Monthly Archives: November 2011

سؤر اور شراب

اس موضوع پر ياسر صاحب نے ايک تحرير لکھی تھی جس پر کچھ تبصرے بھی شرع اسلام کے حوالے سے ہوئے ۔ ميں نے اس حوالے سے لکھنے کا قصد کيا تھا اور لکھ بھی ليا تھا مگر کچھ وجوہات کے باعث شائع کرنے ميں تاخير ہوئی اور 2 ہفتے گذر گئے بمصداق پنجابی مقولہ “کڑيوں کھُنجيا کوہواں تے جا پَيندا اے”

ميں نے سُوّر کو دور سے ہی ديکھا ہے قريب سے نہيں مگر ديہات ميں زميندار لوگ جو اپنی فصل بچانے کيلئے سُوّر ہلاک کرتے رہتے ہيں اس کے متعلق کافی عِلم رکھتے ہيں اور اس کی نجس عادت کو اس کے حرام ہونے کی وجہ قرار ديتے ہيں يعنی اللہ تعالٰی نے انہی وجوہات کی بناء پر حرام کيا ہو گا

ہم اگر مسلمان ہيں يعنی يقين رکھتے ہيں کہ “اللہ کے سوا کوئی معبود نہيں” تو اللہ کا حُکم آ جانے کے بعد کسی سوال يا جواز کی تلاش کی گنجائش باقی نہيں رہتی ۔ ميں حلال و حرام کے بارے ميں قرآن شريف سے کچھ حوالے پيش کر رہا ہوں ۔ ہر مسلمان پر لازم ہے کہ قرآن شريف کو سمجھ کر پڑھے اور اس ميں مرقوم اللہ سُبحانُہُ تعالی کے احکامات پر عمل کرے ۔ اللہ ميرے سميت سب مسلمانوں کو قرآن شريف سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفيق عطا فرمائے

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آيت 173 ۔ اس نے تم پر مرا ہوا جانور اور لہو اور سور کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام کر دیا ہے، ہاں جو ناچار ہوئے (بشرطیکہ) خدا کی نافرمانی نہ کرے اور حد (ضرورت) سے باہر نہ نکل جائے اس پر کچھ گناہ نہیں بیشک خدا بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے ‏

[تفسير ابن کثير ۔ ایک مرتبہ ایک عورت نے گڑیا کے نکاح پر ایک جانور ذبح کیا تو حسن بصری نے فتویٰ دیا کہ اسے نہ کھانا چاہيئے اس لئے کہ وہ ایک تصویر کے لئے ذبح کیا گیا ۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالٰی عنہا سے سوال کیا گیا کہ عجمی لوگ جو اپنے تہوار اور عید کے موقعہ پر جانور ذبح کرتے ہیں اور مسلمانوں کو بھی اس میں سے ہدیہ بھیجتے ہیں ان کا گوشت کھانا چاہيئے یا نہیں؟ تو فرمایا اس دن کی عظمت کے لئے جو جانور ذبح کیا جائے اسے نہ کھاؤ ہاں ان کے درختوں کے پھل کھاؤ۔ پھر اللہ تعالٰی نے ضرورت اور حاجت کے وقت جبکہ کچھ اور کھانے کو نہ ملے ان حرام چیزوں کا کھا لینا مباح کیا ہے اور فرمایا جو شخص بےبس ہو جائے مگر باغی اور سرکش اور حد سے بڑھ جانے والا نہ ہو اس پر ان چیزوں کے کھانے میں گناہ نہیں
درختوں میں لگے ہوئے پھلوں کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا تو آپ نے فرمایا جو حاجت مند شخص ان سے میں کچھ کھا لے لیکر نہ جائے اس پر کچھ جرم نہیں۔ حضرت مجاہد فرماتے ہیں مطلب آیت کا یہ ہے کہ اضطراب اور بےبسی کے وقت اتنا کھا لینے میں کوئی مضائقہ نہیں جس سے بےبسی اور اضطرار ہٹ جائے، یہ بھی مروی ہے کہ تین لقموں سے زیادہ نہ کھائے غرض ایسے وقت میں اللہ کی مہربانی اور نوازش ہے یہ حرام اس کے لئے حلال ہے]

