Monthly Archives: January 2006

اِنَّا لِلّهِ وَاِنَّآ اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ

میں اِنتہائی دکھ کے ساتھ لکھنے پہ مجبور ہوں کہ میرے پیارے ساتھی میرے مخلص دوست میرے ہمدرد بھائی اور میری پیاری بہو بیٹی عنبرین زکریّا کے والد محترم چوہدری محمد عاصم صاحب پاکستان میں عید الاضحی کے دن (11 جنوری) شام تقریباً ساڑھے پانچ بجے اچانک حرکتِ قلب بند ہو جانے سے وفات پا گئے ۔ اِنَّا لِلّهِ وَاِنَّآ اِلَیْهِ رَاجِعُوْنَ

میں دست بدعا ہوں اور میری تمام قارئین سے التماس ہے کہ اللہ سے مرحوم کے لئے دعائے مغفرت کیجئے اور دعا کیجئے کہ اللہ تعالی بیٹی عنبرین ۔ عنبرین کی والدہ ۔ دونوں بھائیوں اور پھوپھو کو صبر جمیل عطا فرمائے ۔ آمین یا ربِ العالمین ۔

بھائی عاصم صاحب ایک خود ساز۔ اپنے فن کے ماہر۔ بہت محنتی اور بہت سادہ طبیعت انسان تھے ۔ وہ باعمل اور حلیم طبع مسلمان تھے ۔ وہ ہر ایک کے ہمدرد اور ہر ایک سے مخلص تھے ۔ وہ اپنی مرضی کرنے کی بجائے دوسرے کی خوشی میں خوش رہتے ۔

پاکستان بننے پر گیارہ سال کی عمر میں سوائے دو ماموں ایک بڑے بھائی اور ایک چھوٹی بہن کے والدین سمیت تمام بزرگوں کی لاشیں بھارت میں چھوڑ کر پاکستان پہنچے ۔ ایف ایس سی پاس کرنے کے بعد ماموں صاحبان بھی راہیءِ ملکِ عدم ہوئے تو کراچی شپ یارڈ میں بطور اپرنٹس بھرتی ہو گئے اور فاؤنڈری پریکٹس میں تعلیم و تربیّت حاصل کی ۔ کچھ سال بعد پاکستان آرڈننس فیکٹریز ۔ واہ کینٹ سے منسلک ہو گئے اور اپنی لگن اور شب و روز محنت سے چند ہی سالوں میں فاؤنڈری کے ماہرین میں شمار ہونے لگے ۔ ملک کے بڑے بڑے کارخانوں نے اُن کے ماہرانہ مشوروں سے استفادہ کیا ۔

تیرہ سال میرا اُن سے بہت قرب رہا ۔ میری تمام تر کوشش کے باوجود اُنہوں نے کبھی اپنی خواہش کا اظہار نہ کیا اور ہمیشہ مجھ ہی سے کہا “آپ بتائیں یہ کیسے کیا جائے ؟” میں کہتا کہ یہ آپ کی خواہش کے مطابق کرنا ہے تو کہتے “میری خوشی اُس میں ہے جو آپ کریں” اور میں لاجواب ہو جاتا ۔ ایسا بھائی ایسا دوست مجھے ڈھونڈے نہ ملے گا ۔

اللہُ اکبر

اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر اللہُ اکبر لا اِلہَ اِلاللہ و اللہُ اکبر اللہُ اکبر و للہِ الحمد
اللہُ اکبر کبِیرہ والحمدُللہِ کثیِرہ و سُبحَان اللہِ بکرۃً و أصِیلا

عید مبارک

 

اللہ سُب٘حانُہُ و تَع٘الی آپ سب کے لئے سینکڑوں خوشیوں بھری عیدیں لائے۔ آمین ۔
اُمید کی جاتی ہے کہ آپ اِس عید پر زلزلہ کے متاءثرین کو بھی اپنی خوشیوں اور صحبت کا کچھ حِصّہ عطا فرمائیں گے

برفاں دے گولے ۔ ملائی دی برف

پنجاب کے رہنے والے اگر اِن صداؤں سے واقِف نہیں تو پھر وہ کچھ نہیں جانتے ۔برفاں دے گولے ۔ ٹھنڈے تے مِٹھے ۔ پیئو تے جیو ۔ ۔ ۔ ملائی دی برف اے

