Monthly Archives: April 2009

اصل خطرہ پاکستان ہے

وزیرِ خارجہ کا منصب سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبے ایک روسی روزنامے کو انٹرویو دیتے ہوئے اویگدور لیبر مین کا کہنا تھا

” اگرچہ ایران کی صورت میں اسرائیل کے لئے ایک ممکنہ جوہری خطرہ موجود ہے لیکن اس وقت اسرائیل کے لئے سب سے بڑا سٹریٹیجک خطرہ اب ایران نہیں بلکہ پاکستان اور افغانستان ہیں ۔ پاکستان ایک غیر مستحکم جوہری طاقت ہے جبکہ افغانستان کو طالبان کے ممکنہ قبضے کا سامنا ہے اور ان دونوں ملکوں کے اشتراک سے انتہاپسندی کے زیر اثر ایک ایسا علاقہ وجود میں آ سکتا ہے جہاں اسامہ بن لادن کے خیالات کی حکمرانی ہو ۔ اس خیال سے چین ۔ روس اور امریکہ میں سے کوئی بھی خوش نہیں”

پاکستان کے ثقافتی ہٹلر

میں ثقافت کے متعلق چار مضامین لکھ چکا ہوں ۔ اب حاضر ہے ثقافت کا حال ثقافت سے منسلک ایک نامور شخص کے الفاظ میں

پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس اسلام آباد ،ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں فیض احمد فیض کی سربراہی میں قائم ہوا۔ اسکامقصد پاکستان میں فن اور فنکاروں کی فلاح اور بہبود کیلئے کونسلنگ کرنا تھا۔ ادارے کا مونو مسز ایلس کے کہنے پہ میں نے ڈیزائن کیا ۔ پہلے یہ منسٹری آف ایجوکیشن کے ماتحت تھا، اسکے بعد منسٹری آف کلچر کے تحت ”اپنا کام “کرنے لگا۔فیض صاحب کے جانے کے بعد یہ ادارہ آرٹ اورآرٹسٹوں کی بھلائی کی بجائے وفاقی حکومتوں کا بھرتی دفتر بن گیا ۔

نیشنل کونسل آف آرٹس کے دفاتر پچھلے پینتیس سالوں سے اسلام آباد میں کرائے کے مکانوں میں قائم تھے۔ پرویز مشرف کے دور میں اس کا اپنادفتر بنا جو باہر سے اتنا ہی بدنما ہے جتنا اندرسے خوبصورت ہے۔دفتر کی افتتاحی تقریب میں انہی لوگوں کو مدعو کیا گیا جوپرویز مشرف کے منظور نظر تھے۔آرٹس کونسل کی افتتاحی تختی پرویز مشرف کے نام کی بنوائی گئی جسے آنے والے وقت میں یا دور میں ہٹا دیا جائے گا یا اسے چھپا دیا جائے گا۔اچھاتویہ ہوتا اگرافتتاح کسی نامور فنکار سے کرایا جاتا جسے عوام چاہتے ہیں یا جو سیاسی لیڈروں کی طرح متنازع نہیں، تو تختی ہٹانے پہ شرمندگی نہ ہوتی۔

اگر فیض صاحب کے بعد پاکستان نیشنل کونسل سیاسی بھرتی دفتر نہ بنتا تو آج شائد ہم فلم، تھیٹر،موسیقی اور فنون لطیفہ میں زوال پذیر نہ ہوتے۔ہم عدلیہ کو آزاد کرانے کیلئے جلوس تو نکالتے ہیں مگر خود کہیں بھی عدل نہیں کرتے۔یہی وجہ ہمارے معاشرے میں فنون لطیفہ کے فیل ہونے کی ہے۔ ثقافت عوام سے بنتی ہے اور عوام ہی اسے پروان چڑھاتے ہیں۔جس معاشرے میں ثقافت کی منسٹری ہو اورجہاں ایک جنرل ثقافتی ادارے کا افتتاح کرتا ہو وہاں کی ثقافت کاوہی حال ہوگا جو آج کل ہمار ی ثقافت کاہے۔

لوک ورثہ:اسلام آباد میں عکسی مفتی نے اپنے سرکاری ٹورز کیلئے ایک ادارہ بنوایا جسے لوک ورثہ کہا جاتاہے۔ اس دفتر میں بھی ہم نے دس سال کام کیا اور لوک ورثہ میوزیم کی بنیاد ڈالی۔ہم اکثر ان سے کہتے تھے کہ آپ نے دستکاروں کا ساز و سامان تو سجا لیا ہے کبھی انکے دستکاروں کا حال بھی پوچھ لیجئے جوکس مپرسی کی حالت میں برائے نام زندہ ہیں۔ لوک ورثہ بھی سیاسی بھرتی دفتر بنا رہا اور تیس سال تک اس ادارے کا سربراہ ثقافتی ہٹلر بن کے اس پر حکومت کرتا رہااور پھر اسی کے چہیتوں نے اس کا تختہ الٹ کر لوک ورثہ پہ قبضہ کرلیا۔ بقول سرگم، لوک ورثہ عوام کا نہیں بلکہ ادارے کے سربراہ کا ورثہ ہے ۔ اس ورثے میں پچھلے دنوں پرویز مشرف اور انکی بیگم کے بڑے بڑے پورٹریٹ لگے ہوئے تھے جو حکومت کے تبدیل ہوتے ہی ہٹادیئے گئے۔