سورت ۔ 5 ۔ المآئدہ ۔ آيت ۔ 3 و 4 ۔ تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا ہوا) لہو اور سُؤر کا گوشت اور جس چیز پر خدا کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلاگھٹ کر مرجائے اور چوٹ لگ کر مرجائے اور جو گر کر مرجائے اور جو سینگ لگ کر مرجائے یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کر کھائیں۔ مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کرلو۔ اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے۔ اور یہ بھی کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو۔ یہ سب گناہ (کے کام) رہیں۔ آج کافر تمہارے دین سے نااُمید ہوگئے ہیں تو ان سے مت ڈرو اور مجھی سے ڈرتے رہو۔ (اور) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کردیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کردیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا۔ ہاں جو شخص بھوک میں ناچار ہوجائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو۔ تو خدا بخشنے والا مہربان ہے۔ تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لئے حلال ہیں (ان سے) کہہ دو کہ سب پاکیزہ چیزیں تم کو حلال ہیں۔ اور وہ (شکار) بھی حلال ہے جو تمہارے لئے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو جن کو تم نے سدھا رکھا ہو۔ اور جس (طریق) سے خدا نے تمہیں (شکار کرنا) سکھایا ہے۔ (اس طریق سے) تم نے انکو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمہارے لئے پکڑ رکھیں اس کو کھالیا کرو اور (شکاری جانوروں کے چھوڑنے وقت) خدا کا نام لیا کرو۔ اور خدا سے ڈرتے رہو۔ بیشک خدا جلد حساب لینے والا ہے۔

سورت ۔ 6 ۔ الانعام ۔ آيت 121 ۔ اور ایسے جانوروں میں سے مت کھاؤ جن پر اللہ کا نام نہ لیا گیا ہو اور یہ کام نافرمانی کا ہے اور یقیناً شیاطین اپنے دوستوں کے دل میں ڈالتے ہیں تاکہ یہ تم سے جدال کریں اور اگر تم ان لوگوں کی اطاعت کرنے لگو تو یقیناً تم مشرک ہو جاؤ گے۔‏

سورت ۔ 6 ۔ الانعام ۔ آيت 145 ۔ آپ کہہ دیجئے جو کچھ احکام بذریعہ وحی میرے پاس آئے ان میں تو میں کوئی حرام نہیں پاتا کسی کھانے والے کے لئے جو اس کو کھائے، مگر یہ کہ وہ مردار ہو یا کہ بہتا ہوا خون ہو یا خنزیر کا گوشت ہو، کیونکہ وہ بالکل ناپاک ہے یا جو شرک کا ذریعہ ہو کر غیر اللہ کے لئے نامزد کر دیا گیا ہو پھر جو شخص مجبور ہو جائے بشرطیکہ نہ تو طالب لذت ہو اور نہ تجاوز کرنے والا ہو تو واقع ہی آپ کا رب غفور و رحیم ہے۔‏

سورت ۔ 16 ۔ الانحل ۔ آيت 115 ۔ تم پر صرف مردار اور خون اور سور کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا جائے حرام ہیں پھر اگر کوئی بےبس کر دیا جائے نہ وہ خواہشمند ہو اور نہ حد سے گزر جانے والا ہو تو یقیناً اللہ بخشنے والا رحم کرنے والا ہے۔‏

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آيت 219 ۔ لوگ تم سے شراب اور جوئے کا حکم دریافت کرتے ہیں کہہ دو کہ ان میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لئے کچھ فائدے بھی ہیں مگر ان کے نقصان فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ (خدا کی راہ میں) کونسا مال خرچ کریں کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو، اس طرح خدا تمہارے لئے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سوچو

سورت ۔ 10 ۔ يونس ۔ آيت 59 ۔ کہو کہ بھلا دیکھو تو خدا نے تمہارے لئے جو رزق نازل فرمایا۔ تو تم نے اس میں سے (بعض کو) حرام ٹھیرایا اور (بعض کو) حلال’ (ان سے) پوچھو کیا خدا نے تمہیں اس کام کا حکم دیا ہے یا تم خدا پر افترا کرتے ہو؟ ‏

