہیں کرتے اس کا حوالہ دیتے ہیں ۔ فرماتے ہیں ” یہ واقعہ جمہور محدّثین کے نزدیک ثابت نہیں ہے ۔ بعض حضرات (ابن خزیمہ) نے اسکو موضوع ملحدیں و زنادقہ کی ایجاد قرار دیا ہے“۔
ابن کثیر رح احادیث کے بیان کے بعد فرماتے ہیں: ”بے شک یہ خدا کا کلام ہے جبھی تو اس قدر اس کی حفاظت ضیانت اور نگہداشت ہے کہ کسی جانب سے کسی طریق سے اس میں باطل کی آمیزش نہیں ہو سکتی“۔
تفہیم القران میں مزید یوں ہے ”امام رازی ، قاضی ابو بکر اور آلوسی نے مفصّل بحث کر کے بڑے پرزور طریقے سے ردّ کیا ہے ۔ لیکن دوسری طرف حافظ ابن حجر جیسے بلند پایہ محدّث اور ابو بکر جصّاص جیسے نامور فقیہ اور زمخشری جیسے عقلیّت پسند مفسّر اور ابن جریر جیسے امام تفسیر و تاریخ و فقہ اس کو صحیح مانتے ہیں اور اسی کو آیت زیر بحث کی تفسیر قرار دیتے ہیں“۔
شیطانی آیات یا قصہ غرانیق کی حقیقت
اس کے بعد مولانا صحیح تنقیدی تفسیر میں جاتے ہیں جو پڑھنے کے لائق ہے مختصراً
۱۔ ان ”شیطانی آیات“ کو باقی کی سورۃ میں ملا کر پڑھیئے تو وہ صاف ”بیرونی“ نظر آتی ہیں
۲۔ سورۃ بنی اسرائیل اور سورۃ حج کی آیات بھی اگلی اور پچھلی آیات سے ملا کر دیکھیئے ان میں کہیں اس ”واقعہ“ کا موضوع یا اس کا اشارہ بھی نہیں ہے یعنی سیاق و سباق سے اختلاف ہے
۳۔ یہ آیات (بنی اسرائیل والی اور حج والی) کا زمانہءِ نزول اس ”واقعہ“ سےبہت الگ الگ ہے اگر یہ بھی مان لیا جائے تب یہ مشکل آ پڑتی ہے کہ کیا اللہ تعالٰے اتنے وقت ڈھیل دیتے رہے کہ لوگ بتوں کو اچھا سمجھ لیں تو پھر اس کا تدارک کیا جائے یا نبی کو تسلی دی جائے ؟ کوئی صاحب فہم و ذکاء یہ تصوّر نہیں کر سکتا۔
سورۃ یونس کی پندرھویں آیت تحریر بالا سورۃ نجم کی ابتدائی بحث میں نقل کر چکا ہوں ۔ جس سے بالکل صاف ظاہر ہوتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ و سلّم وحی کی حقیقت اور حیثیت سے اور اس کے ”محفوظ“ ہونے سے بخوبی واقف تھے اور اپنے مشن میں حیات طیّبہ کے آخری لمحے تک پہاڑ کی طرح جمے رہے ۔ ان تمام برسوں میں کہیں کوئی ایسا اور واقعہ نہیں بتایا گیا اور نہ ہی سارے قرآن میں اور ایک بھی لفظ کسی بت کی تعریف میں پڑھا گیا ہے ۔ ایک اور سورۃ نوح میں بتوں کے نام ہیں ۔ وہ بھی دیکھ لیجئے
قَالَ نُوحٌ رَّبِّ إِنَّہُمْ عَصَوْنِي وَاتَّبَعُوا مَن لَّمْ يَزِدْہُ مَالُہُ وَوَلَدُہُ إِلَّا خَسَارًا ﴿٢١﴾ وَمَكَرُوا مَكْرًا كُبَّارًا ﴿٢٢﴾ وَقَالُوا لَا تَذَرُنَّ آلِہَتَكُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَلَا سُوَاعًا وَلَا يَغُوثَ وَيَعُوقَ وَنَسْرًا ﴿٢٣﴾