جب ہم کبھی لوک ورثہ میں تھے تو ایک دن ہمیں منسٹری آف کلچر کے جائنٹ سیکرٹیری کا فون آیا اور ہم سے کہا گیا کہ ہماری فیملی نے لوک ورثہ کی سیر کرنی ہے اسلئے لوک ورثہ کی سرکاری گاڑی بھجوائی جائے اور یہ بھی بتایا جائے کہ لوک ورثہ کہاں واقع ہے؟ہم بڑے حیران ہوئے کہ ہمارے ہی محکمے کے افسر اعلیٰ جو کئی سالوں سے اس پہ حکومت کر رہے ہیں انہیں لوک ورثے کا محل وقوع معلوم نہیں۔ ہمارے خیال میں لوک ورثہ کا اصل مقصد غیر ملکی سربراہان کی بیویوں کا سرکاری دورں کے دوران انکا وقت پاس کرانا ہی ہے۔

وفاقی فلم سنسر بورڈ:اسلام آباد میں ایک فلم سنسر بورڈ بھی ہے جو دوسرے ثقافتی اداروں کی طرح سیاسی رشوت دینے کے کام آتا ہے۔ چونکہ پاکستان میں اب برائے نام فلمیں بنتی ہیں لہٰذا فلم سنسر بورڈ کے چیئر مین کا کام ایر کنڈیشنڈ دفتر میں میں بیٹھ کر کافی پینا یا فلمی اداکارؤں سے سرکاری فون پر بات کرنا ہی رہ گیا ہے۔ ہم چونکہ پاکستانی فلموں پہ تنقید کیا کرتے تھے چنانچہ ہمیں سزا کے طور پہ فلم سنسر بورڈ کا ممبر بنا دیا گیا۔ ہم اب پاکستانی فلموں پہ اتنی ہی تنقید کرتے ہیں جتنی کہ ملک میں فلمیں بنتی ہیں۔ سنسر بورڈ کے پروجیکشن ہال کا وہی حال ہے جو ہماری فلموں کا ہے۔ ہال میں جب کبھی کبھار کوئی فلم آتی تو حال میں سنسر کرنے والے چند وہ لوگ اونگتے نظر آتے جن کا فنون لطیفہ سے دور دور تک کوئی تعلق واسطہ نہیں ہوتا۔ ایک بار ہم نے سنسر بورڈ کا ہال فل دیکھا تو پتہ چلا کہ آج انڈین فلم مغل اعظم لگنی ہے جس میں چیئر مین صاحب کے منظور نظر لوگوں کوخاص طور پہ دعوت دی گئی ہے۔

راولپنڈی آرٹس کونسل: فنون لطیفہ کے نام پہ قائم کی گئی یہ کونسل بھی پنجاب حکومت کے ماتھے پہ ایک بدنما داغ ہے۔ اس ادرے پہ پچھلے تیس پینتیس سالوں میں ایک ہی ڈائریکٹر نے حکومت کی۔ہم بھی اس ادارے کے ڈرامے کے بورڈ ممبر رہے۔اسکا سالانہ بجٹ آرٹ کی ترویج سے زیادہ اسکے انتظامی امور کا ہے۔ سال میں ایک دو عورتوں کی کُکنگ کلاسوں اور تصویری نمائشوں کے علاوہ یہ بھی اپنے نو تعمیر شدہ ڈرامہ ہال کی طرح بنجر ہی رہتی ہے۔اس ادارے میں بھی لوکل فنکاروں کے بجائے ادارے کے ملازمین کی فلاح و بہبود کا کام بڑی محنت اور تسلسل ہوتا ہے۔ ادارے میں ڈائریکٹر تو موجود ہے مگر فنکاروں کی کوئی ڈائریکٹری نہیں ، اگر ہوتی تو ہمارا نام بھی کبھی کسی فنکشن میں مدعو کرنے کیلئے ہوتا۔تو جناب پاکستان نے جتنی ثقافتی ترقی کرنی تھی وہ اسنے ان لوگوں کے دور میں کر لی جن کی پیدائش پاکستان بننے سے پہلے کی ہے۔ 62سالوں میں ہم نے نہ تو یہ فیصلہ کیا کہ ہماری سیاست کیا ہے اور ثقافت کیا ہے؟ ہم گانے والوں کو کنجر مراثی بھی کہتے ہیں اور انہیں پرائڈ آف پرفارمنس بھی دیتے ہیں