وما علينا الابلاغ

اہم اعلانات

سُنيئے جنابِ والا
کيا کہتا ہے منادی والا
منادی سُنيئے غور سے
پھر بات کيجئے کسی اور سے

باوثوق ذرائع کی اطلاع ہے [يہ سياسی ذرائع نہيں بلکہ اصلی ہيں] کہ

پہلا اعلان ۔ منکہ مسمی افتخار اجمل بھوپال بروز منگل بتاريخ 15 نومبر رات ساڑھے آٹھ بجے اپنی دوسری يعنی داہنی آنکھ کی جراحی کيلئے آئی کلينک ميں نيک لوگوں کی دعاؤں کا منتطر ہو گا ۔ اللہ کرے سب کام بخير و خوبی انجام پائے ۔ جراحی کا عمل اُميد ہے رات گيارہ بجے تک مکمل ہو جائے گا ۔ اس کے بعد ايک ہفتہ تک فدوی کی کمپيوٹر سے چھٹی ہو گی

دوسرا اعلان ۔ کچھ بھتيجياں بھتيجے ميرے ساتھ گلہ کرتے رہتے ہيں کہ اُن کے ہاں ميرا بلاگ نہيں کھُلتا ۔ اُن کی خواہشات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے ميں نے ارادہ کيا ہے کہ موجودہ سرور کی جگہ دوسرے کسی ايسے سرور پر ڈومين خريد کروں جو پی ٹی سی ايل کا انٹرنيٹ استعمال کرنے والے بھی آسانی سے کھول سکيں ۔ يہ تبادلہ اگلے ماہ يعنی دسمبر 2011ء ميں کرنے کا ارادہ ہے ۔ اللہ کرے سب کام بخير و خوبی انجام پائے ۔ يہ کام ميری بيٹی اور بڑے بيٹے زکريا نے کرنا ہے جو کہ اس فن کے ماہر ہيں پھر بھی ہوسکتا ہے کہ اس تبادلے کے دوران کوئی فنی دشواری پيش آئے اور ميرا بلاگ چند دن نہ کھُل سکے ۔ اسلئے پيشگی اعلان کر ديا گئے ہے تا کہ سند رہے

يومِ اقبال پر ہموطنوں کے نام

ملک ميں بہتری اس وقت تک نہيں آ سکتی جب تک کل پاکستانی بالغوں ميں سے کم از کم 50 فيصد کا عمل شاعرِ مشرق علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے کلام کے مندرجہ ذيل تراشوں کی زد سے باہر نہ نکل جائے

تربيت عام تو ہے ، جوہر قابل ہی نہيں ۔ ۔ ۔ جس سے تعمير ہو آدم کی ، يہ وہ گِل ہی نہيں

ہاتھ بے زور ہيں ، الحاد سے دل خوگر ہيں ۔ ۔ ۔ اُمتی باعث رسوائی پيغمبر ہيں

منفعت ايک ہے اس قوم کی ، نقصان بھی ايک ۔ ۔ ۔ ايک ہی سب کا نبی ، دين بھی ايمان بھی ايک
حرم پاک بھی’ اللہ بھی’ قرآن بھی ايک ۔ ۔ ۔ کچھ بڑی بات تھی ہوتے جو مسلمان بھی ايک
فرقہ بندی ہے کہيں اور کہيں ذاتيں ہيں ۔ ۔ ۔ کيا زمانے ميں پنپنے کی يہی باتيں ہيں ؟
کون ہے تارکِ آئين رسول مختار ؟ ۔ ۔۔ مصلحت وقت کی ہے کس کے عمل کا معيار ؟
کس کی آنکھوں ميں سمايا ہے شعار اغيار ؟ ۔ ۔ ۔ ہوگئی کس کی نگہ طرز سلف سے بيزار ؟
قلب ميں سوز نہيں ، روح ميں احساس نہيں ۔ ۔ ۔ کچھ بھی پيغام محمد کا تمہيں پاس نہيں