پُرانی بات ہے ۔ ہم چند دن پہلے شمالی علاقوں میں کچھ دن قیام کے بعد واپس آئے تھے ۔ ہمارے ہاں کچھ مہمان آ گئے ۔ اُن کے چھوٹے چھوٹے بچوں کو میں برفانی پہاڑوں کی تفصیل بتا رہا تھا کہ ایک بچّہ بولا “پھر تو وہاں کے بچّے خوب برف کے گولے اور آئس کریم کھاتے ہوں گے” ۔

آجکل حارث بن خُرّم اور قدیر احمد رانا صاحبان بھی برف کے گولے اور آئس کریم کھا رہے ہوں گے ۔ چند دن قبل حارث بن خُرّم صاحب کی ای میل ملی کہ ملتان میں بہت سردی پڑ رہی ہے ۔ اُن کی ڈھارس بندھانے کے لئے سرفراز شاہد صاحب کے یہ شعر

لبوں پہ آ کے قلفی ہو گئے اشعار سردی ميں
غزل کہنا بھی اب تو ہو گیا دشوار سردی میں
محلے بھر کے بچوں نے دھکیلا صبح دم اس کو
مگر ہوتی نہیں اسٹارٹ اپنی کار سردی میں
کئی اہل نظر اس کو بھی ڈسکو کی ادا سمجھے
بچارا کپکپایا جب کوئی فنکار سردی ميں

مُنڈیا سیالکوٹیا

کِسی زمانہ میں ملکہءترنّم نورجہاں کا ایک گانا بہت مشہور ہوا تھا
۔تیرے مکھڑے تے کالا کالا تِل وے
وے مُنڈیا سیالکوٹیا

سو میں سیالکوٹی مُنڈے (سیالکوٹ کے لڑکے) کی شادی خانہ آبادی میں شرکت کے لئے سیالکوٹ اور لاہور گیا تھا ۔ میں شائد سات آٹھ سال بعد سیالکوٹ گیا ۔ شادی کا احوال اور سفر کی روئیداد انشاء اللہ جلد

یادِ ماضی تلخ بھی شیِریِں بھی

ماضی کی یادوں کے متعلق ایک شاعر نے کہا “یادِ ماضی عذاب ہے یارو چھین لے کوئی حافظہ میرا ” ۔ مگر میرا خیال ہے کہ ماضی کے لمحات خواہ کتنے ہی تلخ رہے ہوں سالہا گذر جانے کے بعد جب انسان کو اُن کی یاد آتی ہے تو ایک عجیب سی مٹھاس محسوس ہوتی ہے ۔آج صبح سویرے بیٹا زکَرِیّا بہو بیٹی اور میری پیاری پوتی مشَیل اٹلانٹا روانہ ہو گئے ۔ دو ہفتے ماشا اللہ خوب رونق لگی رہی ۔ چند دن قبل ہم سب لاؤنج میں بیٹھے تھے کہ میری بیوی نے ہمیں متوجہ کیا اور سٹیریو پلیئر چلا دیا ۔ 26 سال پہلے کی میری اور میرے تینوں بچوں کی بولنے اور ہنسنے کی آوازیں ۔ بہت لطف آیا ۔ اُس وقت زکَرِیّا تقریباً ساڑھے آٹھ سال کا تھا ۔ زکَریّا تینوں میں بڑا ہے ۔ ٹیپ چلتے چلتے ایک گانا آ گیا جسے سن کر سوچ کی اُڑان مجھے ماضی بعید میں تقریباً چھیالیس سال پیچھے لے گئی جب میں نے پہلی بار یہ گانا گایا تھا ۔