تحریر ۔ پُتلی تماشہ کے فاروق قیصر کی

یہ کراچی ہے

گلستان جوہر بلاک13 اور18 اور پہلوان گوٹھ میں جاری دو گروہوں کے درمیاں کشیدگی میں ایک مرتبہ پھر شدت آگئی جس کے نتیجے میں جوہر چورنگی سے پہلوان گوٹھ اور جناح انٹرنیشنل ائیر پورٹ کو ملانے والی شاہراہ کو بلاک کردیا گیا
سٹرک پر مسلح افراد کھُلے عام فائرنگ کرتے رہے ۔ فائرنگ اتنی شدید تھی کہ لوگ گھروں میں محصور ہونے پر مجبور ہوگئے اور علاقے میں شدید خوف وہراس پھیل گیا
مشتعل شرپسندوں نے ایک پانی کے ٹینکر سمیت 9 گاڑیوں کو آگ لگا دی اور سٹرک پر کھڑی دو درجن سے زائد گاڑیوں کے بھی شیشے توڑ دیئے
پولیس کو جائے وقوعہ پر طلب کیا گیا لیکن پولیس اہلکاروں نے ہنگامہ آرائی کی جگہ پر جانے سے گریز کیا
نامعلوم افراد نے رابعہ سٹی میں واقع فلیٹ میں گھس کے45 سالہ محمد شفیق کو گولیاں مار کر زخمی کردیا جسے تشویشناک حالت میں ہسپتال منتقل کیا گیا

گھڑی نہ ہو تو بچت کیسے ہو ؟

وزیر برائے پانی و بجلی کے 15 اپریل سے گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کرنے کا حُکم صادر کیا جواز یہ تھا کہ اس سے بجلی کے استعمال میں بچت ہو گی ۔ ایک معصوم سے شخص نے پوچھا ” جس غریب کے پاس گھڑی ہی نہ ہو ۔ وہ بجلی کی بچت کیسے کرے ؟” میرے پاس اس کا جواب نہیں ہے ۔

ہمارے حُکمرانوں کی نفسیات کچھ ایسی ہو چُکی ہے کہ ہر وہ عمل جو فرنگی اختیار کرے اُسے بغیر سوچے سمجھے اختیار کرنے میں بہتری خیال کرتے ہیں ۔ایک پرانی ضرب المثل ہے کہ دوسرے کا منہ سُرخ دیکھ کر اپنا تھپڑ مار مار کر سُرخ کر لینا ۔ فرنگیوں کے جغرافیائی اور ترقیاتی حالات وطنِ عزیز اور اس کے گرد و نواح کے حالات سے مختلف ہیں اس لئے یورپ اور امریکہ بجلی کی بچت کیلئے نہیں بلکہ قدرتی روشنی سے مستفید ہونے کیلئے گرمیوں میں گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے کر لیتے ہیں اور سردیوں میں واپس ۔ ان ممالک کے لوگ گھڑیاں آگے اور پیچھے کرنے کی بجائے اوقاتِ کار آگے پیچھے کر سکتے تھے مگر اُن کا زیادہ تر دفتری کاروبار کمپیوٹرائزڈ [computerised] ہوتاہے ۔ بالخصوص ملازمین کی حاضری اور تنخواہ کا نظام ہر محکمہ میں کمپیوٹرائزڈ ہے ۔ اوقاتِ کار بدلنے سے سب محکموں کے کمپیوٹروں کے پروگرام میں مناسب تبدیلیاں سال دو بار کرنا پڑتیں جو کہ وقت طلب عمل ہے اور بعض اوقات مسائل بھی پیدا کر سکتا ہے ۔ اسلئے ان ترقی یافتہ ملکوں میں گھڑیاں آگے پیچھے کرنا ہی مناسب ہے ۔

وطنِ عزیز میں تو کمپیوٹرائزیشن برائے نام ہے ۔ پھر اوقاتِ کار بدلنے میں پریشانی کیوں ؟ وطنِ عزیز میں کم از کم 1973ء تک تمام تعلیم اداروں اور دفاتر کے اوقاتِ کار یکم اپریل اور یکم اکتوبر کو تبدیل ہوا کرتے تھے ۔ یہ سلسلہ حکومت نے آج سے تیس پینتیس سال قبل ختم کر دیا ۔ دکانین صبح آٹھ بجے سے رات آٹھ بجے تک کھُلتی تھیں ۔ بعد میں دکانداروں پر نجانے کونسا بھوت سوار ہوا کہ اُنہوں نے دکانیں دوپہر کو کھولنا اور آدھی رات کو بند کرنا شروع کر دیں