واعظِ قوم کی وہ پختہ خيالی نہ رہی ۔ ۔ ۔ برق طبعی نہ رہی، شعلہ مقالی نہ رہی
رہ گئی رسم اذاں ، روح بلالی نہ رہی ۔ ۔ ۔ فلسفہ رہ گيا ، تلقين غزالی نہ رہی

وضع ميں تم ہو نصارٰی تو تمدن ميں ہنُود ۔ ۔ ۔ يہ مسلماں ہيں جنہيں ديکھ کے شرمائيں يہُود
يوں تو سيّد بھی ہو، مرزا بھی ہو، افغان بھی ہو ۔ ۔ ۔ تم سبھی کچھ ہو ، بتاؤ تو مسلمان بھی ہو ؟

ہر کوئی مست مے ذوق تن آسانی ہے ۔ ۔ ۔ تم مسلماں ہو ، يہ انداز مسلمانی ہے ؟
حيدری فقر ہے نہ دولت عثمانی ہے ۔ ۔ ۔ تم کو اسلاف سے کيا نسبت روحانی ہے؟
وہ زمانے ميں معزز تھے مسلماں ہو کر ۔ ۔ ۔ اور تم خوار ہوئے تارک قرآں ہو کر
تم ہو آپس ميں غضب ناک، وہ آپس ميں رحيم ۔ ۔ ۔ تم خطاکار و خطابيں، وہ خطا پوش و کريم

عيدالاضحٰے مبارک

عيد سے پچھلی رات مغرب کی نماز کے بعد سے عيد کے تيسرے دن نصف النہار تک يہ ورد رکھيئے اگر زيادہ نہيں تو ہر نماز کے بعد ايک بار ۔ مزيد عيد کی نماز کو جاتے ہوئے اور واپسی پر بھی يہ ورد رکھيئے

اللہُ اکبر اللہُ اکبر لَا اِلَہَ اِلْاللہ وَحْدَہُ لَا شَرِیْکَ لَہُ
لَہُ الّمُلْکُ وَ لَہُ الْحَمْدُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیٍ قَدِیر
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیرہ والحمدُللہِ کثیِرہ و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا

جنہوں نے حج کی سعادت حاصل کی ہے ان کو حج مبارک ۔ اللہ ان کا حج قبول فرمائے
سب مسلمانوں کو عیدالاضحٰے مبارک ۔ اللہ سب مسلمانوں کو اپنی شريعت پر قائم کرے اور شيطان کے وسوسوں سے بچائے
جنہوں نے سیّدنا ابراھیم علیہ السلام کی سُنّت کی پيروی کرتے ہوئے قربانی کی ہے اللہ اُن کی قربانی قبول فرمائے
ہمارے مُلک کو ہر انسانی اور قدرتی آفت سے محفوظ فرمائے
قارئين سے بھی دعا کی درخواست ہے

تحريک آزادی جموں کشمير ۔ چند حقائق

جو جمعہ 24 اکتوبر 1947ء کو ہوا تھا ميں 24 اکتوبر 2011ء کو لکھ چکا ہوں ۔ اب حسبِ وعدہ پس منظر اور پيش منظر کا مختصر خاکہ

ماؤنٹ بیٹن کی بھارت نوازی

وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے 3 جون 1947ء کو نیم خود مختار ریاستوں کے متعلق یہ فیصلہ دیا کہ وہاں کے حاکم جغرافیائی اور آبادی کی اکثریت کے لحاظ سے پاکستان یا بھارت کے ساتھ الحاق کر سکتے ہیں ۔ یہ فیصلہ مُبہم تھا اور بھارت اپنی طاقت کے بل بوتے پر بھارت کے اندر یا بھارت کی سرحد پر واقع تمام ریاستوں پر قبضہ کر سکتا تھا اور ہوا بھی ایسے ہی ۔ بھارت نے فوجی طاقت استعمال کر کے پاکستان کے ساتھ الحاق کا اعلان کرنے والی ریاستوں یعنی حیدر آباد دکن ۔گجرات کاٹھیا واڑ اور مناوادور پر حملہ کر کے قبضہ کر لیا ۔ وجہ یہ بتائی کہ وہاں مسلمان اکثریت میں نہیں تھے ۔ مگر پھر مسلم اکثریت والی ریاستوں کپورتھلہ اور جموں کشمیر پر بھی فوج کشی کر کے قبضہ کر لیا