میں ابھی انجنیئرنگ کالج میں داخل نہیں ہوا تھا کہ میرے والد صاحب بیمار ہو گئے ۔ راولپنڈی میں سال بھر علاج سے کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ بیماری کی تشخیص نہیں ہو رہی تھی ۔ لاہور میں ڈاکٹر توفیق جنہیں فادر آف میڈیسن کہا جاتا تھا اُن سے علاج کے لئے والد صاحب کو گنگا رام ہسپتال لاہور میں داخل کرا دیا ۔ چھ ماہ وہاں رہ کر تشخیص ہو گئی تو گھر آ گئے ۔ مزید دو سال بیمار رہنے کے بعد وہ ٹھیک ہوئے ۔ اِن ساڑھے تین سالوں میں والد صاحب کے بزنس مینجر نے منافع کو نقصان میں بدل دیا ۔ گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہونے پر میں کالج روانہ ہونے لگا تو والد صاحب کے پاس میرے اخراجات کے لئے رقم نہ تھی ۔ میری بڑی بہن جو ڈاکٹر ہیں اوراُن کی شادی ہو چکی تھی نے مجھے 9 ماہ کا خرچ 900 روپیہ دیا ۔ میرا دل جیسے بیٹھ گیا مگر اس وقت پڑھائی کو خیرباد کہنا خاندان کے مفاد میں نہ تھا۔ میں بوجھل دِل لئے لاہور پہنچ گیا۔ کلاسز شروع ہونے میں چند دن باقی تھے اسی دن کئی لڑکے ہوسٹل میں پہنچ گئے ۔ کمرہ الاٹ کروا کر صفائی کروائی ۔ میس ابھی چالُو نہ ہوا تھا ۔ گڑھی شاہو جا کر کھانا کھایا اور سو گئے ۔ دوسرے دن پانچ سات ہم جماعت اکٹھے بیٹھے تھے ۔ وقت گذارنے کے لئے تجویز ہوا کہ سب باری باری گانا گائیں ۔ میری باری آئی ۔ میرا دل افسردا تھا اور بولنے کو بھی نہیں چاہ رہا تھا کُجا گانا ۔ میں نے کہا “مجھے گانا نہیں آتا” تو ایک طوفان مچ گیا “جھُوٹ جھُوٹ ۔ ہر پکنک پر تم نے گایا ۔ راوی میں کشتی رانی کرتے تم نے گایا ” ۔ جان کی خلاصی نہ ہو رہی تھی ۔ اچانک مجھے ایک حسبِ حال گانا یاد آیا اور میں نے نظریں نیچی کر کے گانا شروع کیا ۔ گا چُکا تو کچھ ایسا احساس تھا کہ کہیں میری چوری تو نہیں پکڑی گئی ۔ اچانک ایک ہم جماعت مجھ سے لپٹ گیا اور کہنے لگا “اجمل ۔ سچ بتاؤ کیا بات ہے ؟ تم نے تو ہمیشہ ہمیں ہنسایا ہے آج رُلا کیوں دیا ؟ “۔ میں نے بڑی مشکل سے نظریں اُٹھا کر دیکھا تو دو لڑکے اپنی آنکھیں پونچھ رہے تھے ۔ کسی نے سچ کہا تھا ۔ “جب دِل کو ٹھیس لگتی ہے تو موسیقی کے تار خود بخود بجنے لگتے ہیں”۔

میرے ساتھیوں نے اُس وقت میری بہت حوصلہ افزائی کی اور سارا سال میرا بہت خیال رکھا ۔ آج اُس وقت کی یاد مجھے افسردہ کم اور روح پرور زیادہ محسوس ہوئی ۔

گانا یہ تھا ۔
رات بھر کا ہے مہماں اندھیرا
کس کے روکے رُکا ہے سویرا
رات جتنی بھی سنگین ہو گی
صبح اتنی ہی رنگین ہو گی
غم نہ کر ۔ گر ہے بادل گھنیرا
کس کے روکے رُکا ہے سویرا
یونہی دنیا میں آ کر نہ جانا
صرف آنسو بہا کر نہ جانا
مسکراہٹ پہ بھی حق ہے تیرا
کس کے روکے رُکا ہے سویرا
آ۔ مل کے کوئی تدبیر سوچیں
سُکھ کے سپنوں کی تعبیر سوچیں
جو تیرا ہے وہی غم ہے میرا
کس کے روکے رُکا ہے سویرا
لب پہ شکوہ نہ لا ۔ اشک پی لے
جس طرح بھی ہو کچھ دیر جی لے
اب تو اُٹھنے کو ہے غم کا ڈیرہ
کس کے روکے رُکا ہے سویرا

آپ سب کا شکریہ

جزّاکَ اللہِ خیرٌ
نئے سال کے لئے بہت سے بلاگرز نے مجھے خاص ذاتی سطح پر اچھی دعائیں اور نیک خواہشات ارسال کی ہیں ۔ انتہائی پیاری اور پُر خلوص ۔ میری دلی دعا ہے کہ اللہ سُبحَانُہُ و تَعَالی آپ سب کو اور آپ کے خاندان کے تمام افراد کو صحت و تندرستی دے رزقِ حلال واسع عطا کرے آپ میں اتفاق و محبت قائم رکھے نیک مقاصد میں کامیاب کرے اور ہمیشہ خوش و خُرم رکھے آمین