بھارت سائنس اور کمپیوٹر میں عملی طور پر وطنِ عزیز سے بہت آگے ہے لیکن وہاں کسی نے گھڑیاں آگے پیچھے کرنے کا نہیں سوچا ۔ نہ سری لنکا میں ایسا ہوا ہے ۔ یہ عقلمندی صرف وطنِ عزیز کی حکومت کو ہی کیوں سُوجھی ہے ؟ یہ بھی خیال نہیں رکھا گیا کہ ہمارے ہموطنوں کی اکثریت وقت دیکھنا بھی نہیں جانتی ۔ میرے ساتھ راولپنڈی اور اسلام آباد میں بعض اوقات ایسا ہوا کہ کسی راہگذر نے وقت پوچھا ۔ میں نے کہا میرے پاس گھڑی نہیں ہے تو اس نے اپنی گھڑی والی کلائی میرے سامنے کر دی

گھڑیوں پر وقت تبدیل کرنے کے احکامات پر ہموطنوں کی اکثریت عمل نہیں کرتی ۔ نجی ادارے اور دکاندار سرکاری حُکم سے بے نیاز اپنے معمول پر قائم رہتے ہیں ۔ سرکاری اداروں کا یہ حال ہے کہ ملازمین دفتر پہنچتے تو پرانے وقت کے مطابق ہیں اور چھٹی نئے وقت کے مطابق کرتے ہیں یعنی روزانہ ایک گھنٹہ کم کام کرتے ہیں یعنی اُلٹا چھ گھنٹے فی ہفتہ کا نقصان ۔ پھر اس سارے تکلف کا فائدہ ؟

جب پچھلی حکومت نے گھڑیاں آگے کرنے کا حُکم جاری کیا تھا تو میں نے کچھ تجاویز وزیر پانی و بجلی کو بھیجی تھی اور اخباروں کو بھی لکھا تھا ۔ ڈان اور دی نیوز میں میرا خط چھپا بھی تھا ۔ پچھلے سال بھی میں نے موجودہ حکومت کو وہی تجاویز بھیجی تھی ۔ لیکن کون سنتا ہے عام شہری کی بات ۔ اس بار میں نے وہی تجاویز لکھ کر بڑے لوگوں سے میل ملاپ رکھنے والے ایک شخص کو دی تھیں ۔ یہ تجاویز مندرجہ ذیل ہیں

فوری اقدامات

1 ۔ بجلی کی ترسیل کا غیر قانونی کُنڈے نظام جہاں جہاں بھی ہے اُسے ختم کیا جائے ۔ کراچی جیسے ترقی یافتہ شہر میں بھی یہ نظام عام ہے ۔ لائین مین کھُلے بندوں کنڈا لگانے کا 1500 روپیہ مانگتے ہیں اور کوئی پوچھتا نہیں ۔ دوسرے شہروں میں بھی یہ ناسُور موجود ہے ۔ دیہات میں بھی بارسوخ لوگ بجلی کا بڑا استعمال میٹر سے مبرا ہی کرتے ہیں ۔ اسے بھی کُنڈا ہی کہنا چاہیئے

2 ۔ وزراء اور اعلٰی سرکاری ملازمین کو بے تحاشہ زیادہ بجلی مفت مہیا کی جاتی ہے اور ان لوگوں کی ماہانہ تنخواہیں اور دوسری مراعات بھی بہت ہیں ۔ واپڈا کے ملازمین کو بھی بجلی کے استعمال کی کافی چھوٹ دی گئی ہے ۔ ایک مثال ۔ واپڈا کے سکیل ۔ 19 کے ریٹائرڈ ملازم کو ساری زندگی کیلئے ماہانہ 450 یونٹ تک مفت بجلی استعمال کرنے کی اجازت ہے ۔ دوسری طرف مُلک ڈُوب رہا ہے اور یہ سب حضرات موج میلا لگائے ہوئے ہیں ۔ ان سب کی مفت بجلی کی حدوں کو کم از کم آدھا کر دیا جائے

3 ۔ تمام دکانداروں کی ایسوسی ایشنز کے ساتھ مذاکرات کر کے اُنہیں احساس دلایا جائے کہ وہ دکانیں صبح 8 بجے کھولیں اور رات 8 بجے بند کریں

4 ۔ تمام کارخانوں کے اوقاتِ کار ترتیب دیئے جائیں کہ ہر کارخانہ 24 گھنٹوں میں 8 گھنٹے اس طرح کام کریں کہ کسی بھی وقت بجلی کا خرچہ کم سے کم ہو یعنی کچھ کارخانے صبح 8 سے بعد دوپہر 2 بجے تک کام کریں ۔ کچھ بعد دوپہر 2 بجے سے رات 10 بجے تک اور کچھ رات 10 بجے سے صبح 8 بجے تک ۔ متواتر چلنے والے کارخانوں کو دورانیہ ایک ہفتہ مقرر کیا جائے اس طرح ترتیب دیا جائے کہ کسی بھی وقت بجلی کا خرچہ کم سے کم ہو