قراداد الحاق پاکستان

مسلم کانفرنس کے لیڈروں نے باؤنڈری کمیشن کی ایماء پر دیئے گئے لارڈ ماؤنٹ بیٹن کے ریاستوں کے متعلق فیصلہ میں چھپی عیّاری کو بھانپ لیا ۔ اس وقت مسلم کانفرنس کے صدر چوہدری غلام عباس جیل میں تھے ۔ چنانچہ قائم مقام صدر چوہدری حمیداللہ نے مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ کا اجلاس بلایا جس نے یہ قرار داد منظور کر کے مہاراجہ ہری سنگھ کو بھیجی کہ اگر مہاراجہ نے تقسیم ہند کے اصولوں کے مطابق ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ نہ کیا تو مسلمان مسلح تحریک آزادی شروع کر دیں گے ۔

جب جیل میں چوہدری غلام عباس کو اس کا علم ہوا تو وہ ناراض ہوئے ۔ انہوں نے ہدائت کی کہ مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل کا اجلاس بلا کر قرارداد الحاق پاکستان پیش کی جائے ۔ چنانچہ 19 جولائی 1947 کو جنرل کونسل کا اجلاس ہوا جس میں یہ قرارداد متفقہ طور پر منظور کی گئی کہ “3 جون 1947 کے باؤنڈری کمیشن کے اعلان سے خود مختار ریاستوں کا مستقبل مخدوش ہو گیا ہے لہذا جموں کشمیر کی سواد اعظم اور واحد پارلیمانی جماعت آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس کی جنرل کونسل بڑے غور و خوض کے بعد اس نتیجہ پر پہنچی ہے کہ جغرافیائی ۔ اقتصادی ۔ ثقافتی اور مذہبی لحاظ سے ریاست جموں کشمیر کا الحاق پاکستان سے ہونا ناگزیر ہے لہذا یہ اجلاس یہ فیصلہ کرنے پر مجبور ہے کہ داخلی معاملات ریاست کے عوام ایک منتخب حکومت کے ذریعہ چلائیں گے جب کہ دفاع ۔ خارجی امور اور کرنسی پاکستان کے ماتحت ہوں گے” ۔

تحریک آزادی کا کھُلا اعلان

مہاراجہ ہری سنگھ کی طرف سے کسی قسم کا جواب نہ ملنے پر جس مسلح تحریک کا نوٹس مسلم کانفرنس کی مجلس عاملہ نے مہاراجہ ہری سنگھ کو دیا تھا وہ 23 اگست 1947ء کو جموں کشمير کے مسلمان فوجيوں نے نیلا بٹ سے شروع کی ۔ اس ميں شہری بھی شامل ہوتے گئے ۔ يہ تحريک ستمبر 1947ء میں گلگت اور بلتستان میں پروان چڑھی اور پھر اکتوبر میں مظفرآباد ۔ پونچھ ۔ کوٹلی ۔ میرپور اور بھِمبَر تک پھیل گئی