ترجمہ ۔ نوح نے کہا ”انھوں نے میری بات ردّ کردی ۔ اور ان (رئیسوں) کی پیروی کی جو مال اور اولاد پاکر اور زیادہ نامراد ہوگئے ہیں ۔ ان لوگوں نے بڑا بھاری مکر کا جال پھیلا رکھا ہے ۔ انہوں نے کہا ہرگز نہ چھوڑو اپنے معبودوں کو اور نہ چھوڑو ‘ودّ’ کو اور ‘سواع’ کو اور نہ’ یغوث’کو اور’ یعوق’ کو اور’ نسر’کو
یہاں ان بتوں کی تعریف نہیں ہےتو سورۃ نجم والے بتوں کی تعریف چہ معنی دارد ؟ حقیقت یہ ہے کہ سارے کا سارا قرآن توحید کے اصولوں سے بھرا ہوا ہے اور اس بنیادی سبق اور پرچار کا جس طریقے سے قرآن میں ذکر ہے کسی پہلی الہامی کتاب میں نہیں یعنی توحید کی تعلیم قرآن مجید میں سب سے زیادہ ہے
ابن کثیر رحمۃ اللہ اپنی تفسیر میں امام بغوی کا قول تحریر فرماتے ہیں جو وہ ابن عبّاس رضی اللہ تعالٰے کے کلام سے اخذ کرتے ہیں کہ ایسی روایات لکھنے کے بعد خود ہی سوال کرتے ہیں کہ ”جب رسول کریم صلی اللہ علیہ و سلّم کی عصمت کا محافظ خود اللہ تعالٰے ہے تو ایسی بات کیسے واقع ہو گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ حقیقت میں ایسا نہ تھا ۔ یہ صرف شیطانی حرکت تھی ۔ رسول اللہ کی آواز نہ تھی“۔
سورۃ الحاقّہ کی آیات کج فہمیوں کی بحث میں نقل کی تھیں ان سے آگے یہ آیات ہیں
تَنزِيلٌ مِّن رَّبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٤٣﴾ وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْأَقَاوِيلِ ﴿٤٤﴾ لَأَخَذْنَا مِنْہُ بِالْيَمِينِ ﴿٤٥﴾ ثُمَّ لَقَطَعْنَا مِنْہُ الْوَتِينَ ﴿٤٦ ) فَمَا مِنكُم مِّنْ أَحَدٍ عَنْہُ حَاجِزِينَ ﴿٤٧﴾
ترجمہ ۔ یہ (قرآن) ربّ العالمین کی طرف سے نازل ہوا ہے ۔ اور اگر اس نے (نبی صلی اللہ علیہ و سلّم نے(خود گھڑ کر ) کوئی بات ہماری طرف منسوب کی ہوتی ۔ تو ہم اس کا دایاں ہاتھ پکڑ لیتے اور ا س کی گردن کی رگ کاٹ ڈالتے ۔ پھر تم میں سے کوئی (ہمیں) اس کام سے روکنے والا نہ ہوتا۔
بنی اسرآئیل کی آیات سے زیادہ سخت الفاظ استعمال ہو رہے ہیں اور یہ اس نبی کے لئے استعمال کئے جارہے ہیں جنہیں اللہ تعالٰے نے تخاطب میں اکثر مشفقانہ انداز رکھا ہے جیسے ”یا ایھا المدّثّر“ اور ”یا ایھا المزّمّل“۔ ظاہر ہے کہ ایسے سخت الفاظ صرف سچّے نبیوں پر ہی صادق آ سکتے ہیں باقی رہا یہ سوال کہ مشرکین کیوں کر سجدہ میں گرے تو اس کے لئے قارئین کرام آپ سورۃ نجم کی آیت نمبر چالیس سے