5 ۔ پیداواری منصوبہ بندی

بھاشا ڈیم جیسے ایک یا دو بہت بڑے پراجکٹس کی بجائے بہت سے چھوٹے اور درمیانے حُجم کے منصوبے شروع کئے جائیں ۔ ایسے ہر منصوبے کی لاگت بہت کم ہو گی اور یہ بہت جلد مکمل بھی ہو جائیں گے ۔ سب سے بڑی بات کہ ایسے منصوبوں کو کسی صوبے کے سیاستدان اپنی سیاست چمکانے کیلئے بھی استعمال نہیں کر سکیں گے کیونکہ ان میں جو پانی پیچھے سے آئے گا وہ آگے نکل جائے گا ۔ ایک ایسا ہی چھوٹا منصوبہ عرصہ دراز سے گجرات کے قریب شادی وال میں کام کر رہا ہے ۔ ایسے منصوبے دریائے سندھ اور جہلم کے علاوہ کئی نہروں پر بھی ایک دوسرے سے 20 سے 40 کلو میٹر کے فاصلے پر لگائے جا سکتے ہیں

آہ ۔ میری ڈائری اور میرا خزانہ

رات میں سونے کیلئے بستر پر دراز ہوا تو ماضی کی ایک یاد داشت کی تلاش میں ماضی میں بہت دُور نکل گیا اور کچھ دیر بعد بے ساختہ گنگنانے لگا

میری دنیا لُٹ گئی تھی مگر میں خاموش رہا
ٹکڑے اپنے دل کے چُنتا کس کو اِتنا ہوش تھا

لُٹا تھا کس طرح ؟

میرا خیال ہے کہ مناسب ماحول ملے تو ہر لکھنا جاننے والا ڈائری لکھے ۔ میں نے کتنی عمر میں ڈائری لکھنا شروع کی مجھے یاد نہیں ۔ میرے انجیئر بن جانے کے بعد میرے بزرگوں نے مجھے بتایا تھا کہ میں جب تیسری یا چوتھی جماعت میں تھا تو 1946ء کی گرمیوں میں جموں سے سرینگر اور واپسی کے سفر کا حال جو میں نے اپنی ڈائری میں لکھا تھا وہ زبردست تھا ۔ یہ ڈائری تو 1947ء میں پاکستان کی طرف ہجرت کے وقت جموں میں ہی رہ گئی تھی کہ ہم تین کپڑوں میں اپنی جان بچا کر نکلے تھے ۔ مجھے یاد نہیں میں نے کیا لکھا تھا ۔ اتنا یاد ہے کہ سفر دلچسپ تھا جو راستے میں بس خراب ہوجانے کی وجہ سے شاید بڑوں کیلئے پریشانی لیکن میرے لئے مزید دلچسپ بن گیا تھا

ہمارا سالانہ امتحان فروری یا مارچ 1947ء میں ہونا تھا لیکن فسادات شروع ہونے کی وجہ سے سکول بند ہو گئے ۔ میں وسط دسمبر 1947ء میں پاکستان پہنچا اور مجھے 1948ء میں سکول داخل کرایا گیا ۔ اس طرح میرا پڑھائی کا ایک سال ضائع ہو گیا ۔ 1948ء کے آخر میں ہم راولپنڈی آ گئے جہاں مجھے اسلامیہ مڈل سکول سرکلر روڈ داخل کرا دیا گیا ۔ سکول کے کام کی مشق کرنے کیلئے کاغذ کا دستہ لے کر آیا ۔ میں نے تین ورق نکال کر ان سے سوا چار انچ ضرب ساڑھے تین اِنچ کی ڈائری بنائی ۔ پھر جو نئی چیز نظر آتی یا جو چیز پسند آتی ۔ شعر ۔ سائنس کی وہ باتیں جو ہماری کتاب میں نہ تھیں اور سفر کا حال وغیرہ سب کچھ میں اس میں لکھتا رہتا

میں جب آٹھویں جماعت میں تھا تو دوسرے ممالک کے متعلق جاننے کا شوق ہوا ۔ میں نےترکی ۔ اٹلی ۔ فرانس ۔ جرمنی ۔ ہسپانیہ اور ہالینڈ کے سفیروں کو انگریزی میں خط لکھے کہ میں ان کے مُلک میں دلچسپی رکھتا ہوں اور تعلیم اور سیر و سیاحت کے مواقع جاننا چاہتا ہوں ۔ ان سفیروں نے مجھے رنگین تصاویر والی کُتب اور رسالے بھیجے جن میں تعلیم اور سیاحت کی سب معلومات تھیں ۔ میری الماری ان کتابوں اور رسالوں سے بھر گئی جو میں پڑھتا رہتا تھا اور میرے دل میں ان ممالک کی سیر کی زبر دست خواہش پیدا ہوئی ۔ اس کے علاوہ میں اخباروں کے تراشے بھی جمع کرتا رہتا تھا جن میں حافظ مظہرالدین صاحب کی جموں کشمیر اور تحریکِ پاکستان کے متعلق نظمیں بھی شامل تھیں