گلگت بلتستان کی آزادی

گلگت کا علاقہ انگریزوں نے پٹے پر لیا ہوا تھا اور اسکی حفاظت گلگت سکاؤٹس کے ذمہ ہوا کرتی تھی جو سب مسلمان تھے ۔ گلگت سکاؤٹس کے صوبیدار میجر بابر خان آزادی کے متوالے تھے ۔ جموں کشمیر کے راجہ نے گلگت سے 50 کلومیٹر دور بونجی کے مقام پر چھاؤنی اور ریزیڈنسی بنائی ہوئی تھی جہاں چھٹی جموں کشمیر اِنفنٹری کے فوجی تعینات ہوتے تھے ۔ چھٹی جموں کشمیر اِنفنٹری کےمسلمان آفیسروں میں کرنل عبدالمجید جو جموں میں ہمارے ہمسایہ تھے ۔ کرنل احسان الٰہی ۔ میجر حسن خان جو کیپٹن ہی جانے جاتے رہے ۔ کیپٹن سعید درّانی ۔ کیپٹن محمد خان ۔ کیپٹن محمد افضل اور لیفٹیننٹ غلام حیدر شامل تھے ۔ پٹے کی معیاد ابھی ختم نہیں ہوئی تھی کہ ہندوستان کی آزادی معرضِ وجود میں آ گئی اور انگریزوں نے ہندوستان چھوڑنا شروع کر دیا چنانچہ جموں کشمیر کے مہاراجہ ہری سنگھ نے گھنسار سنگھ کو گلگت کا گورنر مقرر کر کے بونجی بھیجا ۔ یہ تعیناتی چونکہ نہائت عُجلت میں کی گئی تھی اسلئے گورنر گھنسار سنگھ کے پاس علاقہ کا انتظام چلانے کے کوئی اختیارات نہ تھے سو وہ صرف کاغذی گورنر تھا ۔

ہوا یوں کہ چھٹی جموں کشمیر اِنفینٹری کی رائفل کمپنی کے کمانڈر میجر حسن خان کو اپنی کمپنی کے ساتھ گلگت کی طرف روانگی کا حُکم ملا ۔ یکم ستمبر 1947 کو وہ کشمیرسے روانہ ہوا تو اُس نے بآواز بلند پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگایا اور پوری کمپنی نے اُس کا ساتھ دیا ۔ یہ وہ وقت تھا جب سارے جموں کشمیر میں دفعہ 144 نافذ تھی اور اس کے باوجود جموں شہر میں آزادی کے متوالے مسلمان جلوس نکال رہے تھے جس میں پاکستان زندہ باد کے نعرے لگتے تھے ۔ میجر حسن خان کی کمپنی جب استور پہنچی تو شہری مسلمانوں کی حمائت سے نیا جوش پیدا ہوا اور آزادی کے متوالوں نے دل کھول کر پاکستان زندہ باد کے نعرے لگائے ۔ اس کمپنی نے پاکستان زندہ باد کے نعرے لگاتے ہوئے اور باقی آزادی کے متوالوں کو ساتھ ملاتے اپنا سفر جاری رکھا ۔ گلگت پہنچنے تک گلگت سکاؤٹس بھی ان کے ساتھ مل چکے تھے ۔

بھارتی فوجوں کے 27 اکتوبر 1947 کو جموں میں زبردستی داخل ہونے کی اطلاع گلگت بلتستان میں 30 اکتوبر 1947 کو پہنچی ۔ 31 اکتوبر کو صوبیدار میجر بابر خان نے بونجی پہنچ کر گلگت سکاؤٹس کی مدد سے گورنر گھنسار سنگھ کے بنگلہ کا محاصرہ کر لیا ۔ گورنر کے ڈوگرہ فوجی محافظوں کے ساتھ جھڑپ میں ایک سکاؤٹ شہید ہو گیا ۔ گھنسار سنگھ کو حسن خان اور اس کے ساتھیوں کی استور میں نعرے لگانے کا علم ہو چکا تھا ۔ اُس نے 31 اکتوبر کوصبح ہی ٹیلیفون پر چھٹی اِنفینٹری کے کمانڈر کرنل عبدالمجید کو ایک سِکھ کمپنی فوراً بونجی بھجنے اور خود بھی میجر حسن خان کو ساتھ لے کر بونجی پہنچنے کا کہا ۔ کرنل عبدالمجید خود بونجی پہنچا اور میجر حسن خان کو اپنی کمپنی سمیت بونجی پہنچنے کا حکم دیا مگر سکھ کمپنی کو کچھ نہ کہا ۔ کرنل عبدالمجید کے بونجی پہنچنے سے پہلے گلگت سکاؤٹس کی طرف سے گھنسار سنگھ تک پیغام پہنچایا جا چکا تھا کہ ہتھیار ڈال دو ورنہ مرنے کے لئے تیار ہو جاؤ ۔ کرنل عبدالمجید نے میجر حسن خان اور صوبیدار میجر بابر خان سے گھنسار سنگھ کی جان کی ضمانت لے لی اور گھنسار سنگھ نے گرفتاری دے دی ۔