لیکر آخری آیت نمبر ۶۲ تک روانی سے خود پڑھ کر (یا ان کا ترجمہ اگر آپ میری طرح عربی نہیں سمجھتے) ان الفاظ کا اپنے دل پر اثر محسوس کیجئے تو آپ کو محسوس ہو جائےگا کہ جب اللہ جلّ شانہ حکم دے رہے ہیں:
فاسجدولاللہ واعبدوا ۔ ۔ ۔ ترجمہ ۔ جھُک جاؤ اللہ کے آگے اور بندگی بجا لاؤ تو کوئی انسان ان جلالی الفاظ سے مجبور ہوکر سجدہ کئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ یاد رکھیئے کہ مشرکین اللہ کی بڑائ سے پوری طرح واقف تھے اور ان الفاظ پر سجدہ کر رہے تھے اس رسول کی اتّباع میں جس کے خلاف تھے ۔ ان ”دیویوں“ کے ناموں پر سجدہ نہیں کر رہے تھے
اب میں آپ کی توجّہ پھر سورۃ نجم کی پہلے والی آیات کی طرف مبذول کرا نا چاہتا ہوں کہ اس میں وحی کی حقیقت کھول کر سمجھانے اور اچھی طرح سے ذہن نشین کرا دینے کے بعد اللہ تعالٰے نے وحی کی حفاظت کے کیسے اسباب مہیّا کئے ہیں ۔ وحی لانے والے بزرگ فرشتہ کو کیسی علمیت اور قوّت سے نوازا ہے ۔ تو بھلا یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ شیطان کتنا ہی ایسے ہیر پھیر کے مواقع کا متلاشی رہے ۔ اسے محکم طریقے سے اس معاملہ میں بے بس کردیا گیا ہے اور اس کی تمام راہیں مسدود کر دی گئی ہیں ۔ پھر کیا وہ جبریل امین جیسی پر شکوہ اور قد آور شخصیت پر وار کرنے کی جرات کر سکتا تھا ؟ یا رسول اکرم صلی اللہ علیہ و سلّم کی وحی وصول کرنے والی خصوصیات میں کوئی دخل اندازی کر سکتا تھا ؟
میرے لئے تو یہ بعید از قیاس ہے بلکہ قطعاً نا ممکن ہے ۔ آں حضور صلی اللہ علیہ و سلّم کی ساری حیات طیّبہ ہمارے سامنے ہے پہلی وحی سے پہلے بھی اور اس کے بعد بھی اللہ تعالٰے نے کسی موقع پر(یعنی خصوصا” آخری ۲۳ برس میں) نبی کو شیطان کے رحم وکرم پر نہیں چھوڑا ۔ حدیث میں ہے کہ آپ نے فرمایا ”شیطان ہر شخص کے ساتھ لگا ہوا ہے“۔ تو صحابہ نے عرض کیا ”یا رسول اللہ آپ کے ساتھ بھی“۔ تو فرمایا ”ہاں میرے ساتھ بھی مگر وہ مسلمان ہے اور میرا تابع ہے“۔
بعض مدعیان اجتہاد وحی کوخیالات کا کرشمہ کہتے ہیں کہ بعض افراد میں فطرۃ اپنی قوم کی بھلائی کا جذبہ ہوتا ہے،ان افراد میں غلبہ خیالات کی وجہ سےبعض مضامین کو قوت خیالیہ مہیا ہوجاتی ہے اسی غلبہ سے اآواز بھی سنائی دیتی ہے صورت بھی نظر اآتی ہے۔انہی خیالات کی وجہ سے وہ صورت باتیں کرتی ہوئی معلو م ہوتی ہےجبکہ خارج میں اس اآواز یا اس کلام کا کوئی وجود نہیں ہوتا ۔مہربانی فرماکر سائنس اور جدید علوم خصوصا مغربی علوم کی روشنی میں جلد از جلد جواب مرحمت فرمائیں۔شکریہ