دسویں میں کامیابی کے بعد مجھے ہر سال کہیں نا کہیں سے خوبصورت ڈائری مل جاتی تھی سو مجھے سہولت ہو گئی ۔ میرا ڈائری لکھنے کا شوق ہمیشہ قائم رہا ۔ میں نے انجنیئرنگ پاس کرنے کے بعد کچھ عرصہ راولپنڈی پولی ٹیکنک انسٹیٹیوٹ میں ملازمت کی ۔ یکم مئی 1963ء کو پاکستان آرڈننس فیکٹریز میں ملازمت اختیار کی اور واہ چھاؤنی میں اپنی بڑی بہن کے پاس رہنے لگا

سیٹلائیٹ ٹاؤن راولپنڈی میں ہمارا گھر تیار ہونے پر میرے گھر والے یکم اگست 1964ء کو جھنگی محلہ راولپنڈی سے سیٹلائیٹ ٹاؤن منتقل ہو گئے ۔ یہ منتقلی اچانک ہی ہوئی تھی ۔ مجھے اس کی خبر نہ ہوئی ۔ 1948ء سے لے کر اُس وقت تک میں نے اپنی ساری کتابیں ۔ نوٹس ۔ ڈائریاں ۔خاص خاص رسالے ۔ اخباروں کے تراشے اور متذکرہ بالا معلوماتی کتب سب سنبھال کر رکھے ہوئے تھے ۔ دو بڑی الماریاں بھری پڑی تھیں ۔ صرف انجنیئرنگ کی کُتب میں اپنے ساتھ واہ چھاؤنی لے گیا تھا ۔ میرے چھوٹے ماشاء اللہ تین بھائیوں نے سمجھا یہ سب ردی ہے کیوں نہ بیچ کر جیب خرچ بنایا جائے ۔ یوں 1964ء میں میری دنیا لُٹ گئی اور میرا دل اور جگر اندر ہی اندر خون کے آنسو روتے رہے مگر زبان کچھ کہہ نہ سکی ۔ خاموش نوحہ میں ہی عافیت سمجھی ۔

اُس دن مجھ پر واضح ہو گیا تھا کہ ہمارے مُلک میں علم کی کوئی قدر نہیں ۔صرف سندیں حاصل کرنا ہی تعلیم کا مقصد ہے علم حاصل کرنے کیلئے نہیں ۔ ایک میں ہی بیوقوف ہوں جو بچپن سے اب تک علم سیکھنے کے پیچھے پڑا رہتا ہوں

کراچی کے طالبان

میں نے ہفتہ عشرہ قبل ایک بارسوخ شخص کو ایک یاد داشت انگریزی میں لکھ کر دی تھی ۔ میرا نہیں خیال کہ اس پر کوئی عمل ہوا ہے لیکن اتفاق سے ایسا عمل شروع کرنے کا نتیجہ سامنے ہے ۔ کیا یہی ہیں وہ طالبان جن کا ایم کیو ایم کے مُلک چھوڑ سربراہ ہر دوسرے چوتھے روز کرتے رہتے ہیں ؟

تفصیلات کے مطابق کے ای ایس سی کی ٹیم نے علاقہ پولیس کے ہمراہ بدھ کی دوپہر گلستان جوہر میں واقع پنک ریذیڈنسی کے غیرقانونی کُنڈوں کے خلاف کارروائی کا آغاز کیا ۔ جس پر غیرقانونی کُنڈوں کے خلاف کارروائی کرنے والی ٹیم کا مکینوں سے تصادم ہو گیا اور اُنہوں نے بعض کے ای ایس سی ملازمین کی پٹائی کر دی ۔ کے ای ایس سی نے 140 غیرقانونی کُنڈے کاٹ دیئے ۔ بعد میں کے ای ایس سی کو کچھ یا سب کنکشن بحال کرنا پڑے اور یہ بیان بھی دینا پڑا کہ کسی ملازم کی پٹائی نہیں ہوئی

ثقافت ۔ تغیّر پذیر یا جامد

ثقافت کے لُغوی معنی میں بیان کر چکا ہوں ۔ آج ثقافت کی تاریخ و صحت کا جائزہ لیتے ہیں ۔ اگر کہا جائے کہ ہندوؤں کی ثقافت میں ناچ گانا شامل ہے تو یہ درست ہے لیکن ہندوؤں کیلئے بھی یہ نہیں کہا جا سکتا کہ اُن کی ثقافت ناچ گانا ہے کیونکہ ناچ گانا ان کی ثقافت کا صرف ایک جُزو ہے اور ان کی ثقافت میں کئی اور عادات بھی شامل ہیں ۔ ناچ گانا پوجا پاٹ کا حصہ بنا دینے کی وجہ سے ہندوؤں کی ثقافت میں شامل ہو گیا اور یہ ناچ گانا وہ بھی نہیں ہے جو کہ مووی فلموں میں دکھایا جاتا ہے ۔ مسلمان کیلئے دین اول ہے اسلئے مسلمانوں کی ثقافت میں دین کا لحاظ لازمی ہے لیکن میرے اکثر ہموطن مسلمان ہوتے ہوئے ثقافت کو ناچ ۔ گانا ۔ تمثیل ۔ مصوّری ۔ بُت تراشی وغیرہ ہی سمجھتے ہیں