گلگت بلتستان میں آزاد حکومت

میجر حسن خان نے یکم نومبر 1947 کو گلگت اور بلتستان میں اپنی آزاد حکومت قائم کی اور قائد اعظم اور صوبہ سرحد کے خان عبدالقیّوم خان کو گلگت بلتستان کا عنانِ حکومت سنبھالنے کے لئے خطوط بھجوائے ۔ یہ گلگت اور بلتستان کا پاکستان سے الحاق کا اعلان تھا ۔
3 نومبر 1947 کو بونجی میں گورنر کے بنگلے پر ایک پُروقار مگر سادہ تقریب میں آزاد ریاست کا جھنڈا لہرایا گیا ۔ اس طرح سوا صدی کی غلامی کے بعد گلگت بلتستان میں پھر مسلمانوں کی آزاد حکومت باقاعدہ طور پر قائم ہو گئی ۔ 15 نومبر 1947 کو پاکستان کے نمائندہ سردار عالم نے پہلے پولیٹیکل ایجنٹ کے طور پر عنان حکومت سنبھال لیا ۔

پاکستان کے کمانڈر انچیف کی حکم عدولی

جب بھارت نے فیصلوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے 27 اکتوبر 1947 کو جموں کشمیر میں فوجیں داخل کر دیں تو قائداعظم نے پاکستانی فوج کے برطانوی کمانڈر انچیف جنرل گریسی کو جموں کشمیر میں فوج داخل کرنے کا حکم دیا ۔ اس نے یہ کہہ کر حکم عدولی کی کہ میرے پاس بھارتی فوج کا مقابلہ کرنے کے لئے سازوسامان نہیں ہے ۔

اقوامِ متحدہ کی قرار دادیں

بھارت کو جموں کشمیر سے ملانے والا واحد راستہ پٹھانکوٹ سے جموں کے ضلع کٹھوعہ میں داخل ہوتا تھا جو ریڈکلف اور ماؤنٹ بیٹن نے گورداسپور کو بھارت میں شامل کر کے بھارت کو مہیا کیا تھا ۔ بھارت نے خطرہ کو بھانپ لیا کہ مجاہدین نے کٹھوعہ پر قبضہ کر لیا تو بھارت کے لاکھوں فوجی جو جموں کشمیر میں داخل ہو چکے ہیں محصور ہو جائیں گے ۔ چنانچہ بھارت کے وزیراعظم جواہر لال نہرو نے اقوام متحدہ سے رحم کی بھیک مانگی

اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس ہوا ۔ پنڈت نہرو نے اقوام متحدہ میں تقریر کرتے ہوئے یقین دہانی کرائی کہ امن قائم ہوتے ہی
رائے شماری کرائی جائے گی اور جو فیصلہ عوام کریں گے اس پر عمل کیا جائے گا اور فوری جنگ بندی کی درخواست کی
اس معاملہ میں پاکستان کی رائے پوچھی گئی ۔ پاکستان کے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان جنگ بندی کے حق میں نہیں تھے مگر وزیرِ خارجہ سر ظفراللہ نے کسی طرح ان کو راضی کر لیا
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے جنوری 1948 میں جنگ بندی کی قرارداد اس شرط کے ساتھ منظور کی کہ اس کے بعد رائے شماری کرائی جائے گی اور عوام کی خواہش کے مطابق پاکستان یا بھارت سے ریاست کا الحاق کیا جائے گا
پھر یکے بعد دیگرے کئی قرار دادیں اس سلسلہ میں منظور کی گئیں
مجاہدین جموں کشمیر نے پاکستان کی عزت کا خیال کرتے ہوئے جنگ بندی قبول کر لی
بعد میں نہ تو بھارت نے یہ وعدہ پورا کیا نہ اقوام متحدہ کی اصل طاقتوں نے اس قرارداد پر عمل کرانے کی کوشش کی