عام طور پر جو لوگ ثقافت پر زور دیتے ہیں اُن میں سے کچھ کے خیال میں شاید ثقافت ساکت و جامد چیز ہے اور وہ اسے موہنجو ڈارو کے زمانہ میں پہنچا دیتے ہیں ۔ جبکہ کچھ لوگ ثقافت کو ہر دم متغیّر قرار دیتے ہیں ۔ یہ دونوں گروہ اپنے آپ کو جدت پسند ظاہر کرتے ہیں ۔ مؤخرالذکر ثقافت کو اپنے جسم تک محدود رکھتے ہیں یعنی لباس ۔ محفل جمانا ۔ تمثیل ۔ ناچ گانا وغیرہ ۔ لُطف کی بات یہ ہے کہ ثقافت عوام کی اکثریت کا ورثہ اور مرہُونِ منت ہے جنہیں ثقافت کی بحث میں پڑنے کا شاید خیال بھی نہیں ہوتا یا جنہوں نے کبھی ثقافت پر غور کرنے یا اسے اُجاگر کرنے کی دانستہ کوشش نہیں کی

ثقافت ایک ایسی خُو ہے جو اقدار کی مضبوط بنیاد پر تعمیر ہوتی ہے ۔ میں ایک عام فہم مگر کراہت آمیز مثال دینے سے قبل معذرت خواہ ہوں کہ شاید کسی کے ذہن پر ناگوار گذررے ۔ یورپ اور امریکہ میں عورت اور مرد کا جنسی اختلاط عام ہے اور عرصہ دراز سے ہے ۔ کسی یورپی یا امریکن سے پوچھا جائے کہ کیا یہ جنسی اختلاط آپ کی ثقافت کا حصہ ہے تو وہ کہے گا کہ “نہیں ایسا نہیں ہے” ۔ اس کے برعکس کچھ ایسی عادات ہیں جسے اُنہوں نے غیروں سے اپنایا ہے مثال کے طور پر آجکل جسے ٹراؤزر یا پینٹ کہتے ہیں یہ دراصل منطلون یا منطالون ہے جسے عربوں نے گھوڑ سواری بالخصوص جنگ کے دوران کیلئے تیار کیا تھا ۔ یہ اب یورپ اور امریکہ کی ثقافت کا حصہ ہے گو اس کی شکل اب بدل چکی ہے اور اُن لوگوں ثقافت کا حصہ بن چکی ہے

اسی طرح کچھ کھانے ہیں جو اب یورپی اور امریکی ثقافت کا حصہ سمجھے جاتے ہیں لیکن ایشیا سے نقل کئے گئے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان میں سے کچھ اب ایشیا کی بجائے یورپ یا امریکہ کا خاصہ تصور ہوتے ہیں ۔ دورِ حاضر کا برگر جرمنی کا ہیمبُرگر تھا کیونکہ اسے ہیمبُرگ میں کسی شخص نے بنانا شروع کیا تھا ۔ اس سے قبل اس کا نام وِمپی تھا اور ترکی اور اس کے قریبی ایشیائی علاقہ میں بنایا جاتا تھا ۔ اُس سے پہلے یہ منگولوں کا سفری کھانا تھا ۔ شیش کباب جسے ولائیتی [یورپی] کھانا سمجھ کر کھایا جاتا ہے درصل سیخ کباب ہی ہے جو کہ ترکی کا کھانا تھا

ہندو عورتیں ایک ڈیڑھ گز چوڑی چادر پیچھے سے سامنے کی طرف لا کر داہنے والا سرا بائیں کندھے اور بائیں والا سرا داہنے کندھے کے اُوپر لے جا کر گردن کے پیچھے باندھ لیتی تھیں اور یہی ان کا لباس تھا ۔ لباس میں ساڑھی جسے کئی لوگ ہندوؤں کا پہناوا یا ثقافت کہتے ہیں ہندوؤں نے مسلمانوں سے نقل کیا جس کو مختلف اشکال دی گئیں اور عُریاں بھی بنا دیا گیا ۔ دراصل یہ عرب بالخصوص افریقی مسلمانوں کا لباس ساری تھا جو کہ مسلمان عورتیں بطور واحد لباس نہیں بلکہ اپنے جسم کے خد و خال چھپانے کی خاطر عام لباس کے اُوپر لپیٹ لیتی تھیں ۔ یہ ساری اب بھی افریقہ کے چند ملکوں بالخصوص سوڈان میں رائج ہے

کسی گروہ یا قوم کی زبان یا بولی بھی ثقافت کا حصہ ہوتی ہے اور ذریعہ تعلیم بھی ۔ ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ جو ہندسے عربوں نے بنائے وہ انگریزی بولنے والوں نے اپنا لئے اور اب جو ہندسے عربی میں استعمال ہوتے ہیں اُنہوں نے ہندوستان میں جنم لیا تھا

جو یورپ میں رومن ہندسے رائج تھے وہ لکھنے اور سمجھنے مشکل تھے

I – – II – – III – – IV – – V – – VI – – VII – – VIII – – IX – – X
XI – – XII – – XIII – – XIV – – XV – – XVI – – XVII – – XVIII – – XIX – – XX
XXI – – XXIX – – XXX – – XL – – L – – LX – – LXX – – LXXX – – XC – – C

جو ہندسے عربوں نے تخلیق کئے تھے لیکنیورپ اور امریکہ نے اپنا لئے یہ ہیں

1 – – 2 – – 3 – – 4 – – 5 – – 6 – – 7 – – 8 – – 9 – – 10
11 – – 12 – – 13 – – 14 – -15 – – 16 – -17 – – 18 – – 19 – – 20
21 – -29 – – 30 – – 40 – – 50 – – 60 – – 70 – – 80 – – 90 – – 100

جن ہندسوں نے ہندوستان میں جنم لیا اور عربوں نے اپنا لئے ۔

۱ ۔ ۔ ۔ ۲ ۔ ۔ ۔ ۳ ۔ ۔ ۔ ۴ ۔ ۔ ۔ ۵ ۔ ۔ ۔ ۶ ۔ ۔ ۔ ۷ ۔ ۔ ۔ ۸ ۔ ۔ ۔ ۹ ۔ ۔ ۔ ۱۰
۱۱ ۔ ۔ ۔ ۱۲۔ ۔ ۔ ۱۳ ۔ ۔ ۔ ۱۴ ۔ ۔ ۔ ۱۵ ۔ ۔ ۔ ۱۶ ۔ ۔ ۔ ۱۷ ۔ ۔ ۔ ۱۸ ۔ ۔ ۔ ۱۹ ۔ ۔ ۔ ۲۰
۲۱ ۔ ۔ ۔ ۲۹۔ ۔ ۔ ۳۰ ۔ ۔ ۔ ۴۰ ۔ ۔ ۔ ۵۰ ۔ ۔ ۔ ۶۰ ۔ ۔ ۔ ۷۰ ۔ ۔ ۔ ۸۰ ۔ ۔ ۔ ۹۰ ۔ ۔ ۔ ۱۰۰

متذکرہ بالا تو ثقافت کے وہ اجزاء ہیں جو تبدیل ہوتے رہتے ہیں اور ان کے تبدیل ہونے میں کوئی قباحت نہیں ہے اور انسانی ب
ہتری کیلئے ان میں تبدیلی ہوتے رہنا چاہیئے ۔ مگر اقدار میں وہ وصف شامل ہیں جن کی بنیاد خالقِ کائنات نے اپنی مخلوق کی نہتری کیلئے مقرر کر دی ہے ۔ کمپیوٹر کو فی زمانہ سب جانتے ہیں کہ بہت کارآمد آلہ ہے اور متعدد قسم کے کام سرانجام دیتا ہے مگر یہ سب کام کمپیوٹر کے خالق کے مقرر کردہ ہیں ۔ کمپیوٹر ان مقررہ حدود سے باہر نہیں جاتا ۔ اگر ایسا کرنے کی کوشش کی جائے تو کمپیوٹر خراب ہو جاتا ہے یا خراب ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے ۔ یہی حال انسان کا ہے ۔ فرق یہ ہے کہ انسان کے خالق نے انسان کو کچھ اختیار دیا ہوا ہے لیکن ساتھ ہی انسان کا نصب العین بھی مقرر کر دیا ہے اور اس پر واضح کر دیا ہوا ہے کہ غلط عمل کا نتیجہ اچھا نہیں ہو گا ۔ اس لئے انسان کیلئے لازم ہے کہ انسانیت یا خود اپنی بہتری کیلئے اُن اقدار کو جو اس کی ثقافت کا اہم حصہ ہیں نہ بدلے اور ان پر قائم رہے ۔ وہ اقدار ہیں سلوک ۔ عدل ۔ عبادت ۔ تعلیم ۔ انتظام ۔ وغیرہ

میرا اس بلاگ سے مُختلِف انگريزی میں بلاگ مندرجہ ذیل یو آر ایل پر کلِک کر کے يا اِسے اپنے براؤزر ميں لکھ کر پڑھيئے

Reality is Often Bitter – – http://iabhopal.wordpress.com

– – حقیقت اکثر تلخ ہوتی ہے